جسٹس علی باقر نجفی سپریم کورٹ کے جج تعینات، نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
جسٹس علی باقر نجفی سپریم کورٹ کے جج تعینات، نوٹیفکیشن جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 15 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کر دیا گیا ہے۔ صدر مملکت کی منظوری کے بعد وزارت قانون کی جانب سے تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی حلف اٹھانے کی تاریخ سے مؤثر ہو گی۔ ان کی تقرری آئین کے آرٹیکل 177(1) اور 175A(8) کے تحت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس علی باقر نجفی اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جج کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہیں سپریم کورٹ کا جج بنانے کی سفارش جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کی تھی۔
ان کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس علی باقر نجفی سپریم کورٹ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