وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ قومی معیشت درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے، معاشی استحکام کو پائیدار معاشی استحکام میں بدلنا ہوگا۔ زرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے، شرح سود میں نمایاں کمی ہوئی ہے تاہم مزید کمی کی گنجائش ابھی موجود ہے۔ اندرونی محاذ پر افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے، مہنگائی میں کمی عوام تک منتقل ہونی چاہیے۔
پاکستان جس معاشی بحران میں پھنسا ہوا تھا، اب وہ خاصی حد کم ہوگیا ہے اور ملک اقتصادی استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہے ۔ پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس میں ہے، افراط زر میں بھی کمی آئی ہے۔
حکومتی پالیسیاں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی مثبت ریٹنگ پاکستان کی معیشت میں بہتری کی گواہی دے رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ مستحکم ہے، غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر ہوگئے ہیں، ان تمام پالیسیوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام عام کی سخت شرائط کا بھی سامنا ہے۔
اس کا براہ راست اثر عام شہریوں پر پڑتا ہے، قیمتوں میں اضافہ اور روزگار کے مواقعے میں کمی جیسی مشکلات سامنے آتی ہیں۔ان مشکلات کے باوجود ملک کی معیشت کو سنبھالا ملا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ حکومت کو بجٹ سرپلس حاصل ہوا ہے، جو معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگرچہ بجٹ سرپلس ایک اچھی علامت ہے، لیکن طویل مدتی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ محصولات میں اضافہ کیا جائے اور عوام کو معاشی ترقی کے فوائد پہنچائے جائیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا اور ٹیکس چوری کو کم کرنا ہے۔ ملک میں ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب اب بھی کم ہے، جو معاشی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے کہ پاکستان اپنے ٹیکس نیٹ کو بڑھائے اور ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرے۔ حکومت نے اصلاحات کی ہیں، لیکن ابھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔پاکستانی معیشت اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
جن میں بجٹ سرپلس حاصل کرنے کے باوجود ٹیکس وصولیوں میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیرونی قرضوں کی واپسی جیسے مسائل شامل ہیں، اگرچہ کچھ معاشی اشاریے مثبت نظر آرہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر معیشت اب بھی دباؤ میں ہے۔ پاکستان کے لیے ٹیکس ہدف پورا کرنا ایک مستقل مسئلہ رہا ہے، اگرچہ حکومت مختلف اصلاحات متعارف کرا رہی ہے، لیکن اب بھی ٹیکس نیٹ محدود ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد ٹیکس ادائیگی سے گریز کرتی ہے۔ کاروباری سرگرمیوں میں کمی، غیر رسمی معیشت کا بڑا حصہ اور ٹیکس چوری جیسے عوامل بھی ٹیکس وصولیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ کمزور ٹیکس بیس کی وجہ سے حکومت کو قرضوں اور دیگر ذرایع پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جس سے مالی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔
پاکستان کو آیندہ چند برسوں میں اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے واپس کرنے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی اور تجارتی خسارے کی موجودگی کے باعث قرضوں کی بروقت ادائیگی مشکل ہو سکتی ہے، اگر حکومت ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے حاصل کرتی ہے تو یہ ایک چکر بن سکتا ہے۔
جہاں قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینا پڑے۔ اس صورتحال میں، معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو فروغ دینا، اور درآمدات کو محدود کرنا ناگزیر ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے گلوبل رسک رپورٹ 2025 جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ خطے میں اسلحے کی دوڑ کے باوجود پاکستان کی محتاط سوچ لائق تحسین ہے۔ دنیا بھر میں فوجی بجٹ میں اضافہ ہوا لیکن پاکستان اسلحے کی دوڑ کا حصہ دار نہیں بنا۔
