لباس ہماری بنیادی ضرورت ہی نہیں، ہمارے قلب اور وجود پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتا ہے، یہ ہمارے رکھ رکھاؤ کی خبر دیتا ہے، ہماری شخصیت کا آئینہ دار اور ہماری ثقافت کا عکاس ہوتا ہے۔
یہ کپڑے ہمارے مزاج اور ذوق کے ساتھ ساتھ موسم کے اتار چڑھاؤ کی خبر بھی بہ خوبی دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے سرد موسم سے بچاؤ کے لیے گرم لباس زیب تن کیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی موسم گرما ٹھنڈے اور لان کے دیدہ زیب کپڑوں کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ سورج کی بڑھتی ہوئی تمازت کے ساتھ ہی خواتین ٹھنڈے اور ہلکے پھلکے لباس زیب تن کرنا پسند کرتی ہیں، جو انھیں نہ صرف چلچلاتی دھوپ میں آرام پہنچاتے ہیں، بلکہ دیکھنے والی آنکھوں کو بھی بہت بھلے معلوم ہوتے ہیں۔
ان دنوں انواع اقسام کی لان اپنے دیدہ زیب ڈیزائنوں اور رنگوں کے خوب صورت امتزاج کے ساتھ دست یاب ہے، جو مختلف ڈیزائنروں کی محنت کا شاخسانہ ہوتی ہیں۔ لان کی خریداری کے حوالے سے خواتین کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کے باعث اس پہناوے کا چرچا گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے، ساتھ ہی اس شعبے میں جدت، تنوع اور معیار میں بھی روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ساتھ ہی باذوق خواتین اس کی مختلف تراش خراش کے ذریعے اس کی خوب صورتی کو بھی دوبالا کر دیتی ہیں اور خواتین کے مختلف پہناوں میں لان سے تیار کردہ مختلف ملبوسات دکھائی دیتے ہیں۔
خواتین موسم کے پہناوں کے حوالے سے زیادہ حساس واقع ہوئی ہیں۔ اسی لیے موسم گرما کی آمد کے ساتھ عام طور پر بھی ریشمی کپڑوں کی جگہ لان کے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ جیسے جیسے گرمی کی لہر بڑھتی جاتی ہے، ویسے ہی ہر طرف سوتی اور لان کے کپڑے اپنی بہار دکھانے لگتے ہیں۔ اس ہی لیے پاکستان میں موسم گرما کو لان کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ موسم کے تیور بدلتے ہی خواتین لان کے کپڑوں کی خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرنے لگتی ہیں۔
ٹھنڈے ملبوسات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث اس میں نت نئی جدتیں کی جانے لگی ہیں۔ لان کے کپڑے بناتے ہوئے اپنی عمر کے حساب سے فیشن اوررنگوںکا انتخاب کیا جائے، تو پہننے والی شخصیت ہر مقام پر منفرد نظر آتی ہے۔ پہلے گھریلو تقریبات میں لان یا سوتی کپڑے پہننے کا رواج عام نہیں ہوتا تھا، مگر اب لان کے کپڑوں پر کڑھائی اور شیفون کے دوپٹوں کے ساتھ ان کو اتنا دیدہ زیب بنا دیا گیا ہے کہ خواتین بڑے آرام سے ان کو دن کی تقریبات میں بھی زیب تن کر لیتی ہیں۔
اس طرح جدت کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ آگ برساتے موسم میں گرمی کی شدت کا احساس بھی کم ہونے لگتا ہے۔ لان کے سلے سلائے کپڑوں کا انگرکھا، کرتا، فراک ٹین ایجر لڑکیوں کو بہت بھاتا ہے۔ ان کپڑوں کی پشت پر دستی یا مشین کی کڑھائی سے اس کا حسن اور بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض ملبوسات کے لیے خواتین سلائی کراتے ہوئے کڑھائی بھی کراتی ہیں تاکہ اسے من چاہے رنگوں سے مزین کر کے دیکھنے والوں کی نظروں کو بھا سکیں۔ اس کے علاوہ آج کل لان میں بارڈرز اور بڑے بڑے فینسی بٹنوں کا رواج بھی کافی زیادہ عام دکھائی دیتا ہے۔
