مالک مکان نے 10 سالہ گھریلو ملازمہ کو تشدد سے قتل کرکے لاش نہر میں بہادی
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
لاہور:
مالک مکان نے 10 سالہ گھریلو ملازمہ کو تشدد سے قتل کرکے لاش نہر میں بہادی۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب سارہ احمد نے جھنگ میں کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے بعد قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو فیصل آباد کی ٹیم کو مقتولہ گھریلو ملازمہ کے لواحقین سے فوری رابطہ کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جھنگ میں 10سالہ کمسن گھریلو ملازمہ انیلہ پر تشدد کے بعد قتل کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ 10سالہ انیلہ ایک زمیندار کے گھر میں ملازمہ تھی۔ مالک مکان نے کمسن گھریلو ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کر دیا اور لاش نہر میں بہادی۔
دورانِ تفتیش ملزم نے کمسن گھریلو ملازمہ انیلہ کے قتل کا اعتراف کیا۔
چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو سارہ احمد نے کہا کہ کمسن گھریلو ملازمہ کے لواحقین کو مکمل قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کمسن گھریلو ملازمہ
پڑھیں:
کراچی: ٹریکس نظام سے قبل اونرشپ کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا، چالان گاڑیوں کے سابق مالکان کو ملے گا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میں ٹرانسفر آف اونر شپ کا مسئلہ ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کے نفاذ کی راہ میں ایک بڑی تکنیکی رکاوٹ بن گیا ہے۔
محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ شہر میں سیکڑوں گاڑیاں ایسی ہیں جو اصل مالکان نے فروخت کر دی ہیں لیکن خریداروں نے انہیں اپنے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرایا ہے اور اب چونکہ ای چالان گاڑی کے رجسٹرڈ مالک کے پتے پر بھیجا جائے گا، اس لیے خلاف ورزی کا مرتکب کوئی اور ہوگا اور جرمانہ سابق مالک کو ادا کرنا پڑے گا۔
سماجی رہنماؤں نے نشاندہی کی ہے کہ جب تک حکومت گاڑیاں ہر شخص کے نام پر منتقل کرنے کا نظام مؤثر نہیں بناتی، ای چالان کا یہ نظام بری طرح ناکام ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ صرف سیل پرچیز رسید پر سودا کرتے ہیں اور ای چالان سے بچنے کا یہ راستہ خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے سے بچا لے گا۔
شہریوں نے بھی اس صورتحال کو افراتفری کا باعث قرار دیا ہے کیوں کہ سابق مالک کے لیے نئے خریدار کو تلاش کرنا ایک ناممکن عمل ہوگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ای چالان کے نفاذ کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد گاڑیوں کو اپنے نام پر رجسٹرڈ کرانے کے لیے محکمے سے رجوع کر رہی ہے، مگر مسئلہ اب بھی بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے۔