غصہ آنے پر ندا یاسر کیا کرتی ہیں، یاسر نواز نے مخبری کردی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
یاسر نواز اور ندا یاسر کا شمار پاکستان کی مقبول ترین جوڑیوں میں ہوتا ہے۔ اس جوڑی کے 3 بچے ہیں اور یہ بیک وقت اپنے کیریئر کے ساتھ انصاف کرنے اور شادی نبھانے میں کامیاب ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ندا یاسر کا مارننگ شو کرنا پسند نہیں تھا‘، یاسر نواز
یہ جوڑا اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بہت کھلا ہے اور زیادہ ڈپلومیٹک ہوئے بغیر جو دل کی بات ہوتی ہے وہ کہہ دیتا ہے۔
یاسر نواز عید کے لیے سماء ٹی وی کے مہمان تھے اور انہوں نے اسٹار اہلیہ ندا سے اپنی شادی شدہ زندگی کے حوالے سے کچھ دلچسپ انکشافات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ ندا کی کوئی بات نہیں مانتے تو بہت ہی غصے میں آجاتی ہیں۔ اداکار و ہدایتکار کا کہنا تھا کہ ندا کو بعض اوقات بہت غصہ آتا ہے، انہوں نے اپنی زندگی کے 2 واقعات کا حوالہ دیا۔
یاسر نواز کا کہنا تھا کہ ایک بار ندا کا ان سے جھگڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اونچی آواز میں ٹی وی دیکھنا شروع کیا تو ندا کو غصہ آگیا۔ انہوں نے بتایا کہ ندا نے ٹیلی ویژن پر اسٹیل کی بوتل پھینک کر مار دی اور اسے توڑ دیا۔
مزید پڑھییے: ندا یاسر نے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت کیسے دی؟
اسی طرح کا ایک اور واقعہ سناتے ہوئے یاسر نے بتایا کہ ندا نے مجھ سے ایک اداکارہ کو اپنے ڈرامے میں کاسٹ نہ کرنے کا کہا لیکن میں نے بات ماننے سے انکار کیا تو ندا کو اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے میرے لیپ ٹاپ پر کود کود کر اسے توڑ ڈالا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ندا یاسر ندا یاسر کا غصہ یاسر نواز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ندا یاسر ندا یاسر کا غصہ یاسر نواز یاسر نواز ندا یاسر انہوں نے
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