امریکا نے جنگ چھیڑی تو ایران فاتح ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران اور بالخصوص اسکی اعلیٰ قیادت کی اخلاقی بنیاد بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا 2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کیخلاف دیا گیا فتویٰ ایک خاموش مگر مؤثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس نے دنیا کو بڑی تباہی سے بچائے رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای پر اپنے ہی ہم وطنوں کیجانب سے بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت دیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، جس سے اسرائیل کو قابو اور امریکی صدور کیجانب سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر خامنہ ای اپنی اس فطری دانش کیساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایٹم بم ایک غیر اخلاقی ہتھیار ہے اور اس مؤقف پر ہم انکے مشکور ہیں۔ تحریر: جاوید نقوی
کرنل لارنس ولکرسن امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول کے چیف آف اسٹاف تھے۔ آج وہ یوکرین میں امریکی سرپرستی میں ہونے والی جنگ، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنے کے امریکی اسرائیلی منصوبوں کے سب سے بڑے امریکی ناقدین میں سے ہیں۔ ولکرسن اور ان کے سابق فوجی ساتھیوں کو بھی اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ چھڑتی ہے تو فتح ایران ہی کی ہوگی اور یہ فتح ایٹمی ہتھیار حاصل کرکے یا ایسے ذرائع سے نہیں ہوگی، جو خطے اور اس کے اردگرد کے علاقوں کو تباہ کر دیں بلکہ ایران روایتی اور غیر روایتی طریقوں سے امریکی برتری کو ناکام بنا کر یہ معرکہ سر کرے گا۔ ولکرسن کہتے ہیں کہ "میں نے حال ہی میں اس شخص سے ملاقات کی، جس نے برسوں پہلے ایران اور امریکا کے درمیان جنگ کا کھیل کھیلا تھا، وہ آج بھی اس نتیجے پر قائم ہے، جو اُس وقت سامنے آیا تھا کہ ایران امریکا کے خلاف روایتی جنگ جیت جائے گا۔"
ایران کے پاس جنگوں سے لڑنے کا وسیع تجربہ ہے، حالانکہ اسے کبھی کسی جنگ کا آغاز کرتے نہیں دیکھا گیا، یہ تجربہ 1980ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے، جب اس نے آٹھ سال تک عراق کے حملے کو ناکام بنایا۔ امریکی حمایت یافتہ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، لیکن وہ ایرانی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں لے سکے۔ میں خود اُس بے ترتیب اور بمشکل دو فٹ چوڑی سڑک پر چلا ہوں، جو کبھی خرمشہر کہلانے والے مکمل تباہ شدہ شہر کے ملبے سے گزرتی ہے۔ اس بارودی سرنگوں سے بھری زمین پر ایک بھی غلط قدم موت کا باعث بن سکتا ہے۔۔۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے رائٹرز کے ساتھی نجم الحسن کے ساتھ ہوا۔“ جنگ بالآخر اس وقت ختم ہوئی، جب خلیج میں ایک امریکی جنگی جہاز نے بظاہر غلطی سے ایک ایرانی ایئربس کو مار گرایا، جس سے 1988ء میں سیکڑوں شہری مارے گئے۔
ایران نے اس کے بعد عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر مزاحمتی گروہوں کو جنم دیا اور انہیں آزاد فلسطین کی جدوجہد کے دفاع کے لیے تربیت دی۔ اگرچہ یمن میں حوثی حکومت اور اس کے جنگجو اب ایران سے مدد نہیں لیتے، لیکن وہ طاقتور اتحاد کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جیسا کہ انہوں نے سعودی قیادت میں لڑنے والی جنگی مشینری کے خلاف کیا تھا۔ ایران کی طرح وہ غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ جو بھی ہو یکجہتی کے لیے کھڑے رہیں گے۔ تو ایران ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے تیار ہے۔؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے ہمیشہ کے لیے دستبردار ہونے بلکہ اپنے تمام میزائلوں کو ختم کرنے کا مطالبہ نہ مانا، تو وہ ایران پر پہلے سے کئی زیادہ شدید بمباری کرے گا۔
جس پر ایران کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیاں کارگر نہیں ہوں گی، مگر متوازن اور سنجیدہ سفارت کاری ممکنہ حل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ہفتے کے روز عمان میں مثبت انداز میں ختم ہوا اور کئی کشیدہ دنوں کے بعد واضح طور پر اطمینان محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ٹرمپ کے لیے جنگ کا آپشن ممکن نہ رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جا رہا ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کو اسرائیل میں اپنے خلاف اٹھتی ہوئی عوامی مزاحمت کا سامنا اکیلے ہی کرنا پڑے گا۔ یہ منظر ان چار نعروں کی یاد دلاتا ہے، جو ایران میں نمازیوں نے 1980ء کی دہائی میں تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے دوران بلند کیے تھے۔ جب پارلیمنٹ کے اسپیکر ہاشمی رفسنجانی بائیں ہاتھ میں کلاشنکوف لے کر اپنے خطبے کے درمیان اشارہ کر رہے تھے، ہجوم نے امریکا، اسرائیل، سوویت یونین اور صدام حسین مردہ باد کے نعرے لگائے، شاید اسی ترتیب سے۔ جن میں سے ان کی دو خواہشیں تو پوری ہوگئیں اور باقی دو اپنے جمہوری نقاب کو بچانے اور اپنے بےچین عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے کٹھن جدوجہد میں مصروف ہیں۔
