وجے ورما سے بریک اپ کے بعد تمنا بھاٹیہ پہلی بار کس فلم میں جلوہ گر نظر آئیں گی
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
فلم ’’نو انٹری‘‘ کے سیکوئل کے لیے ہدایتکار بالآخر ایک ہیروئن کا انتخاب کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق فلم ’’نو انٹری 2‘‘ کا اعلان تو 4 اپریل 2024 کو کیا گیا تھا جس کے لیے ارجن کپور، ورون دھون اور دلجیت دوسانج کو فائنل کیا گیا تھا۔
نو انٹری میں ہیروئنز میں سے ایک کا کردار بپاشا باسو نے ادا کیا تھا تاہم نو انٹری 2 کے لیے خاتون اداکارہ کی تلاش جاری تھی۔
جس کے لیے ادیتی راؤ حیدری کے ساتھ متعدد دیگر ہیروئنز کے نام بھی زیر گردش تھے۔
تاہم اب تمنا بھاٹیہ ممکنہ طور پر مرکزی خاتون اداکارہ کے طور پر فلم کا حصہ بنیں گی۔
مقامی نجی چینل نے دعویٰ کیا کہ سیکوئل میں تمنا بھاٹیہ کا کردار فلم میں اسی طرز کا ہوگا جیسا کہ فلم نو انٹری میں بپاشا باسو کا تھا۔
تاحال تمنا بھاٹیہ یا فلم پروڈیوسر بونی کپور کی جانب سے فلم کی کاسٹ میں اس نئے اضافے سے متعلق کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اگر تمنا بھاٹیہ کا نام فائنل ہوجاتا ہے تو فلم نوانٹری2 کی شوٹنگ کا آغاز جلد ہی ہوجائے گا۔ پروڈیوسر بونی کپور کے مطابق فلم 26 اکتوبر 2025 کو ریلیز کی جانی تھی۔
یاد رہے کہ 2005 کی فلم ’’نو انٹری‘‘ میں انیل کپور، سلمان خان اور فردین خان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جب کہ خواتین کاسٹ میں سلینا جیٹلی، لارا دتہ، ایشا دیول اور بپاشا باسو تھیں۔
دوسری جانب تمنا بھاٹیہ نے حال ہی میں اجے دیوگن کے ساتھ فلم رینجر کی شوٹنگ کا آغاز کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں بریک اپ کے بعد تمنا بھاٹیہ کی پہلی فلم نو انٹری 2 یا پھر رینجرز ریلیز ہوتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تمنا بھاٹیہ کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں ٹریکس نظام کا ’آزمائش کے بغیر‘ نفاذ، پہلی غلطی پر معافی کیسے ملے گی؟
کراچی میں شاہراہوں پر انفراسٹرکچر کے فقدان، ٹریفک کے اشارئیے نہ ہونے، پارکنگ کی ناکافی سہولیات اسپیڈ کا نظام متعین نہ ہونے، تجاوزات، ٹریفک جام سمیت دیگر مسائل کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائیٹیشن سسٹم (ٹریکس) نافذ کرنے پر شہریوں اور سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر نئے جرمانے ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں جو 5ہزار سے لیکر ایک لاکھ روپے تک ہیں۔کراچی میں رواں برس ٹریفک حادثات میں 715 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
شہر میں 150 سے زائد سگنلز میں 100 سے کام کررہے ہیں، 200 سے زائد کیمروں کےساتھ ٹریکس نظام نافذ ہونے پر حلقوں ماہرین اور دیگر نے یہ سوال کرتے ہیں کہ شہر میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے اور ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر حکومت سندھ نے کس طرح ای چالان کا نظام نافذ کیا ہے؟۔
یہ حلقے مزید سوال کرتے ہیں کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے صرف کراچی پر لاگو کیوں ہیں؟۔ بے روزگاری اور کم آمدنی پر بھاری جرمانوں کی ادائیگی غریب اور متوسط طبقہ کیسے کرے گا؟۔
شہر میں سینکڑوں گاڑیاں ایسی ہیں، جو مالکان نے فروخت تو کر دی ہیں تاہم خریداروں نے اس کو اپنے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرایا ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کے نام پر گاڑی نہیں ہو گی تو سابقہ مالک ای چالان کیوں ادا کرے گا؟۔
اربن پلانر نے نشاندہی کی ہے کہ حکومت نے کراچی میں ٹریکس نظام نافذ کرنے سے قبل اس کی آزمائش نہیں کی، یہ نظام جلد بازی کا شاخسانہ ہوسکتا ہے۔
ماہر قانون کا کہنا یے کہ اگر یہ نظام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑ سکتا ہے تو اسٹریٹ کرمنلز کیوں نہیں پکڑے جاسکتے ہیں، ایسا لگتا یے یہ نظام حکومت کی آمدنی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہوسکتا یے۔
انہوں نے کہا کہ اس چالان کے نظام پر آن لائن فراڈ شروع ہوگیا ہے، اس کی شفافیت کے لیے میکنزم قائم کرناضروری ہے۔ان جرمانوں کے خلاف اپیل کا طریقہ کار بھی موثر نہیں ہے۔ اس ای چالان سے حاصل ریونیو حکومت کہاں خرچ کرے گی یہ ایک سوال ہے؟۔
اس پر حکومت نے تمام طبقوں کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ؟۔سیاسی جماعتوں نے اس نظام کے خلاف عوامی احتجاج اور قانونی جنگ لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ مرکزی مسلم لیگ نے ٹریکس نظام کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ اب عدالت اس پر کیا حکم جاری کرتی ہے یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔
تاہم اس نظام میں کافی سوال اٹھائے جاریے ہیں۔ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ مختلف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر یومیہ 4 ہزار سے زائد ای چالان کیے جارہے ہیں۔تاہم اس میں کمی اور اضافہ شہریوں کے تعاون پر منحصر ہے۔حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں دستی چالان کا نظام روک دیا گیا یے۔ای چالان کے نظام کو بہتر کیا جارہا ہے۔اگر شہری ٹریفک قوانین پر عمل کریں گے تو چالان نہیں ہوں گے۔
ایکسپریس نے کراچی میں انفراسٹرکچر کی صورت حال، ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائیٹیشن سسٹم (ٹریکس) نافذہونے، ٹریفک کے جرمانوں اور شہریوں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر رپورٹ مرتب کی۔
وزیر اعلی ہاؤس کے ترجمان کے مطابق مطابق کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی روکنے کے لیے 27 اکتوبر سے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائیٹیشن سسٹم (ٹریکس) نافذ العمل ہو گیا ہے۔ اس نظام کے تحت اب دستی نظام کے بجائے ڈیجیٹیل چالان کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ نظام جدید مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے منسلک سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے رفتار کی زیادتی، سگنل توڑنے اور ہیلمٹ نہ پہننے جیسی خلاف ورزیوں کا خودکار اندراج کرے گا اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ای چالان ان کے گھروں کے پتوں پر بھیجے جائیں گے۔ ترجمان کے مطابق ان چالانوں کی ادائیگی آن لائن بھی ممکن ہو گی۔
اُن کا کہنات ھا کہ جرمانے جمع کرانے، خلاف ورزیوں کی وضاحت اور اپیل کرنے کی سہولت ہوگی۔ وزیر اعلی سندھ نے پہلی بار خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سہولت دی ہے کہ وہ متعلقہ حکام کے سامنے ذاتی طور پر پیش ہو کر معافی نامہ جمع کرائیں تو ان کا جرمانہ معاف کیا جا سکتا ہے جبکہ بار بار خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بغیر کسی رعایت کے جرمانے وصول کرنے کی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ ٹریکس کا انضمام حکومت کے اہم ڈیٹا بیسز جیسے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ڈرائیونگ لائسنس سسٹم، نادرا ای سہولت اور جدید ادائیگی گیٹ ویز کے ساتھ کر دیا گیا ہے جس سے شہری اب اپنے جرمانے آن لائن یا موبائل فون کے ذریعے محفوظ طریقے سے دیکھ اور ادا کر سکیں گے۔
نیا ٹریکس موبائل ایپ اس عمل کو مزید آسان بناتا ہے جس کے ذریعے صارفین حقیقی وقت میں اپنی خلاف ورزیاں دیکھ کر چالان ادا کر سکتے ہیں۔پہلے مرحلے میں کراچی بھر میں 200 کیمرے نصب کیے گئے ہیں جبکہ آئندہ مرحلے میں اس تعداد کو بڑھا کر 12,000 تک کرنے اور بعد ازاں سندھ کے دیگر اضلاع تک نظام کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا منصوبہ ہے۔
عوامی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے بڑے ٹریفک دفاتر اور تھانوں میں قائم ٹریکس سہولت مراکز شہریوں کو جرمانے جمع کرانے، خلاف ورزیوں کی وضاحت کرنے اور چالان کے خلاف اپیل کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ نظام کا انضمام سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے ساتھ شفاف نگرانی اور ازالہ شکایات کو یقینی بناتا ہے۔
حکومت سندھ نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کی نئی شرح عائد کر دی ہے۔ محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ کی جانب سے یکم اکتوبر 2025 کو جاری کئے گئے۔
بارہویں شیڈول کے مطابق ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ملنے والے نئے جرمانے ماضی کی نسبت کئی زیادہ ہونگے جو 5ہزار سے لیکر ایک لاکھ روپے تک ہوسکتے ہیں۔
محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ حکومت سندھ کی جانب سے جاری بارہویں شیڈول کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سب سے چھوٹا جرمانہ تیز رفتاری پر موٹر سائیکل کے لیے 5 ہزار،کار/ جیپ کے لیے10 ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لئے 15 ہزار اور ہیوی ٹریفک کے لئے 20 ہزار روپے کا جرمانہ ہوگا جبکہ سب سے بڑا جرمانہ غلط سمت گاڑی چلانے پر موٹر سائیکل کے لئے25 ہزار،کار/جیپ کے لئے 30ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لیے 50ہزار اور ہیوی ٹریفک کے لئے1لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
اس کے علاوہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر موٹر سائیکل 5ہزار،کار/جیپ کے لئے 20ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لئے15ہزار اورہیوی ٹریفک وہیکل کے لیے 20 ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا،بغیر لائیسنس ڈرائیونگ پر موٹر سائیکل کے لیے 20ہزار،کار/جیپ کے لئے 25ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لیے 30 ہزار اور ہیوی ٹریفک کے لیے50ہزار روپے جرمانے کئے جائیں گے،بغیر رجسٹریشن گاڑی چلانے پر موٹر سائیکل کے لیے10ہزار،کار /جیپ کے لیے 50ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لئے 75ہزار اور ہیوی ٹریفک وہیکل کے لئے1لاکھ روپے جرمانے کیے جائیں گے،بغیر انشورنس گاڑی چلانے پر موٹر سائیکل کے لئے 5ہزار،کار/جیپ کے لئے 10ہزار،لائٹ ٹریفک وہیکل کے لیے15ہزار اور ہیوی ٹریفک کے لیے20 ہزار روپے جرمانے کیے جائیں گے۔
سندھ حکومت کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن موٹروہیکل ونگ کے ڈائریکٹر عاطف علی بھٹی نے بتایا کہ کراچی میں 30 لاکھ سے زائد موٹر سائیکل رجسٹرڈ ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زائد موٹر سائیکل اس وقت سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 4 پہیوں یا اس سے زائد پہیوں کی گاڑیوں کی تعداد ساڑھے 12 لاکھ سے زائد ہے۔ محکمہ کے ڈیٹا کو مکمل کمپیوٹرائزڈ کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں سیکڑوں گاڑیاں ایسی ہیں، جو اصل مالکان نے فروخت کر دی ہیں اور جن لوگوں نے یہ گاڑیاں خریدی ہیں، انہوں نے یہ گاڑیاں اپنے نام پر نہیں کروائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی میں ای چالان کے نفاذ کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد گاڑیوں کو اپنے نام پر رجسٹرڈ کرانے کے لیے محکمے سے رجوع کر رہی ہے۔ شہر میں بے شمار گاڑیاں ایسی ہیں، جو دوسرے شہروں میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان گاڑیوں سندھ کے محکمہ ایکسائز رجسٹرڈ کرنے کے لیے حکومت جو پالیسی دے گی، اس پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔
رواں سال ٹریفک حادثات میں 715 اموات
ریسکیو ادارے چھیپا فاؤنڈیشن کے ترجمان چوہدری شاہد حسین نے بتایا کہ کراچی میں رواں سال ٹریفک حادثات میں 715 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 552 مرد، 72 خواتین، 70بچے اور 21 بچیاں شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹریفک حادثات میں زخمیوں کی تعداد 10529 ہے، جن میں 8233 مرد 1641 خواتین، 502 بچے اور 153 بچیاں شامل ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ 303 روز میں ڈمپر کی ٹکر سے 38، ٹریلر کی ٹکر سے 80، واٹر ٹینکر کی ٹکر سے 47، مزدہ کی ٹکر سے 18، بس کی ٹکر سے 27 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان افراد کی کل تعداد 210 بنتی ہے۔
وزیر اعلی ہاوس کے ترجمان کے مطابق اگست 2024 اکتوبر 2025 تک 684 افراد ٹریفک حادثات کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
کراچی ٹریفک پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ شہر کے مختلف مقامات پر 200 سے زائد کیمروں کے ذریعہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کی ٹریکس نظام کی معاونت سے نشاندہی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لیاری ایکسپریس وے کے تمام انٹرچینج، ٹول پلازہ، شاہراہ فیصل، تین تلوار، ٹاور، ریجنٹ پلازہ، دو تلوار، پی آئی ڈی سی، ایوان صدر، الآصف سمیت مختلف مقامات پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعہ ٹریکس کا نظام فعال ہے۔
ٹریفک پولیس حکام نے بتایا کہ شہر میں ٹریفک پولیس دستی چالان نہیں کر رہی ہے۔ ٹریفک پولیس کے حکام کا کہنا یے کہ روزانہ کی بنیاد 4 ہزار سے زائد ای چالان کیے جارہے ہیں۔
اس کی تعداد میں کمی واضافہ ممکن ہے ۔اب تک 15 ہزار سے زائد ای چالان کیے چاچکے ہیں۔ ای چالان نظام کے تحت ہونے والی کارروائیاں مختلف نوعیت کی خلاف ورزیوں پر مبنی ہیں جن میں سگنل توڑنا، سیٹ بیلٹ استعمال نہ کرنا، غیر قانونی پارکنگ، رفتار کی حد سے تجاوز، اور دورانِ ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال شامل ہیں۔ان خلاف ورزیوں پر فوری اور شفاف کارروائی سے نہ صرف حادثات میں کمی آئی ہے بلکہ ٹریفک کے بہاؤ میں بھی بہتری دیکھی جا رہی ہے۔ شہری اب زیادہ محتاط انداز میں ڈرائیونگ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کیمرے ہر لمحہ ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔
شہری اب اپنے چالان کی تفصیلات آن لائن دیکھ سکتے ہیں اور ادائیگی بھی گھر بیٹھے کر سکتے ہیں۔ یہ شفافیت اس بات کی علامت ہے کہ کراچی ٹریفک پولیس جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔یہ ای چالان پاکستان پوسٹ کے زریعہ شہریوں کے گھروں کے پتوں پر بھیجے جارہے ہیں۔اس نظام کو بتدریج آگے بڑھا جارہا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق خودکار نظام کے تحت جاری کیے جانے والے چالان میں تکنیکی غلطی ہوسکتی ہے اگر آپ اپنے خلاف ہونے والے چالان سے مطمئن نہیں تو ٹریفک پولیس کے سہولت سینٹر میں چالان کے خلاف رجوع کرسکتے ہیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں 11 سہولت سینٹرز موجود ہیں۔شکایت کے لیے ان علاقوں میں سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جن میں ایس پی ایسٹ ٹریفک آفس منور چورنگی گلستان جوہر، ایس پی ویسٹ ٹریفک آفس حب ریور روڈ، ایس پی سینٹرل ٹریفک آفس نزد ناظم آباد ڈرائیونگ لائسنس برانچ، ایس پی ملیر ٹریفک آفس قائد آباد چوک، پولیس سہولت مرکز اورنگی روڈ ٹریفک سیکشن سیکریٹریٹ، ایوان صدر روڈ ٹریفک سیکشن صدر، مین شاہراہ فیصل ٹریفک سیکشن پریڈی پولیس اسٹیشن، فیروز آباد نرسری مین شاہراہ فیصل، ٹریفک سیکشن شاہراہ فیصل ڈرگ روڈ اور ٹریفک سیکشن کورنگی، بروکس چورنگی کورنگی انڈسٹریل ایریا شامل ہیں۔
ابہام کی صورت میں کسی قریبی سہولت سینٹر پر چالان لے کر جائیں، سینٹر میں موجود ٹریفک پولیس افسران کو تحفظات سے آگاہ کریں، ڈیوٹی آفیسر آپ کی شکایت درج کرکے آپ کو رسید فراہم کرے گا جس کے بعد چالان کی ادائیگی کے لیے ملنے والی 21 روزہ مہلت بھی عارضی طور پر تھم جائے گی۔
اگلے مرحلے میں آپ کی شکایت خودکار نظام کے تحت کمیٹی تک پہنچے گی، ایک ایس ایس پی، ایک ڈی ایس پی اور ایک سی پی ایل سی کے نمائندے پر مشتمل تین رکنی خصوصی کمیٹی آپ کی شکایت کی جانچ کرے گی اس دوران کمیٹی اراکین نے اگر یہ سمجھا اور شواہد سے ثابت ہوگیا کہ چالان کے اجرا میں تکنیکی غلطی موجود ہے تو چالان منسوخ ہوجائے گا، جانچ کے دوران آپ کی غلطی ثابت ہوئی تو کمیٹی آپ سے رابطہ کرے گی اور دستیاب تصاویر اور ویڈیو کے ذریعے آپ کو مطمئن کرے گی۔
اس کے بعد قوانین کے مطابق 21 روزہ مہلت دوبارہ فعال ہوجائے گی اور چالان کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ان کا کہنا ہے کہ قانون کی عمل داری کے ساتھ ساتھ اگر انتظامیہ انفراسٹرکچر کی بہتری پر بھی توجہ دے تو یہ نظام شہری نظم و ضبط میں دیرپا تبدیلی لا سکتا ہے۔کراچی ٹریفک پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی مکمل پاسداری کریں تاکہ شہر میں ٹریفک کا نظام بہتر ہو اور حادثات میں واضح کمی لائی جا سکے۔
شہر میں 150 سگنلز میں سے صرف 100 ٹھیک
ادارہ ترقیات کراچی کے حکام نے بتایا کہ کراچی میں کے ڈی اے اور دیگر اداروں کے ماتحت 150 سے زائد ٹریفک سنگنلز ہیں، جن میں 100 سے زائد سنگنلز کام کر رہے ہیں۔ جن میں 40 سے زائد سگنلز خراب ہیں اور ان کی خرابی کو دور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے مختلف مقامات ڈیجیٹل سگنلز لگانے کے منصوبے پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے۔
شاہراہ فیصل کے علاوہ کون سی معیاری سڑک ہے؟
اربن پلانر محمد توحید نے نشاندہی کی کہ کراچی میں چھوٹی بڑی سڑکیں ملا کر 1500 سے زائد ہیں۔ جن میں شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ، یونیورسٹی روڈ، شاہراہ پاکستان، شاہراہ قائدین، سائٹ ایریا اور دیگر شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 106 سڑکیں کے ایم سی کے ماتحت ہیں۔ باقی سڑکیں ٹاون میونسپل ایڈمنسٹریشن اور دیگر اداروں کے ماتحت ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ حکومت بتائے کہ شاہراہ فیصل کے علاوہ کون سی ایسی سڑک ہے، جو معیاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 60 فیصد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کئی مقامات پر سڑکوں پر گڑھے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر کا بنیادی انفراسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہے۔ بیشتر روڈوں اور فلائی اوورز پر انجیئرنگ کے نقائص ہیں ۔ کئی پلوں پر جوائنٹس کا مسئلہ ہے۔ شہر کی بیشتر سڑکیں پانی اور سیوریج کے مسائل کی وجہ سے تباہ ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر تجاوزات کے مسائل ہیں، ندازا 80 فیصد سے زائد سڑکیں ایسی ہیں، جن پر ٹریفک کے اشارے / علامات نصب نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اشارے ٹریفک کو منظم رکھنے اور خطرات سے آگاہی دیتے ہیں اور راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کراچی کی 90 فیصد شاہراہوں پر زیبرا کراسنگ نہیں ہے۔
توحید کا کہنا تھا کہ زیبرا کراسنگ پیدل چلنے والی کی گزر گاہ ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی کی شاہراہوں پر موٹر سائیکل سواروں کے لیے کوئی لائن متعین نہیں ہے۔ شاہراہوں پر تین لائنیں ہوتی ہیں۔ ایک لائن موٹر سائیکل اور ہلکی گاڑی چلانے والوں کے لیے، دوسری لائن درمیانی رفتار اور تیسری لائن فاسٹ ٹریک کہلاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کی شاہراہوں پر لوگ اپنی مرضی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ کراچی کی کسی شاہراہ پر گاڑیوں کی رفتار کی حد مقرر نہیں ہے۔ شہر کے بیشتر سگنلز پرانے ماڈل کے ہیں،جن میں سے بیشتر سگنلز میں ڈیجیٹل ٹائم کا نظام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب شہر میں انفراسٹرکچر خراب ہو گا تو لوگ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کریں گے۔ ٹریفک جام، تجاوزات، ٹریفک سائن، زیبرا کراسنگ اور دیگر مسائل ہوں گے تو ڈیجیٹل ای چالان کا نظام کس طرح کامیاب ہو گا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ٹریکس یعنی ای چالان کا نظام نافذ کرنے سے قبل کسی سڑک پر اس کی مقررہ مدت تک آزمائش نہیں کی گئی۔ اگر حکومت کو نظام نافذ کرنا تھا تو پہلے شاہراہ فیصل کو اس نظام سے منسلک کرکے اس کی آزمائش کی جاتی اور کامیاب آزمائش کے بعد اس کو دیگر شاہراہوں پر نافذ کیا جاتا۔
ماہر سماجی بہبود پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے بتایا کہ کراچی میں ٹریفک مینجمنٹ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ لوگ اپنی مرضی سے سڑک پر گاڑیاں چلاتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہننا پسند نہیں کرتے، غلط پارکنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ سڑکوں پر گاڑی چلانے والوں سے پوچھیں کہ وہ ٹریفک اشاروں کے بارے میں جانتے ہیں تو ان میں بیشتر کو ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اس شہر میں ہزاروں گاڑیاں ایسی ہیں، جو لوگوں کے اپنے نام پر نہیں ہیں۔ مالک اور خریدار صرف سیل پرچیز رسید پر گاڑی کا سودا کرتے ہیں۔ ای چالان کا نظام کیسے کامیاب ہو گا۔ اگر فرض کریں میں نے ایک گاڑی خریدی، جو میں نے اپنے نام پر منتقل نہیں کروائی۔
اگر میرا ای چالان ہوا تو وہ گاڑی کے سابق مالک کے پتے پر جائے گا۔ اس طرح تو خلاف ورزی کرنے والا جرمانے سے بچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے حکومت گاڑیاں ہر شخص کے نام پر منتقل کرے پھر ای چالان کا نظام کامیاب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ ہیوی ٹریفک ہے۔ ہیوی ٹریفک رات کو مخصوص شاہراہوں پر رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک چلتا ہے۔
حکومت پہلے ہیوی ٹریفک کی شاہراہوں پر یہ نظام نافذ کرتی۔ انہوں نے کہا کہ شہر کی بیشتر شاہراہوں پر رات کے اوقات میں اسٹریٹ لائٹ بن ہوتی ہیں تو رات میں ٹریکس کا نظام کس طرح کام کرے گا۔
ایک نجی ٹریفک ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے انسٹرکٹر نعیم احمد نے بتایا کہ کراچی میں ٹریفک لائسنس کے اجراء کے نظام پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹریفک لائسنس کے اجراء سے قبل ایک ماہ کی ٹریننگ لازمی قرار دی جائے اور اس کے لیے نجی اداروں کے تعاون سے ہر ٹاون میں 5 انسٹی ٹیوٹ کھولے جائیں اور امتحان میں کامیابی کے بعد لائسنس کا اجراء کیا جائے۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ کراچی کی شاہراہوں پر گاڑیوں کی رفتار کی پیمائش کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ تو پھر اوور اسپیڈ کے چالان کس طرح کئے جا رہے ہیں۔
ماہر ٹرانسپورٹ پروفیسر ڈاکٹر نعمان احمد نے بتایا کہ کراچی میں ٹریکس کا نظام ایک اچھا منصوبہ ہے۔ یہ سیف سٹی پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نظام کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اسے ہیوی ٹریفک کے روٹس پر لاگو کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے آگاہی چلانے کی ضرورت ہے۔ جرمانے کی شرح کو لوگوں کی مالی حیثیت کو دیکھتے ہوئے لاگو کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر دیکھا جائے تو کراچی جیسے میگا سٹی میں اس نوعیت کے جدید نظام کی اشد ضرورت تھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ای چالان سسٹم کئی برسوں سے کامیابی سے رائج ہے جس کے نتائج نہایت مثبت رہے ہیں۔
’کراچی میں اس نظام کے نفاذ سے نہ صرف شہری نظم و ضبط میں بہتری کی امید ہے بلکہ یہ اقدام ٹریفک قوانین کی پاسداری کے کلچر کو فروغ دینے میں سنگِ میل ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس نظام کے نافذ ہونے کے ساتھ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘
راشد منہاس روڈ کی رہائشی نادیہ سہیل نے بتایا کہ وہ کورنگی میں ایک فیکٹری میں اچھی پوسٹ پر کام کرتی ہیں اور آمدو رفت کے لیے اپنی گاڑی استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے تنقید کی کہ شہر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز حادثات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل سوار تیز رفتاری سے بائی چلاتے ہیں۔ کراچی میں سب سے بڑا مسئلہ الٹی سمت گاڑی چلانے کا ہے۔ آپ سیدھے جا رہے ہوتے ہیں اور گاڑیاں الٹی سمت میں آرہی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے روز ٹریفک احتجاج کی وجہ سے ٹریفک جام کے مسائل علیحدہ ہیں ۔
موٹر سائیکل پر آن لائن رائیڈر کا کام کرنے والے فاروق خان نے بتایا کہ میری تنخواہ 25 ہزار روپے ہے اور گاڑی بھی میرے نام پر نہیں ہے کیونکہ میں یہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتا ہوں، اگر میرے چالان ہوں گے تو میں چالان ادا کرنے پوزیشن میں نہیں ہوں گا۔ ہو سکتا ہے کہ اگر میرے ساتھ یہ معاملہ ہوا تو میں موٹر سائیکل چلانا چھوڑ دوں۔
مقامی سماجی رہنما نعیم خان نے بتایا کہ اگر ایک چالان ایسے شخص کے پاس جائے گا، جس نے گاڑی فروخت کر دی ہو گی تو وہ گاڑی خریدنے والے کو کس طرح ڈھونڈے گا۔ اس سے تو افراتفری پیدا ہو گی۔
کراچی میں بھاری بھرکم ای چالان سسٹم کیخلاف مرکزی مسلم لیگ اور ایک شہری نے سندھ ہائیکورٹ میں ای چالان کے بھاری بھرکم جرمانوں کیخلاف آئینی درخواست دائر کردی۔
احمد ندیم اعوان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی ملک میں دو قانون کیسے قابل قبول ہوسکتے ہیں؟۔ لاہور میں چالان کا جرمانہ 200 روپے جبکہ کراچی والوں کے لیے 5000 روپے کیوں؟۔ اگر حکومت نے کراچی کے شہریوں کے ساتھ یہ ناانصافی ختم نہ کی تو مرکزی مسلم لیگ قانونی جدوجہد کو مزید وسعت دے گی۔
قانون دان خواجہ نوید امین نے کہا کہ اب ای چالان کا ہائی کورٹ میں ہے۔عدالت اس کیس کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ نظام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑ سکتا یے۔تو اسٹریٹ کرائمنلز کیوں نہیں پکڑے جاسکتے ہیں۔ایسا لگتا یے یہ حکومت کی آمدنی بڑھانے کا زریعہ ہوسکتا یے۔اس چالان کے نظام پر آن لائن فراڈ شروع ہوگیا ہے۔اس کی شفافیت کے لیے میکنزم قائم کرناضروری ہے۔ان جرمانوں کے خلاف اپیل کا طریقہ کار بھی موثرنہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ای چالان سے حاصل ریونیو حکومت کہاں خرچ کرے گی یہ ایک سوال ہے؟۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سندھ اسمبنلی میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر طحہ احمد خان نے ٹریکس نظام پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا رویہ ظالمانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف بھاری جرمانے کی پالیسی کراچی میں ہی کیوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کسی شخص کو ای چالان جاری کیا جا رہا ہے تو اس کی تصویر میڈیا پر ہیں آنی چاہئے۔ اس سے مذکورہ شخص کی پرائیویسی متاثر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ شہر کی سڑکیں موئنجو دڑو کا منظر کرتی ہیں اور آپ دبئی کا نظام یہاں نافذ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوٹ مار کا ایک دھندا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان ای چالان کے نظام کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کرے گی۔
جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کہا کہ میئر کراچی 106 سڑکوں کے نہیں پورے کراچی کے میئر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہ فیصل کے علاوہ شہر کی تمام سڑکیں تباہ حالی کا شکار ہیں۔ یونیورسٹی روڈ، ریڈ لائن اور ایم اے جناح روڈ گرین لائن پروجیکٹ کے توسیع منصوبے کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب شہر کا 80 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو گا تو آپ کس طرح ٹریفک مینجمنٹ کا نظام قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای چالان کے خلاف عوامی احتجاج کے ساتھ قانونی جنگ لڑیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی واجد حسین خان نے کہا کہ لوگوں کے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں۔ وہ 5 ہزار روپے کا چالان کس طرح بھر سکتے ہیں۔
انہو ں نے کہا کہ شہر کے نوجوان کی بڑی تعداد رائیڈر کا کام کرتی ہے، جن کی ماہانہ آمدنی 30 ہزار سے بھی کم ہے۔ وہ یہ بھاری چالان کیسے ادا کریں گے۔
کے ایم سی کے میونسپل کمشنر افضل زیدی نے کہا کہ شہر میں 106 سڑکیں ہیں ۔ان میں جن سڑکوں میں ٹوٹ پھوٹ اور دیگر شکایات ہیں ۔ان کی بتدریج مرمت کی جارہی ہے، ٹاونز حکومتیں بھی اپنی حدود کے انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے پر کام کررہے ہیں۔
سندھ حکومت کے وزیر محنت سعید غنی نے کہا کہ کراچی میگا سٹی ہے، جب شہر میں حادثات میں اضافہ ہوا تو یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا رہی۔
انہوں نے کہا کہ ٹریکس نظام ٹریفک مینجمنٹ کا ایک کامیاب منصوبہ ہے۔ لوگ ٹریفک قوانین پر عمل کریں گے تو ان کے چالان نہیں ہوں گے۔ انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ نہ کریں بلکہ ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے تعاون کریں۔