صوبائی وزیر توانائی، ترقیات و منصوبہ بندی سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم سے کئی بار نہروں کے مسئلے پر گفتگو کا مطالبہ کیا۔ سی سی آئی میٹنگ کے لیے بھی کئی بار درخواست کی گئی۔ اگر نہریں بنانا شروع کیں تو حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔

نجی ٹی وی شو میں گفتگو کرتے ہوئے سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ امید ہے کہ وزیراعظم نہروں کی منظوری نہیں دیں گے اور مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نہروں کا مسئلہ سنجید ہے، اس لیے سیاسی یتیموں کو بھی موقع مل گیا ہے۔

مزید پڑھیں: صدر آصف زرداری نے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کی منظوری نہیں دی، وزیراعلیٰ سندھ

سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اتحادی ہیں سڑکوں پر نہیں نکل سکتے، اس لیے تحفظات کا دوسرا راستہ اختیار کیا۔ پیپلز پارٹی کے ہر رکن نے ہر ٹی وی پروگرام سمیت ہر فورم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دریائے سندھ پر نہریں بنانے سے پنجاب کی زمینیں بھی بنجر ہونے کا امکان ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر منصوبے کی منظوری نہیں دے سکتے، وہ معاملہ بھی ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔ صدر زرداری اور بلاول بھٹو نے کئی بار نہروں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ 1991 کے معاہدے کے تحت بھی دریائے سندھ سے مزید نہریں نہیں نکالی جا سکتیں۔ 1991 کے معاہدے پر بھی تحفظات تھے لیکن ملکی مفاد میں قبول کیا گیا۔ سندھ کو ماضی میں بھی کم پانی ملتا رہا، سارا مسئلہ ارسا کی وجہ سے ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ارسا پنجاب دریائے سندھ سندھ سید ناصر حسین شاہ نہریں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دریائے سندھ سید ناصر حسین شاہ سید ناصر حسین شاہ نے کہا دریائے سندھ

پڑھیں:

سندھ حکومت کا مردوں کو نس بندی کی سہولت دینے کا فیصلہ

محکمہ بہبود آبادی سندھ جان ہاپکنز اور زیبسٹ یونیورسٹی کے ذریعے گھر گھر سروے کرے گا، جو بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مدد سے مکمل ہوگا اور فیملی پلاننگ 2030ء کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ حکومت نے آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے نس بندی کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ میں ہر سال آبادی ایک ضلع کی آبادی جتنی بڑھ رہی ہے، جس کو روکنے کیلئے صوبائی حکومت مردوں میں نس بندی (ایسا مستقل آپریشن جس کے بعد بچے پیدا نہیں ہوتے) اور خواتین میں بچوں کی پیدائش میں تین ماہ کا وقفہ دینے کیلئے خود لگانے والے انجیکشن سایانا پریس کو عام کر رہی ہے۔ محکمہ بہبود آبادی سندھ جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ساتھ مل کر صوبے کی 1,600 یونین کونسلز میں گھر گھر جا کر سروے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ سکریٹری بہبود آبادی سندھ حفیظ اللہ عباسی نے بتایا کہ محکمہ ساحلی علاقوں اور جزیروں میں حمل سے بچاؤ کی سہولیات (جیسے نس بندی، انجیکشن، گولیاں، پیدائش میں وقفہ دینے والے آلات) فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹریوں میں تقریباً 50 لاکھ مزدوروں کیلئے آگاہی سیشن ہوں گے، جبکہ اسکول و یونیورسٹی کے طلبہ کو آبادی کے بڑھنے کے منفی اثرات بتائے جائیں گے، مرد چونکہ گھروں میں بڑے فیصلے کرتے ہیں، اس لیے انہیں بھی ان پروگرامز میں شامل کرنا ضروری ہے۔ 

سکریٹری بہبود آبادی سندھ نے بتایا کہ محکمے کے تحت اب تک صوبے میں 3,000 مردوں کی نس بندی ہو چکی ہے، کئی مردوں نے یہ آپریشن اس لیے کروایا کیونکہ ان کے بچوں میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا تھا یا ان کو ایچ آئی وی/ایڈز تھا۔ ڈائریکٹر ایڈمن فیصل مہر نے بتایا کہ بڑے اسپتالوں، محکمہ صحت اور این جی اوز کو مانع حمل کا سامان (جیسے نس بندی کے آلات، آئی یو سی ڈی، انجیکشن، امپلانٹس اور گولیاں) فراہم کیا جاتا ہے تاکہ آبادی کی رفتار کم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی آبادی اس وقت 5 کروڑ 50 لاکھ ہے، اور ہر سال تقریباً 14 لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے، 18-2017ء میں صوبے کی مانع حمل شرح 31 فیصد تھی، جسے 2025ء تک 47 فیصد اور 2030ء تک 57 فیصد کرنے کا ہدف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے بڑے اسپتالوں میں فیملی پلاننگ کے سینٹرز ہیں، جہاں آبادی جاکر مانع حمل کیلئے ادویات، انجیکشن سمیت دیگر سامان ڈاکٹر دیتے ہیں، جبکہ کراچی اور اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں آگاہی سیشنز ہوتے ہیں، جس کے بعد شرکا کو مانع حمل کیلئے سامان بھی دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے 9 بڑے اسپتالوں میں 20 گائنی وارڈز میں خواتین کو آئی یو سی ڈی (رحم میں لگایا جانے والا چھوٹا سا آلہ جو 10 سال تک حمل روکتا ہے) اور امپلانٹس (بازو میں لگنے والی اسٹک جو 3 سے 5 سال تک حمل روکتی ہے) فراہم کیے جا رہے ہیں۔ مردوں میں نس بندی کو عام کرنے کیلئے ہینڈز کے ایک ہزار سے زائد میل موبلائزرز کو ٹریننگ دے رہے ہیں، کراچی میں ویزیکٹومی (نس بندی) کیسز 23 سے بڑھ کر 2022ء میں 2,500 ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کیلئے سایانا پریس جیسا آسان انجیکشن بھی موجود ہے، جو وہ خود لگا سکتی ہیں، 2018ء سے اب تک 13 لاکھ انجیکشن استعمال ہو چکے ہیں۔ اندرون سندھ کم عمری کی شادیوں کے باعث بچے پیدا کرنے میں وقفہ نہیں رکھا جاتا، جس سے ایک عورت کے 30 سال کی عمر تک 6 سے 8 بچے ہو جاتے ہیں۔ محکمہ جان ہاپکنز اور زیبسٹ یونیورسٹی کے ذریعے گھر گھر سروے کرے گا، جو بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مدد سے مکمل ہوگا اور فیملی پلاننگ 2030ء کے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اربعین ظلم کے خلاف بغاوت اور مظلوم سے وفاداری کا اعلان ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • وزیراعلیٰ سندھ کا یومِ اربعین امام حسینؑ پر عقیدت و احترام کا اظہار
  • آئی ایم ایف پروگرام میں ہونے کی وجہ سے اس سے پوچھ کر پالیسی بنانا پڑتی ہے: اسحاق ڈار
  • کیا پاکستان میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا احتساب شروع ہو گیا ہے؟
  • پنجاب حکومت نے اسکولوں کی چھٹیوں سے متعلق فیصلہ تبدیل کردیا
  • پنجاب حکومت کی اربعین واک پر جبری پابندی کو مسترد کرتے ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • زیارتِ اربعین اور مَشیِ عشق: فریب کے طوفان میں وفا کا پرچم
  • ڈمپر حادثات کسی لسانی تنازع کا نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے، علی خورشیدی
  • علامہ شبیر میثمی کا اربعین حسینی اور پنجاب حکومت کے رویے پر خصوصی انٹرویو
  • سندھ حکومت کا مردوں کو نس بندی کی سہولت دینے کا فیصلہ