کس چیز نے کرنل ولکرسن میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ جنگ میں ایران فاتح ہوگا؟ یہ اعتماد اُن روایتی حوالوں کے بغیر سامنے آیا، جو عموماً ویتنام اور افغانستان میں امریکی افواج کی ذلت آمیز ناکامیوں کے تناظر میں دیئے جاتے ہیں۔ ولکرسن نے ایرانی فتح کا یہ دعویٰ امریکی وار گیمز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ ایران کے ساتھ ہونے والی فوجی مشق ملینیم چیلنج 2002ء MC02 کے کمپیوٹرائزڈ نتائج نے امریکی فوجی حکمت عملی میں نمایاں کمزوریوں کا انکشاف کیا۔ اس مشق میں ایران کو ریڈ ٹیم اور امریکا کو بلیو ٹیم سونپی گئی تھی۔ ایران کی ریڈ ٹیم کی قیادت ریٹائرڈ میرین لیفٹیننٹ جنرل پال وان رائپر کر رہے تھے۔ انہوں نے تباہ کن اثر کے لیے غیر روایتی حربوں کا استعمال کیا۔ موٹر سائیکل میسنجر، مسجد کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے کوڈڈ سگنلز اور میزائلوں سے لیس چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے، ریڈ ٹیم نے ایک حیرت انگیز حملہ کیا، جس نے بلیو ٹیم کو تباہ کر دیا۔
ایک بڑے کروز میزائل سالو نے ایک طیارہ بردار بحری جہاز سمیت 16 امریکی جنگی بحری جہازوں کو غرق کر دیا اور 20 ہزار سے زائد اہلکاروں کو فرضی طور پر ہلاک کر دیا۔ ایرانی ریڈ ٹیم نے اس کمپیوٹرائزڈ حملے میں جدید ٹیکنالوجی اور مضبوط ڈھانچے پر امریکی بلیو ٹیم کی خامیوں سے فائدہ اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈ ٹیم کی واضح کامیابی کے بعد پینٹاگون نے مشق کو معطل کر دیا، بلیو فورسز کو تباہ کر دیا اور ریڈ ٹیم کی حکمت عملی پر پابندی لگا دی۔ ریڈ ٹیم کو طیارہ شکن ریڈار پوزیشنوں کو ظاہر کرنے، چھاتہ برداروں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے اور بلیو کی حتمی فتح کو یقینی بنانے والے اسکرپٹ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ وان رائپر نے اسے مشق کے مقصد سے غداری قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 25 کروڑ ڈالر کی فرضی جنگ کو دونوں فریقوں کی طاقت کے حقیقی امتحان کے بجائے موجودہ امریکی عقائد کی اسکرپٹڈ توثیق میں تبدیل کر دیا گیا۔
وار گیمز میں کہیں بھی جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران کا امکان موجود نہیں تھا۔ اس کا سہرا ایران کی سخت گیر قیادت کو جاتا ہے، جو ایٹمی بم بنانے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای شاید کسی وقتی ایوارڈ کو قبول نہیں کریں، چہ جائیکہ انہیں نوبل امن انعام کی پیشکش کی جائے۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو عالمی امن کے لیے سب سے بڑا مگر کم سراہا گیا اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے آیا ہے۔ اس کے پاس جوہری بم بنانے کی صلاحیت ہے، لیکن اس کے قابل احترام رہنماء اس اہم اقدام کی اجازت نہیں دیں گے، چاہے اس فیصلے سے ان کے لوگ تباہ ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ایران اور اس کے اعلیٰ رہنماؤں کی اخلاقیات تعریف کی مستحق ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جمع کرنے کے خلاف خامنہ ای کے 2003ء کے فتوے نے دنیا کو ناقابل بیان نقصان سے بچانے میں ایک غیر معروف کردار ادا کیا ہے۔
ایران اور بالخصوص اس کی اعلیٰ قیادت کی اخلاقی بنیاد بھرپور داد و تحسین کی مستحق ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا 2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف دیا گیا فتویٰ ایک خاموش مگر مؤثر کردار ادا کرتا رہا ہے، جس نے دنیا کو بڑی تباہی سے بچائے رکھا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای پر اپنے ہی ہم وطنوں کی جانب سے بے پناہ دباؤ ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت دیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ یہی واحد راستہ ہے، جس سے اسرائیل کو قابو اور امریکی صدور کی جانب سے بار بار دی جانے والی دھمکیوں کا مؤثر جواب دیا جاسکتا ہے۔ مگر خامنہ ای اپنی اس فطری دانش کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایٹم بم ایک غیر اخلاقی ہتھیار ہے اور اس مؤقف پر ہم ان کے مشکور ہیں۔
https://beta.
dawnnews.tv/news/1257152/
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آیت اللہ خامنہ ای بم بنانے کی امریکا کے ایران اور ایران کی ایران کے وہ ایران کے خلاف ایٹم بم ریڈ ٹیم کے ساتھ دیا گیا کر دیا ٹیم کی کے لیے اور اس رہا ہے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!