اسلام آباد ( نیوز ڈیسک )اسلام آباد میں طوفان سے قبل شدید اولے برسنے لگےآسمان پر گہرے بادل، تیز ہواؤں کے ساتھ اولوں کی بارش۔ شہری علاقوں میں سڑکوں پر پھسلن، ٹریفک کی روانی متاثر محکمہ موسمیات نے مزید بارش اور ژالہ باری کی پیشگوئی کی ہے اولے پڑنے سے گاڑیوں اور فصلوں کو نقصان کا خدشہ۔
خیبر لنڈی کوتل بازار، گاگرہ اور دلخاد روڈ پر شدید بارش و ژالہ باری کے بعد سیلابی ریلہ آگیا۔ خیبر کے مختلف علاقوں میں شدید بارش اور ژالہ باری کے بعد سیلابی ریلہ آ گیا، جس نے تباہی مچا دی۔
لنڈی کوتلمیں سڑکیں زیر آب آنے سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہو گئی۔ مقامی شہریوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور نکاسی آب کے لیے اقدامات شروع کر دیئے۔
سلام آباد اورگردونواح میں بارش کی وجہ سےبارش کے باعث وفاقی دارالحکومت میں موسم خوشگوار ہوگیا.

شہری علاقوں میں سڑکوں پر پھسلن، ٹریفک کی روانی متاثر۔ محکمہ موسمیات نے مزید بارش اور ژالہ باری کی پیشگوئی کی ہے۔ اولے پڑنے سے گاڑیوں اور فصلوں کو نقصان کا خدشہ۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: علاقوں میں ژالہ باری

پڑھیں:

سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-5

 

میر بابر مشتاق

ہیڈ لائن کی ضرورت ہی کیا ہے جب شہر خود اپنی کہانی سنارہا ہو؟ یہ کہانی سڑکوں پر بہتے گٹر کے پانی کی ہے، پانی کے ٹینکر کے پیچھے بھاگتے عوام کی ہے، اور بارش کے بعد طوفانی نالے بن کر بہنے والی سڑکوں کی ہے۔ یہ کہانی اس انفرا اسٹرکچر کی ہے جو کاغذوں پر تو شاندار نظر آتا ہے، مگر زمین پر ’’زیرو‘‘ ہے۔ اور ان تمام مسائل پر ایک طاقتور حقیقت مسلط ہے: مافیا۔ ٹینکر مافیا، ڈمپر مافیا، اور اب اس کے ساتھ ایک نیا اضافہ ’ای چالان مافیا‘۔ کراچی، جو کبھی پاکستان کا معاشی دل سمجھا جاتا تھا، آج ایک ایسے شہر کی حیثیت سے جی رہا ہے جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ سڑکیں نہ صرف کچی ہیں، بلکہ ان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کچی سڑکیں بھی شرم سے منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہر موڑ پر گڑھے، ہر سڑک پر کھدائی، اور ہر بارش کے بعد یہ شہر ڈوبتا نہیں بلکہ شرم سے مر جاتا ہے۔ اسی خراب انفرا اسٹرکچر کے نتیجے میں رواں سال 700 سے زائد شہری ٹریفک حادثات کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اموات میں 205 کا تعلق بھاری گاڑیوں؛ ٹینکر، ٹرالر اور ڈمپر سے ہے، جو عوام کے لیے موت کا پروانہ بن کر دوڑ رہے ہیں۔ یہ وہ ’’اسٹرکچر‘‘ ہیں جو کبھی نہیں ڈوبتے، ان کا کام جاری ہے، اور ان کے مالکان کو کوئی جوابدہی نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شہریوں کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، تو پھر اس کی ناکامی کی سزا عوام کو کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں ’ای- چالان‘ کا المیہ شروع ہوتا ہے۔ سندھ حکومت نے ایک طرف تو سڑکوں کی مرمت، پانی کی فراہمی اور سیکورٹی جیسی بنیادی ذمے داریوں کو یکسر نظر انداز کر رکھا ہے، دوسری طرف وہ ’’عالمی معیار‘ کے ای-چالان سسٹم کے ذریعے عوام کو ڈھادے جانے والے بھاری جرمانوں سے اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہے۔ یہ نظام درحقیقت لوٹ مار کا ایک منظم دھندا بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پنجاب میں اسی ای-چالان سسٹم کے تحت موٹر سائیکل سوار سے 200 روپے کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں ایک ہی قصور پر موٹر سائیکل سوار کو 5000 روپے کی خطیر رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں، یہ دس گنا سے بھی زیادہ کا فرق ہے۔ کیا کراچی کے شہری پنجاب کے شہریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ امیر ہیں؟ یا پھر یہ سندھ حکومت کی طرف سے عوام پر معاشی تشدد ہے؟