ٹیکس کا موثر نظام کسی بھی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنے ٹیکس سسٹم میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ محصولات میں اضافہ ہو اور مالیاتی خسارہ کم کیا جا سکے۔ ٹیکس چوری کے خلاف سخت کارروائی، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا، نظام کو آسان اور شفاف بنانا اور کاروباری افراد کو ترغیب دینا کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نظام کا حصہ بنیں، یہ سب ضروری اقدامات ہیں۔ سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے دوستانہ پالیسیوں کا نفاذ، بنیادی ڈھانچے کی بہتری، خصوصی اقتصادی زونز کا قیام، سیاسی استحکام کو یقینی بنانا اور ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔
توانائی کا بحران پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ڈال رہا ہے، کیونکہ صنعتوں اور کاروباری اداروں کی پیداوار کا انحصار سستی اور مسلسل بجلی کی فراہمی پر ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرایع جیسے کہ سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور پر توجہ دینا، بجلی کی چوری اور لائن لاسز کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، توانائی کے منصوبوں میں نجی شعبے کی شراکت داری کو فروغ دینا اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کر کے مقامی وسائل کو بروئے کار لانا اس بحران کے حل کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔
گزشتہ مہینوں میں، 120 سے زائد اصلاحات مختلف شعبوں میں نافذ کی گئیں، جن میں گورننس، اقتصادی پالیسی، قانونی فریم ورک، اور ادارہ جاتی کارکردگی شامل ہیں۔ یہ اقدام پالیسی تبدیلیوں کا درست اور شفاف ریکارڈ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا تاکہ پالیسی ساز ادارے، کاروباری برادری اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے بدلتے ہوئے گورننس ماڈل کے ساتھ موثر انداز میں جڑ سکیں اور ان کا تجزیہ کرسکیں۔
وفاقی حکومت میکرو استحکام کے لیے کوشاں ہے، مائیکرو استحکام بھی اس کے ساتھ جڑا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ عوامی قوتِ خرید بڑھانے کے اقدامات کی جانب توجہ دی جائے۔ اس سلسلے میں کثیر جہتی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوجوان جو بے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہیں کو مختلف ہنر سیکھ کر روزگار کے لیے خود کفیل بنایا جا سکتا ہے۔ یہی ہنر نوجوانوں کو بیرونِ ملک ملازمت کے مواقعے حاصل کرنے میں بھی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ منصوبے معیشت کے لیے انقلابی تبدیلی کا سبب نہ بھی بنیں تو کم از کم بہت حد تک بے روزگاری کے مسائل کم ضرور کرسکتے ہیں۔
حکومت کو نہ صرف بنیادی مالیاتی سرپلس کو یقینی بنانے کے لیے بہت زیادہ آمدنی اکٹھا کرنے کی ضرورت ہوگی بلکہ غیر ٹیکس والے شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔ حیرت کی بات نہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مزید ’ڈیجیٹلائزیشن‘ کے ذریعے محصولات میں اضافے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔ سرکاری ملکیت والے اداروں کو نج کاری کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی، چونکہ نج کاری کے محاذ پر حکومت کو کامیابی نہیں ملی ہے۔
پاکستان کی معیشت کو درپیش مسائل میں ایک بڑی رکاوٹ مالیاتی نظم و ضبط کی کمی ہے۔ ٹیکس وصولیوں کا حجم کم ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو بار بار قرضے لینے پڑتے ہیں، نتیجتاً ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر ضروری سرکاری اخراجات، کرپشن اور غیر موثر سبسڈی نظام بھی مالیاتی عدم استحکام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں میں بنیادی اصلاحات متعارف کرائے۔
ان اصلاحات میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا، محصولات کو بڑھانا، غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنا اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، معیشت کو خود کفیل بنانے کے لیے برآمدات کو فروغ دینا، درآمدات پر انحصار کم کرنا اور ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف، کے ساتھ معاہدے سے قبل بھی پاکستان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کو شفاف اور پائیدار بنائے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے وقتی ریلیف تو حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ دیرپا حل نہیں۔ مستقل بہتری کے لیے پاکستان کو داخلی سطح پر مالیاتی پالیسیوں کو مستحکم اور دور رس اصلاحات پر عمل درآمد کرنا ہوگا ۔