دیدہ زیب رنگوں سے آراستہ لان کے خوب صورت پیرہن عمر کی قید سے آزاد شمار کیے جاتے ہیں، چھوٹے سے لے کر بڑے تک سبھی خواتین اسے بہت سہولت سے اپنے ذوق کے مطابق زیب تن کرتی ہیں، رہا سوال قیمت کا تو یہ بھی اپنی جیب کے حساب سے منتخب کی جاسکتی ہے۔ لان کے منہگے ترین تھری پیس جوڑے بڑے احتیاط سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے ڈیزائن، اور رنگوں کا امتزاج ہمیشہ منفردرکھے جاتے ہیں۔
خواتین کی اپنے لباس کی انفرادیت کے بارے میں حساس ہونے کے باعث نئے سے نئے نقش ونگار اور رنگوں والے سوٹ مہنگی قیمت پر بھی فروخت ہوجاتے ہیں۔ آج کل خواتین لان کے کپڑوں میںکلاسک اور جدید ڈیزائن کا امتزاج اور گرافک پرنٹ کو ترجیح دیتی ہیں، جب کہ کچھ خواتین کی پسند تیز رنگوں کے متضاد رنگوں کے، پولکا ڈاٹ یا پتوں پھولوں والے ڈیزائن کی لان کی ہوتی ہے۔
الغرض موسم کے بدلتے تیور جس طرح درختوں کے پیرہن بدلنے سے ظاہر ہوتے ہیں، بالکل اس ہی طرح بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ اب خواتین بھی اپنے ملبوسات میں تبدیلی، جدت اور انفرادیت کا حصول چاہتی ہیں۔ اس لیے اس موسم سرما میں آپ بھی ٹھنڈے پیرہن کے ذریعے نہ صرف خود کو پرسکون رکھ سکتی ہیں، بلکہ اپنی شخصیت کو بھی جاذب نظر بنا سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاتے ہیں کے ساتھ موسم کے لان کے
پڑھیں:
القسام کی کارروائی بچوں و خواتین کے خون اور گھروں کی تباہی کا انتقام ہے، حماس رہنماء
اپنے ایک جاری بیان میں سامی ابو زھری کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا! فلسطین کے حوالے سے باتوں کی بجائے کوئی عملی قدم اٹھائے۔ قبضے کا خاتمہ ہو اور ہماری قوم کی زندگی، آزادی و وقار کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے رہنماء "سامی ابو زهری" نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں صیہونی رژیم کے خلاف القسام بریگیڈ کی تازہ ترین کارروائی اسرائیل کے سنگین جنگی جرائم کا فطری جواب ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی ان لوگوں کا انتقام ہے جو انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ القسام بریگیڈ روزانہ کی بنیاد پر دشمن کو بھاری نقصان پہنچا رہی ہے کہ جس کا واضح ترین نمونہ آج خان یونس و جبالیہ میں سامنے آیا۔ سامی ابو زھری نے کہا کہ یہ کارروائی اس قدر اثر رکھتی ہے کہ جس نے جنگی مجرم "نتین یاہو" کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آج کا دن بہت سخت اور اندوہناک ہے۔ حماس رہنماء نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان کی سرزمین کے قبضے کے خاتمے کے لئے فوری بین الاقوامی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا! فلسطین کے حوالے سے باتوں کی بجائے کوئی عملی قدم اٹھائے۔ قبضے کا خاتمہ ہو اور ہماری قوم کی زندگی، آزادی و وقار کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ آخر میں سامی ابو زھری نے غزہ میں ہونے والے جرائم پر عالمی برادری کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی خاموشی ناقابل جواز ہے۔ آج ہمیں ایک ایسا واضح موقف اپنانے کی ضرورت ہے جس میں قتل و محاصرے کا خاتمہ اور جارحین کا ہاتھ روکنا شامل ہو۔