نئی دہلی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اپریل ۔2025 ) بھارتی سپریم کورٹ نے ماتحت عدلیہ کے ججوں کو غیر حساس زبان کے استعمال پر تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے ریپ کی متاثرہ خواتین سے کہا کہ انہوں نے خود مصیبت کو دعوت دی سپریم کورٹ نے زیریں عدالتوں کو خواتین کے خلاف جنسی تشدد سے متعلق مقدمات میں ہتک آمیز زبان استعمال کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے.

(جاری ہے)

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا جب گذشتہ ماہ الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ دعوی کیا کہ ایک کم عمر لڑکی کو چھیڑنا اور ان کے پاجامے کا اِزار بند کھینچنا ”ریپ کی کوشش“ کے زمرے میں نہیں آتا لائیو لا ویب سائٹ کے مطابق انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ریاست اترپردیش میں دیے گئے اس فیصلے کی بنیاد اس دلیل پر رکھی گئی تھی کہ ریپ کی کوشش اور تیاری دو الگ چیزیں ہیں اس فیصلے کے بعد انڈیا میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا علاوہ ازیں اسی عدالت کے ایک اور جج نے ریپ کیس کے ایک ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے یہ کہا کہ متاثرہ خاتون نے خود مصیبت کو دعوت دی اور اسی کی ذمہ دار بھی ہے.

سپریم کورٹ جسٹس بھوشن رام کرشنا گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل دورکنی بنچ نے 17 مارچ کو دیے گئے اس فیصلے کو چونکا دینے والا قرار دیا خاص طور پر اس لیے کہ یہ فیصلہ فوری نہیں بلکہ چار ماہ تک محفوظ رکھنے کے بعد سوچ سمجھ کر دیا گیا تھا جسٹس گوئی نے قراردیا کہ اس ہائی کورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ اب یہی عدالت کا ایک اور جج اس طرح کی باتیں کہہ رہا ہے ایسے ریمارکس دینے کی کیا ضرورت ہے؟.

انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت حساس نوعیت کے ہوتے ہیںانڈیا کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے ایک عام آدمی ان تبصروں سے کیا تاثر لے گا؟کم عمر لڑکی کو چھیڑنے کے معاملے میںالہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر نارائن مشرا نے فیصلہ دیا کہ ملزمان پر زیادہ سے زیادہ عزت پر حملے کا مقدمہ بن سکتا ہے.

استغاثہ نے دلیل دی کہ ملزمان نے لڑکی کو موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی پیشکش کی اور پھر اسے جنسی طور پر ہراساں کیا مگر راہگیروں کے دیکھ لینے پر فرار ہو گئے ملزمان نے الزامات کی تردید کی ہے . بھارتی جریدے ”دی ہندو“ کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ لڑکی کی والدہ نے ایک غیر سرکاری تنظیم ”جسٹ رائٹس فار چلڈرن الائنس“ کے ساتھ مل کر عدالت میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ یہ فعل واضح جنسی نیت سے کیے گئے ریپ کے مقصد کے تحت براہ راست اقدامات تھے اور انہیں محض عزت پر حملے کے طور پر رد نہیں کیا جا سکتا ملزمان نے جرم کرنا خود سے نہیں روکا بلکہ وہ راہگیروں کی اچانک مداخلت کی وجہ سے موقع سے بھاگنے پر مجبور ہوئے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ کہا کہ ریپ کی

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹادیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمے میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے جج کے چیمبر سے جاسوسی آلات برآمد ہونے کی خبر بے بنیاد قرار
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماتحت عدلیہ کے  دو ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس کردیں
  • التوا صرف جج، وکیل یا ملزم کے انتقال پر ہی ملے گا،التوا مانگنا ہو تو آئندہ عدالت میں نہ آنا،سپریم کورٹ کی پراسیکیوٹر کو تنبیہ