نیتن یاہو سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنیوالے اسرائیلی پائلٹس نوکری سے برطرف
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
یہ تنازع اس وقت سامنے آیا جب ایک ہزار سے زائد ریزرو اور ریٹائرڈ فضائی افسران نے ایک خط پر دستخط کیے، جس میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی پالیسی کو چیلنج کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ یرغمالیوں کو بحفاظت واپس لایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی تنظیم حماس کی قید میں موجود یرغمالیوں کی رہائی کے لیے غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے اسرائیلی فضائیہ کے ریزرو پائلٹس کو سخت ردعمل کا سامنا ہے، اور انہیں ملازمتوں سے برخاست کیے جانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ ان پائلٹوں کو فورس سے نکالنے کا فیصلہ فضائیہ کے کمانڈر نے چیف آف جنرل اسٹاف کی مکمل حمایت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ تنازع اس وقت سامنے آیا جب ایک ہزار سے زائد ریزرو اور ریٹائرڈ فضائی افسران نے ایک خط پر دستخط کیے، جس میں وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی پالیسی کو چیلنج کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ یرغمالیوں کو بحفاظت واپس لایا جا سکے۔
خط میں کہا گیا کہ "یہ جنگ سیکیورٹی نہیں بلکہ سیاسی مفادات کے لیے لڑی جا رہی ہے، اور اس سے مزید انسانی جانوں کا ضیاع ہوگا۔" اسرائیلی حکومت نے ان بیانات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے خیالات دشمنوں کو فائدہ دیتے ہیں اور فوج کے مورال کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نیتن یاہو نے واضح اعلان کیا کہ وہ ان پائلٹس کی برطرفی کے اقدام کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نیتن یاہو کا مطالبہ
پڑھیں:
نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ایسے متنازع بل کی حمایت کردی ہے جس کے ذریعے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ انکشاف اسرائیل کے کوآرڈینیٹر برائے یرغمال اور لاپتا افراد گال ہیرش نے پیر کے روز کیا۔
یہ بل کنیسٹ میں بدھ کو پہلی مرتبہ پیش کیا جائے گا اور اسے انتہائی دائیں بازو کی جماعت یہودی پاور نے جمع کرایا ہے، جس کی قیادت قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی
مجوزہ قانون کے متن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو نسل پرستی، نفرت یا ریاست اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسرائیلی پارلیمان میں کسی بھی بل کو قانون بننے کے لیے تین مراحل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
گال ہیرش نے بتایا کہ وہ ماضی میں اس قانون کے مخالف تھے کیونکہ اس سے غزہ میں موجود زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، لیکن اب انہوں نے اپنی مخالفت واپس لے لی ہے۔
کنیسٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھی بل کو پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ بن گویر پہلے بھی متعدد بار فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
اکتوبر میں حماس نے ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور انہیں بھوک، تشدد اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ متعدد قیدی دوران حراست ہلاک ہوچکے ہیں۔
حقوقِ انسانی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایتامار بن گویر کے دور میں قیدیوں کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں، ملاقاتوں پر پابندی، کھانے میں کمی اور غسل کے محدود اوقات جیسے اقدامات معمول بن چکے ہیں۔
یہ بل اگر منظور ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل کے عدالتی اور انسانی حقوق کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تصور کی جائے گی، جبکہ عالمی سطح پر اس کی شدید مخالفت متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیلی وزیراعظم پھانسی غزہ فلسطینی قیدی قانون سازی