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہی حکومت جو سڑکوں پر گڑھے چھوڑ کر، ٹریفک کے بہاؤ کو درست کرنے میں ناکام رہ کر اور عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی بندوبست نہ کر کے روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں شہریوں کو غیر محفوظ ٹریفک اسٹرٹیجی کا شکار بنا رہی ہے، اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی نااہلی کی پاداش میں عوام پر بھاری جرمانے عائد کرے؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے ڈاکو خود تو گھر لوٹے، اور مالک کو ہی قصوروار ٹھیرایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت عوام کو شعور دینے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے کے بجائے، صرف جرمانوں کے ذریعے خزانہ بھرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ایک آسان راستہ ہے۔ سڑکیں بنانے، ٹریفک انجینئرنگ درست کرنے، عوامی امن و امان قائم رکھنے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے میں تو محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہے، جبکہ کیمرے لگا کر جرمانے کاٹ لینا بہت آسان کام ہے۔

ای-چالان سسٹم کا مقصد اصل میں عوام کو سزائیں دینا نہیں، بلکہ ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانا اور حادثات کو کم کرنا ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ نظام انصاف کے بجائے مالی فائدہ کمانے کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہوتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس پورے معاملے پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ای-چالان سسٹم کو ایک انصاف پر مبنی، شفاف اور عوام دوست نظام میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں:

1۔ جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے برابر ہونا: سندھ میں جرمانوں کی شرح کا پنجاب کے ساتھ ہم آہنگ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ ایک عام موٹر سائیکل سوار کے لیے 5000 روپے کا جرمانہ نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر معاشی بھی ہے۔

2۔ سڑکوں کی فوری مرمت: سڑکوں کو حادثات کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ گڑھوں کو پر کیا جائے، سڑکوں کی واضح مارکنگ کی جائے، اور خاص طور پر اسکولز، اسپتالوں اور مصروف چوراہوں کے اردگرد سیفٹی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔

3۔ بھاری گاڑیوں پر کنٹرول: ٹینکر اور ڈمپرز کے لیے مخصوص اوقات مقرر کیے جائیں اور ان کی رفتار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔ ان گاڑیوں کے ڈرائیورز کو خصوصی تربیت دی جائے اور ان کی گاڑیوں کی فٹنس کا سالانہ معائنہ لازمی ہونا چاہیے۔

4۔ عوامی آگاہی مہم: محض جرمانے جاری کرنے کے بجائے، ٹریفک قوانین کے بارے میں عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ اسکولوں، کالجز اور میڈیا کے ذریعے شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ خود بخود قوانین کی پابندی کریں۔

5۔ شفافیت اور جوابدہی: ای-چالان کے ذریعے وصول کی گئی رقم کا شفاف حساب کتاب عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ رقم صرف سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کی جائے، نہ کہ عام بجٹ میں شامل کر کے ضائع کی جائے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ شہریوں کو سہولت نہ دی جائے اور ان پر بھاری بھرکم جرمانے مسلط کیے جائیں، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کو ’’مجرم‘‘ بنا کر نہیں، بلکہ ان کی خدمت کر کے ہی ترقی ممکن ہے۔ جب تک سڑکیں کچے سے بدتر رہیں گی، تب تک چاہے جرمانے عالمی معیار کے ہی کیوں نہ ہو جائیں، شہر کی کہانی اندھیرے اور مایوسی ہی سناتی رہے گی۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست کی مشروعیت عوام کی خدمت سے آتی ہے، نہ کہ ان پر جرمانے عائد کر کے۔ اگر سڑکیں ٹھیک نہیں، پانی نہیں، بجلی نہیں، اور امن نہیں، تو پھر ’’عالمی معیار کے جرمانے‘‘ صرف ایک مذاق ہیں۔

 

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • 4، 5 نومبر کو ہلکی بارشوں اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کی پیشگوئی، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کردیا
  • ملک کے مختلف علاقوں میں بارش اور برفباری کی پیشگوئی
  • سہیل آفریدی کا خیبر ٹیچنگ اسپتال میں صحت کارڈ بندش کا نوٹس
  • خیبر پختونخوا میں اس وقت ایسی صورتحال نہیں کہ گورنر راج لگانا پڑے، فیصل کریم کنڈی
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • بلوچستان میں12 ضلعے بارش کو ترس گئے، آئندہ کیا ہو گا؛ مفصل رپورٹ
  • خیبر پختونخوا نے رواں سال صحت کارڈ کیلئے 41 ارب مختص کیے، مزمل اسلم
  • کے پی کو وفاقی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے؛ گورنر فیصل کریم کنڈی
  • خیبر پختونخوا کی 13 رکنی کابینہ تشکیل، عمران خان کی ہدایات نظر انداز
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے