حکومت پنجاب کا سندھ کو زیادہ پانی دیے جانے کا الزام، ارسا نے الزامات مسترد کردیے
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
حکومت پنجاب نے پانی کی تقسیم پر ارسا کو خط لکھ کر سندھ کو اس کے حصے سے زیادہ پانی دیے جانے کا الزام عائد کردیا ہے۔
خط میں شکایت کی گئی ہے کہ ربیع سیزن کی طرح خریف سیزن میں بھی پنجاب سے زیادتی کی جارہی ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب کو حصے سے کم اور سندھ کو حصے سے زیادہ پانی دینے سے کسانوں میں بےچینی بڑھ رہی ہے اور ناانصافی پر مبنی اقدامات سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ربیع کی فصلوں کے لیے 16 فیصد پانی کی کمی تھی، سندھ کو 19 جبکہ پنجاب کو 22 فیصد کم پانی دیا گیا۔
ارسا کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خریف کی فصلوں کے لیے 43 فیصد پانی کی کمی ہے اور اس میں بھی پنجاب کا حصہ زیادہ اور سندھ کا کم روکا جارہا ہے، سکھر بیراج پر رائس کینال کو غیرقانونی پانی دینے کے واقعے کو بھی چھپایا گیا۔
اس خط کے ابتدائی جائزے کے بعد ارسا حکام نے سندھ کو زیادہ پانی دینے کی رپورٹ مسترد کردی ہے اور کہا ہے کہ ارسا ہمیشہ پانی کی منصفانہ تقسیم کرتا ہے۔
ارسا ترجمان کے مطابق حکومت پنجاب کے خط کا جائزہ لیا جارہا ہے، ملک میں پانی کی کمی تمام صوبے مل کر اٹھا رہے ہیں، ملک میں پانی کی تقسیم کا خودکار نظام موجود ہے اور کوئی بھی صوبہ زیادہ پانی نہیں لے سکتا۔
ارسا ترجمان نے کہا ہے کہ ملک میں حساس صورتحال کے پیش نظر الزام تراشی سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
CANAL irsa ارسا پانی پنجاب خط سندھ کینال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پانی کینال زیادہ پانی سندھ کو پانی کی ہے اور
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں