وزیر آبپاشی پنجاب کاظم پیرزادہ کا کہنا ہے کہ پنجاب اچھی پیداوار کرے گا تو فائدہ پورے پاکستان کا ہوگا۔

وی نیوز نے پنجاب اور سندھ میں نہروں کے مسئلے سے متعلق ’پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ ‘ کا انعقاد کیا۔ اس ڈائیلاگ میں وزیر اریگیشن سندھ جام خان شورو، وزیر اریگیشن پنجاب کاظم پیرزادہ، ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس، رہنما پی پی پی فرحت اللہ بابر اور چوہدری منظور نے اس حوالے سے اظہار خیال کیا۔

جام شورو خان نے کہا کہ  1991میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 114 ایم اے ایف پانی صوبوں کو دیا جائے گا،  48 ایم اے ایف سندھ کو اور 56 ایم اے ایف پنجاب کو دینا تھا، جبکہ آج ملک میں صرف 96 ایم اے ایف پانی دستیاب ہے۔

 انہوں نے کہا کہ سندھ 14 کینالز اور 3 بیراجوں کے اوپر 48 ایم اے ایف پانی تقسیم کرتا ہے۔ جب پانی کی قلت ہے تو کنال کا نیا سسٹم کیسے بنائیں گے، ہمارے پاس سندھ میں صرف چند ہزار ٹیوب ویلز ہیں۔ ہم پینے سمیت سارے پانی کے لیے انڈس بیسن پر انحصار کرتے ہیں۔

جام شورو خان نے کہا کہ جب سندھ میں بارشیں ہوتی ہیں تب تک ہم سیزن گزار چکے ہوتے ہیں، کیا پاکستان میں 25 سالوں سے پانی کی قلت ہے یا نہیں، کیا پنجاب ہر سال اپنے پانی کی قلت ظاہر نہیں کرتا۔

پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں وزیر اریگیشن پنجاب کاظم پیرزادہ نے اظہار اخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پانی کے لیے جو بھی کریں گے وہ اپنے شیئر سے کریں گے، 114 ایم اے ایف کا ٹارگٹ کبھی حاصل ہی نہیں ہوا۔ ہم پانی کے سب سے زیادہ 102 ایم اے ایف تک پہنچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی میٹری سسٹم لگ رہا ہے وہ ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم کرے گا۔ آج بھی سندھ کا سکھر بیراج سب سے بڑا ہے جہاں سے 8 نہریں نکلتی ہیں۔ پانی کی تقسیم کا سارا ڈیٹا تو آج کل طلباء کے پاس بھی ہوتا ہے۔ کاظم پیرزادہ نے کہا کہ ایک بد اعتمادی کی فضا ہے جس پر بیٹھ کر بات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب نے اپنا 2 فیصد پانی خود چھوڑ دیا تھا۔ پنجاب اچھی پیداوار کرے گا تو اس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا۔

ماہر آبی امور ڈاکٹر حسن عباس نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج سندھ اور پنجاب نہروں کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں۔ دونوں صوبوں کے وزرا اپنا اپنا موقف پیش کر رہے ہیں، جبکہ مسئلہ وہاں سے شروع ہوا کہ جب گرین پاکستان کے تحت چولستان کینال بنانے کا سوچا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جس نے چولستان کینال بنانے کا مشورہ دیا وہ کنسلٹنٹ کہاں ہے؟ جب تک اس مشورہ دینے والے کو سامنے نہیں بٹھایا جاتا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ وزرا تو ایڈمنسٹریٹر ہیں، وہ پانی کے ماہر نہیں ہیں۔ کینال کے پانی سے تو آپ ایریگیشن سسٹم نہیں چلا سکتے، نہروں کے پانی میں اضافی کثافتیں ہوتی ہیں، جسے آبپاشی کے ایفیشنٹ نظام کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ایفیشنٹ ایری گیشن کے لیے پہلے اس پانی کو صاف کیا جانا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کو بتایا تھا نہریں نہ بنائی جائیں، اس پر 28 پوائنٹس دیے تھے، رپورٹ کے پہلے پوائنٹ میں بتایا گیا تھا کہ نہروں سے صوبوں میں لڑائی ہوگی۔

ڈاکٹر حسن عباس نے مزید کہا کہ انڈیا نے 3.

8 ملین ایکڑ پر راجستان میں نہریں نکالی تھیں، انڈیا کا صحرا کو آباد کرنے کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ آپ ایک ناکام منصوبے کو دہرا رہے ہیں۔

پی پی پی کے رہنما چوہدری منظور نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چیزوں کو ان کے تناظر میں دیکھنا چاہیے، سندھ اس سے پہلے پرسکون  اور خاموش تھا،  پانی کے معاملے پر سندھ کے نیشنلسٹ کو ایک دلیل مل گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج 48 جماعتیں سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں،  ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں کراچی میں  پینے کے پانی کے حوالے سے میٹنگ ہوئی۔ اعتزاز احسن نے اپنی بات رکھی تو بھٹو صاحب ناراض ہوئے۔ بھٹو نے کہا اگر پانی کی بات کریں گے تو کراچی اور سندھ سے آوازیں اٹھیں گی۔

سندھ میں پینے کے پانی کا انحصار دریا کے پانی پر ہے، کسان ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے پانی کی تقسیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کی فصلوں میں ایک ماہ کا گیپ ہے۔

چوہدری منظور نے کہا نے کہ پانی 114 ایم اے ایف پر اکارڈ ہوا تھا، آج آپ کے پاس پانی اوسطاً95 رہ گیا ہے، پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں 70 اور 30 کی نسبت رکھنی چاہیے تھی۔ اگر سندھ طاس معاہدے میں دریا بھارت کو نہ دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

انہون نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے سوال کیا کہ آپ کے پاس پنجاب میں بھی پانی کم ہوا ہے، چولستان کی نہر کو پانی دینے کے لیے کوئی نہر بند کرنا پڑے گی۔ میں نے وزیر اعلیٰ سے پوچھا تھا کہ کون سی نہر بند کر کے چولستان کو پانی دیا جائے گا؟ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ کی بات کی جارہی ہے، نہروں کے پانی سے کارپوریٹ فارمنگ تو ممکن ہی نہیں۔ اگر چولستان کے علاقے میں 3 دن پانی کھڑا ہو تو کائی آ جاتی ہے۔ ایسے میں نہر کے گندے پانی سے فارمنگ کیسے ممکن ہے۔

چوہدھری منظور نے مزید کہا کہ اس وقت کسان کو قرض پر سود کی شرح 31 فیصد ہے،  پنجاب میں 10 ہزار کسانوں کو ٹریکٹر دینے کی بات کی گئی۔ کسانوں سے کہا گیا کہ سارے پیسے آپ جمع کرائیں، 10 لاکھ روپے ہم دیں گے، کس کسان کے پاس اتنے پیسے ہیں جو ٹریکٹر حاصل کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گزشتہ سال جعلی بیج دیے گئے۔ فصل نہ ہونے سے کسان تباہ ہو گئے۔ ہمارے مقابلے میں انڈیا میں 70 من فی ایکڑ گندم کی پیداوار ہے۔ آپ لوگوں کو بیج ٹھیک دیں تو آپ کی فصل کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ یہ جو تجربہ ہو رہا ہے یہ پہلے سے ہی ناکام تجربہ ہے۔

فرحت اللہ بابر نے پاکستان واٹر فیوچر ڈائیلاگ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے پاس بہت دریا ہیں، ہمارے پاس صرف سندھ ہے۔ سندھ کے پانی کا دارومدار گلیشئیر پر ہے۔ جبکہ یو این کے مطابق گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چولستان کو آباد کرنے کے حوالے سے نہریں بنائی جا رہی ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ ان نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا، کہا جاتا ہے کہ ارسا کہہ رہا ہے کہ پانی موجود ہے۔ ارسا میں آپ نے سندھ سے ایک ممبر کو 2010 سے تعینات نہیں کیا، جبکہ ارسا کے ہیڈ کا سندھ سے ہونا ضروری ہے۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ چولستان کو پانی دینے کے لیے سندھ کے لوگوں کا حق مارا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صدر پاکستان نے اس پراجیکٹ پر دستخط کیے، آئین کے مطابق ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے لیے صدر کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہوش سے کام لینا چاہیے۔ آگ سے کھیلنے کی ضد نہ کی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ارباب اختیار اس حوالے سے سوچیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔

پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔

گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔

ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • اینڈی پائیکرافٹ کے معاملے پر پاکستان کے سامنے تجاویز رکھ دی
  • جسٹس طارق جہانگیری معاملے پر اجلاس ہلڑبازی کی نذر
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • ’ایکس‘ اکاؤنٹ کے معاملے پر عمران خان سے جیل میں تفتیش: ’وی ٹاک‘ میں اہم خبروں پر تبصرہ
  • گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملے کا خطرہ، پاکستان سمیت 16 ممالک کا اسرائیل کو سخت انتباہ
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم
  • پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب
  • سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ 
  • بھارت نے ستلج میں پھر پانی چھوٹدیا ، سندھ ، پنجاب کے متعدد دیہات بدستور زیرآب : علی پور سے 11نعشیں برآمد
  • پنجاب کا بڑا حصہ ڈوب گیا، سندھ کے بیراجوں پر پانی کا دباؤ، کچے کے متعدد دیہات زیر آب