وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ایک بار پھر ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے پانی کے مسئلے پر مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران نہروں کے مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، واٹر ایکارڈ کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو منتقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانی کی تقسیم انتظامی اور تکنیکی مسئلہ ہے جس کا حل بھی انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر کیا جائے گا، کسی صوبے کی حق تلفی ممکن نہیں،  صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور مشاورت کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کراچی میں کھلے گٹر: انتظامی غفلت، اجتماعی المیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251205-03-3

کراچی جیسے بے ہنگم پھیلاؤ والے شہر میں روزمرہ زندگی پہلے ہی بے شمار مشکلات سے گزر رہی ہے، مگر رواں برس پیش آنے والے ایک کے بعد ایک حادثے نے شہری ماحول کی سنگینی کو ایک نئے زاویے سے بے نقاب کر دیا ہے۔ کھلے گٹر اور نالوں میں گر کر ہونے والی اموات محض حادثات نہیں بلکہ انتظامی غفلت، ناقص نگرانی اور شہری سلامتی کے بنیادی اصولوں سے لاتعلقی کی ہولناک داستان بنتے جا رہے ہیں۔ سال کے دوران مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات میں کم عمر بچوں سمیت درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جب کہ متعدد شدید زخمی ہوئے۔ ان دلخراش سانحات نے نہ صرف متاثرہ خاندانوں کو سوگوار کیا بلکہ شہر بھر میں اضطراب اور غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ یہ المناک سلسلہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب شہر کے ایک مصروف ترین علاقے میں ایک کمسن بچہ ایک ایسے مین ہول میں جا گرا جسے ڈھکن نہ ہونے کے باعث محض عارضی طور پر گتے سے بند کیا گیا تھا۔ اندوہناک پہلو یہ ہے کہ گتے کا یہ کمزور سہارا بچے کے وزن کے سامنے ٹھیر نہ سکا، جس کے نتیجے میں بچہ اندھے مین ہول میں گر کر بہہ گیا اور اسے بازیاب کرنے کے لیے طویل ریسکیو آپریشن درکار ہوا۔ جدید آلات، ہیوی مشینری اور متعدد محکموں کی کوششوں کے باوجود بچے کی جان نہ بچائی جا سکی، اور اس کی لاش کافی دور سے برآمد ہوئی۔ یہ واقعہ اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ شہر کے بنیادی انفرا اسٹرکچر کی حالت کس قدر خراب ہے اور متعلقہ ادارے کس حد تک غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے ایسے حادثات کی تعداد نے اس بحران کی شدت کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ کبھی ایک راہگیر چلتے چلتے کھلے گٹر میں جا گرتا ہے، کبھی موٹر سائیکل سوار روشنی یا نشان دہی نہ ہونے کے باعث حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، کبھی کھیلتے ہوئے بچے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کبھی لاپتا افراد کی لاشیں کئی دن بعد نالوں سے ملتی ہیں۔ ان تمام واقعات میں ایک مشترکہ پہلو ہے انتظامی کوتاہی، مجرمانہ غفلت اور بروقت اقدامات کی عدم موجودگی۔ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ حادثات کے بعد اکثر متاثرہ خاندان خود مدد کے طالب نظر آتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اہل خانہ نے اپنی مدد آپ کے تحت وسائل جمع کیے، ہیوی مشینری کا بندوبست کیا، اور متعلقہ اداروں کے آنے سے پہلے ریسکیو کی ذمے داریاں خود نبھائیں۔ یہ صورتحال اس بڑے شہر کی انتظامی ترجیحات پر سوال اٹھاتی ہے، جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق اور حفاظت کے معاملے میں بارہا سنگین سستی سامنے آئی ہے۔ اس واقعے کے بعد شہر کی سڑکوں سے لے کر ایوانوں تک احتجاج کی آوازیں بلند ہوئیں۔ شہریوں نے مشتعل ہو کر احتجاجی دھرنے دیے، ٹائر جلائے اور حکام کے رویے پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔ دوسری جانب، بلدیاتی اداروں کے اجلاسوں میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا، جہاں اپوزیشن نے بھرپور احتجاج کیا، سوالات اٹھائے، نعرے بازی کی اور جواب طلب کیا کہ آخر کب تک کھلے مین ہولز معصوم جانوں کو نگلتے رہیں گے۔ ایوان میں یہ تک دیکھنے میں آیا کہ کچھ ارکان جذبات کی شدت کے باعث آبدیدہ ہو گئے، اور یہ منظر خود اس مسئلے کی سنگینی کا مظہر تھا۔
ادھر ایوان کے اندر حکومتی ارکان کی جانب سے افسوس کے اظہار اور دعویٰ سامنے آیا کہ ذمے داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی، مگر یہ اعلانات شہریوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے وعدے کیے جاتے رہے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے مین ہولز اب بھی خطرے کی علامت بنے ہوئے ہیں، کئی مقامات پر ڈھکن ٹوٹے ہوئے ہیں، یا عارضی طور پر پتھروں، بوریاں یا دیگر غیر محفوظ طریقوں سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال انتظامی نااہلی سے کہیں بڑھ کر ایک اجتماعی ناکامی کا مظہر ہے۔ ایسے مسائل صرف کسی ایک ادارے یا فرد کی ذمے داری نہیں بلکہ ایک مربوط نظام کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہیں۔ جب میونسپل ادارے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ٹاؤن مینجمنٹ، اور ضلعی انتظامیہ سب اپنی اپنی حدود اور ذمے داریوں کا تعین کیے بغیر کام کریں گے، تو یہی المیے بار بار جنم لیں گے۔ شہری سلامتی کو یقینی بنانا صرف حادثات کے بعد کے بیانات سے ممکن نہیں بلکہ ایک واضح، مضبوط، اور مستقل حکمت ِ عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے تمام مین ہولز اور نالوں کا فوری سروے کیا جائے، ٹوٹے ہوئے یا غائب ڈھکنوں کی فوری مرمت کی جائے، ہر حساس مقام پر نشاندہی کے لیے واضح بورڈ لگائے جائیں، اور ایسے علاقوں میں نگرانی کے نظام کو سخت کیا جائے جہاں حادثات کے امکانات زیادہ ہوں۔ ساتھ ہی شہریوں میں آگاہی مہم چلائی جائے کہ وہ خطرناک مقامات کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں کو فوری اطلاع دیں۔ اس کے علاوہ، ریسکیو سروسز کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بروقت کارروائی ممکن ہو۔ اگر شہر کی انتظامیہ اور منتخب نمائندے واقعی شہری خدمت کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں تو ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ شہر روزانہ محنت کرنے والے لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے، اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کو سیاست، اختیارات کی کشمکش یا محکمہ جاتی سرد مہری کی نذر نہیں ہونا چاہیے۔ کھلے مین ہولز کا مسئلہ محض انفرا اسٹرکچر کی خامی نہیں بلکہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو اپنے لوگوں کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہو رہا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس سنگین مسئلے کو محض حادثاتی واقعات کے طور پر نہیں بلکہ ایک بڑے شہری و انتظامی بحران کے طور پر دیکھا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے مستقبل میں کسی بھی خاندان کو اپنے پیاروں کے اس طرح کے المیے سے نہ گزرنا پڑے۔ شہر کے بچے، نوجوان اور بزرگ سب محفوظ راستوں، محفوظ گلیوں اور محفوظ بنیادی ڈھانچے کے حقدار ہیں۔ یہ نہ صرف ریاست کی اخلاقی ذمے داری ہے بلکہ آئینی تقاضا بھی۔ اگر اس مسئلے پر بھی سنجیدگی نہ دکھائی گئی تو کراچی جیسے بڑے شہر میں انسانی جانوں کا ضیاع ایک معمول بن جائے گا، اور ہر ایسا واقعہ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوال بن کر گرتا رہے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب لاپروائی نہیں بلکہ عملی اقدام کیا جائے، ورنہ یہ شہر ہمیشہ انہی کھلے مین ہولز اور نالوں کی کہانیوں میں ڈوبا رہے گا اور تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے کتنی قیمتی زندگیاں ضائع ہونے دیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • ووٹر چاہے کسی کا ہو، کراچی کے ہر علاقے میں بس چلائیں گے، شرجیل انعام میمن
  • ووٹر چاہے کسی کا ہو، کراچی کے ہر علاقے میں بس چلائیں گے: شرجیل انعام میمن
  • این ایف سی اجلاس، وفاق اور صوبوں کا فاٹا شمولیت کے بعد خیبر پختونخوا کا شیئر بڑھانے پر اتفاق
  • کراچی میں کھلے گٹر: انتظامی غفلت، اجتماعی المیہ
  • پاکستان اور کرغزستان نے تجارتی حجم 20 کروڑ ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • نوازشریف کی مشاورت سے ترامیم ہوئی، رانا ثنا
  • نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار سے کرغزستان کے وزیرِ خارجہ کی ملاقات ، کثیرالجہتی فورمز پر تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • 27ویں ترمیم نواز شریف کی مشاورت سے ہوئی، چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن پر اختلاف ہو ہی نہیں سکتا، رانا ثنااللہ
  • فیلڈ مارشل سے ترک وزیر توانائی کی ملاقات، تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • فیلڈ مارشل سے ترک وزیر توانائی کی ملاقات‘ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق