4لاپتہ افغان بھائیوں کی بازیابی کیلیے5 مئی کی ڈیڈلائن
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 4لاپتہ افغان بھائیوں کو 2ہفتوں میں بازیاب کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس محمد آصف نے اسلام آباد اور پنجاب پولیس کو 5 مئی کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہمیں نتائج چاہئیں۔ جسٹس محمد آصف نے افغان خاتون گل سیما کی درخواست پر سماعت کی۔
لاہور اور اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی، ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی، ایس ایس پی لیگل پنجاب اور دیگر افسران بھی پیش ہوئے۔
عدالت نے لاپتہ بیٹوں کی افغان والدہ کو روسٹرم پر بلا کر پشتو میں بات کی اور پھر ترجمہ کرکے پولیس حکام کو بتایا کہ ان کی والدہ کہہ رہی ہیں اگست سے ہائیکورٹ آ رہی ہوں، بیٹے مر گئے ہیں تو بتا دیں۔
ڈی آئی جی اسلام آباد نے مزید مہلت طلب کی۔ عدالت نے کہا آئی جی صاحب کو بلایا تھا وہ نہیں آئے؟ سرکاری وکیل نے بتایا کیس کا وقت گیارہ بجے تھا اس لیے آئی جی ابھی نہیں آئے، درخواست گزار کے وکیل نے کہا 8 ماہ سے تو کیس چل رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد
پڑھیں:
عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتائیں وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہیے، جسٹس محسن اخترکیانی
اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن آختر کیانی نے سی ڈی اے سے متعلق کیس کے دوران اسلام آباد کے لوکل گورنمنٹ انتخابات نہ ہونے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو، مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتا دیں کہ وہ کام کر رہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو منتقل ہونا تھے، جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کر رہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے کو کرنا تھا اور ایک ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے، ہائی کورٹ نے چار اور سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا لیکن حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو ؟ مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتا دیں جو وہ کام کر رہا ہو جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ نے ماتحت عدالتوں کی حالت دیکھی ہے؟ کوئی ادارہ اس قابل نہیں رہا کہ اپنا کام کر سکے، ہمارا اسپرٹ ہی ختم ہو چکا ہے، کسی کو احساس ہے کہ 25 کروڑ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گورننس کے سنجیدہ ایشوز ہیں جو کام عوامی نمائندوں کے کرنے والے تھے وہ عدالتیں کررہی ہیں، جو کام عوامی نمائندوں کے کرنے والے تھے وہ عدالتیں کررہی ہیں، اگر کسی کو سوٹ کرتا ہو تو کہتے ہیں کہ سسٹم چلتا رہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون کسی کو سوٹ نہ کرے تو قانون کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے، اب کیونکہ کسی کو سوٹ نہیں کرتا تو پانچ سال سے لوکل گورنمنٹ کے الیکشن نہیں ہونے دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کیا اسلام آباد کے لوگوں کا حق نہیں کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے فیصلے کریں، اگر کچھ بھی غیر قانونی ہو تو عدالتوں کے پاس جایا جاتا ہے اور اس وقت عدالتوں کی حالت دیکھ لیں، جو کچھ عام آدمی کے ساتھ ہورہا ہے، وہی سب ججوں کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس پر دعا ہی کی جا سکتی ہے، ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لیکن بدنیتی نہیں ہونی چاہیے۔