داسوہائیڈروپاورپراجیکٹ کی تعمیراتی لاگت میں اضافہ کے حوالے سے واپڈا کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ : فوٹو واپڈا
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیراتی لاگت میں اضافہ کے حوالے سے واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے وضاحت جاری کردی۔
واپڈا کے اعلامیے میں کہا گیا کہ 10 اپریل کو سی ڈی ڈبلیو پی نے داسو پراجیکٹ کے دوسرے نظرثانی شدہ پی سی ون کا جائزہ لیا، نظرثانی شدہ دوسرا پی سی ون 1737 ارب روپے پر مشتمل ہے، سی ڈی ڈبلیو پی نے یہ پی سی ون ایکنک میں زیرغور لانے کی سفارش کی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ قراقرم ہائی وے کی ازسر نو تعمیر سمیت دیگر کنٹریکٹس عالمی مسابقتی بولی کے ذریعے ایوارڈ کیے گئے، کنٹریکٹس بنیادی طور پر پاکستانی روپے میں ایوارڈ کیے گئے ہیں۔
واپڈا ہر سال اوسطاً 32 ارب یونٹ سستی پن بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کرتا ہے، واپڈا پن بجلی کا ٹیرف محض 3 روپے 71 پیسے فی یونٹ ہے، پن بجلی ملک میں بجلی کے صارفین کیلئے اوسط ٹیرف کم سطح پر رکھنے کا سب سے بڑا عنصر ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
بھارت سے متعلق بیان جھوٹا ہے، میرے نام سے منسوب پوسٹ فیک ہے، شاہد آفریدی کی وضاحت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے بھارت سے متعلق سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک متنازع پوسٹ کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد اور جعلی قرار دے دیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آفریدی کے نام سے ایک تصویر اور پوسٹ تیزی سے وائرل ہو رہی تھی، جس میں مبینہ طور پر انہیں یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ “انڈیا کرکٹ، ٹیکنالوجی اور ہمت ہر چیز میں پاکستان سے 10 سال پیچھے ہے، حتیٰ کہ انہیں اپنا دشمن کہنا بھی توہین ہے۔”
پوسٹ دیکھنے کے لیے کلک کریں۔
تاہم شاہد آفریدی نے اس پوسٹ پر فوری ردعمل دیا اور اسے جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا۔ انہوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر مذکورہ پوسٹ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے مختصر مگر دوٹوک انداز میں لکھا:
“یہ فیک ہے۔”
شاہد آفریدی سوشل میڈیا پر اکثر متحرک رہتے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ان کے نام سے جھوٹی باتیں منسوب کرنا نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی معروف شخصیت کے نام سے من گھڑت بیانات سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے ہوں۔ ماہرین کے مطابق ایسی جعلی پوسٹس سے بچنے کے لیے تصدیق شدہ ذرائع پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