معاشی استحکام کے لیے مزید ضروری ہے کہ حکومت صنعتی ترقی، زرعی اصلاحات، اور کاروباری مواقعے میں اضافہ کرے تاکہ روزگار پیدا ہو اور ملک میں مجموعی اقتصادی ترقی ممکن ہو سکے۔ صرف ایک جامع اور دیرپا حکمت عملی ہی پاکستان کو مالی بحرانوں سے نکال کر معاشی استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشی پالیسیوں میں توازن قائم رکھے تاکہ عوام پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ پاکستان کی معیشت کو طویل مدتی استحکام کی ضرورت ہے، جس کے لیے جامع اور موثر حکمت عملی کی تشکیل ناگزیر ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کی معیشت غیر ملکی سرمایہ ملکی سرمایہ کا کم کرنے کے لیے معاشی استحکام کے لیے ضروری میں اضافہ ہو سرمایہ کاری ا ئی ایم ایف ٹیکس نیٹ کو ضروری ہے کہ کی معیشت کو پاکستان کے پاکستان کو حکومت کو کہ حکومت کی ضرورت سکتا ہے کو فروغ رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
ایف ای ڈی کا خاتمہ خوش آئند، پراپرٹی سیکٹر میں بہتری آئے گی ، راجہ سجاد حسین
ایف ای ڈی کا خاتمہ خوش آئند، پراپرٹی سیکٹر میں بہتری آئے گی ، راجہ سجاد حسین WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سٹی رپورٹر)نیو ایئرپورٹ سٹی کے چیئرمین راجہ سجاد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا خاتمہ احسن اقدام ہے جس سے نہ صرف پراپرٹی کی خرید فروخت میں بہتری آنے سے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوگا بلکہ اس سے حکومت کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا،حکومت ملک میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ اور معاشی استحکام کیلئے درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔اس سلسلے میں ٹاسک فورس کی دیگر تجاویز پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے، نیو ایئرپورٹ سٹی کے چیئرمین راجہ سجاد حسین نے ان خیالات کا اظہار میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا
راجہ سجاد حسین کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کا خیر مقدم کرتے ہیں،ایف ای ڈی کے خاتمے سے پراپرٹی کی خرید و فروخت میں بہتری آئے گی ،وزیر اعظم کی ٹاسک فورس برائے ہاؤسنگ کی سفارشات کے بعد سامنے آنے والے اس فیصلے سے نہ صرف ملک میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو فروغ حاصل ہوگا اور اس مثبت فیصلے کے بعد نہ صرف رجسٹریشن کے عمل میں آسانی کے ساتھ صوبائی حکومتوں کو جائیداد کی مد میں موصول ہونے والے ٹیکسز اور اسٹامپ پیپر ڈیوٹی سےہونے والی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی سرگرمیوں کو بھی فروغ حاصل ہوگا
اجہ سجاد کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں معاشی سرگرمیوں کے فروغ اور معاشی استحکام کے لئے درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اس ضمن میں ہم حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں حال ہی میں اوور سیز کنونشن میں اوور سیز نے غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لئے بہتر سے بہتر پالیسیاں عمل میں لائے اور ضرورت ا س امر کی ہے کہ حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لئے بہتر سے بہتر پالیسیاں عمل میں لائے تاکہ ملکی معیشت جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ امریکا کے ساتھ معاشی روابط اور ٹیرف کا معاملہ، وزیرخزانہ کا اہم بیان سامنے آگیا سینیٹ اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر، چیئرمین سینیٹ نے ثانیہ نشتر کا استعفیٰ قبول کیا اور معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیا ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبداللہ کو سیالکوٹ میں بہترین سفیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل نہروں کا معاملہ،خیبرپختونخوا حکومت چشمہ رائٹ کینال منصوبے کیلئے متحرک ہوگئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم