خاموش طاقت، نایاب معدنیات کی دوڑ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
چین نے یکم اگست2023ء کوگیلیم،جرمینیم سمیت8نایاب معدنیات کی برآمدات پرلائسنسنگ کانظام نافذکیا،جوامریکاکی90 فیصد سپلائی کو متاثر کرتا ہے۔گویاچین نے نایاب معدنیات پرپابندی کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے یہ قانونی جوازپیش کیاکہ یہ پابندیاں’’قومی سلامتی‘‘اور ’’ماحولیاتی تحفظ‘‘کے لئے ہیں لیکن تجزیہ کاراسے امریکاکودباؤمیں لانے کی کوشش قراردیتے ہیں۔چین کی طرف سے عائدپابندیوں نے امریکاکی معیشت پراس طرح گہرااثرچھوڑاکہ اس کے ایف 35 طیاروں کی پیداوارسست پڑگئی،امریکامیں الیکٹرک کارز(ٹیسلا)، ٹاورز(کوالکام)اورجی5 بری طرح نہ صرف متاثرہوئے ہیں بلکہ ناقابل تلافی نقصان کی بناپران کامستقبل داؤپرلگ گیاہے۔
امریکاکے لئے یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے۔دفاعی سازوسامان سے لے کرشمسی توانائی تک،ہرشعبے میں چین پرانحصاراس کی حکمت عملی کو کمزور کر رہاہے۔مثال کے طورپر، ایف35 لڑاکا طیارے کے ہریونٹ میں400کلوگرام سے زائد نایاب معدنیات استعمال ہوتے ہیں۔چین کی جانب سے برآمدات پر پابندی نے امریکاکواس مقام پرلاکھڑ ا کیاہے جہاں 1973ء کے تیل کے بحران میں عرب ممالک نے مغرب کو لاکھڑا کیاتھا۔امریکاکی سب سے بڑی کمزوری کااورچین پر انحصار کایہ عالم ہے کہ امریکاکی سب سے بڑی کان، مانٹین پاس کیلیفورنیاسے نکالاگیاخام موادبھی پروسیسنگ کے لئے چین ہی بھیجاجاتاہے۔
چین کی پروسیسنگ مہارت کاجائزہ اور ٹیکنالوجی کے ارتقاکااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس نے2000میں ہی863 پروگرام کے تحت نایاب معدنیات کی ریسرچ پر 12ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس پراجیکٹ پرچین کواس لئے فوقیت رہی جوبعد ازاں موجودہ دورمیں چین کی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے کہ چین میں کان کنی کی لاگت امریکا سے60فیصدکم ہیں۔اس کے علاوہ چین نے شنگھائی اورگوانگژومیں تین سوسے زائدپروسیسنگ پلانٹس لگانے کے ساتھ کان کنی کمپنیوں کو30فیصد ٹیکس میں چھوٹ بھی دے دی ہے۔ چین کی ان کامیاب پالیسیوں کے سامنے آسٹریلیا کی لیناس کارپوریشن اورملائیشیاء کی لیناس ایڈوانسڈ میٹیریلزپلانٹ بھی بے بس ہوگئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکانے2022ء میں ایک مرتبہ پھرمانٹین پاس کان کی بحالی کودوبارہ فعال کرنے کے لئے 35ملین ڈالرکی سرمایہ کاری سے اس کا آغاز کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے چین کے معاشی محاصرہ کے لئے آسٹریلیا، جاپان،بھارت کوساتھ ملاکر ’’کواڈ‘‘ جیسابین العلاقائی اتحادبنایاہے تاکہ چین کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کئے جائیں۔ امریکا نے ’’ریئرارتھ انڈیپینڈنس‘‘ ایکٹ 2023ء کے قانون کے تحت2030ء تک خودکو پروسیسنگ میں خود کفیل بنانے کاہدف طے کررکھاہے لیکن ماہرین کی رائے کے مطابق یہ ایک بھرپورکوشش توہوسکتی ہے لیکن مکمل خودانحصاری کانام نہیں دیاجاسکتا۔
امریکاکی80 فیصد نایاب معدنیات چین سے درآمدہوتی ہیں۔مثال کے طورپر نیو ’’ڈیمیئم‘‘ جو الیکٹرک موٹرزاورونڈ ٹربائنوں کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔’’یوروپیئم‘‘نیوکلیئرری ایکٹرز اور میڈیکل امیجنگ مشینوں میں استعمال ہوتاہے۔اسی طرح ’’ڈسپروسیئم‘‘ فوجی ریڈاراور میزائل گائیڈنس سسٹمزکاکلیدی جزوہے، ان تمام معدنیات کے لئے امریکاچین کامحتاج ہے ۔ 2022 ء کی رپورٹ کے مطابق اگرچین سپلائی روک دے توایف35طیاروں کی پیداوارمیں کم ازکم6ماہ کی تاخیرہوسکتی ہے۔
آئیے!دیکھتے ہیں کہ چین کے اس جوابی وارسے امریکاپرکیاصنعتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور کیانایاب چینی معدنیات پرامریکی انحصار مستقبل میں کیاخوفناک معاشی اثرات نمودارہوسکتے ہیں۔
یوایس جیالوجیکل سروے2023ء کے اعدادوشمارکے مطابق امریکاکی6میں سے5 نایاب معدنیات(جیسے نیوڈیمیئم، پراسیوڈائمیئم، ڈسپرو سیئم) کا 80فیصدکی95فیصدسپلائی چین کے سخت کنٹرول میں ہے۔گیلیم اورجرمینیم(سیمی کنڈکٹرزکے لئے اہم) کی 94 فیصد عالمی سپلائی چین کے پاس ہے،جس پر امریکا کا 100 فیصد انحصارہے۔ امریکاکی صنعتی شعبوں کاانحصار چینی نایاب معدنیات کااس قدرمرہون منت ہے کہ الیکٹرک گاڑی ٹیسلابیٹری میں10سے15 کلوگرام معدینات (خاص طورپرنیوڈیمیئم) استعمال ہوتاہے۔ 2030ء تک امریکا کوایک ونڈ ٹربائن میں2گنا معدنیا ت درکارہیں اوریہ ونڈٹربائن امریکی صنعت کے لئے تجارتی شہہ رگ سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اسی طرح یہ نایاب معدنیات امریکی فوجی ہارڈوئیر کے لئے اس قدراہم ہیں کہ ہرایک ایف35 لڑاکاطیارے کے ہریونٹ میں417 کلوگرام معدنیات درکارہیں۔اسی طرح ایک’’ایجز‘‘ گائیڈڈمیزائل سسٹم میں4سے 5کلوگرام ’’یٹریئم‘‘ معدنیات درکار ہے۔
پینٹاگون کی2020ء رپورٹ کے مطابق 220امریکی دفاعی پیداوارمیں سے160 دفاعی سپلائی چینزانہی چینی نایاب معدنیات پرمنحصر ہیں۔ امریکی لڑاکا طیارے ایف35کے ساتھ ساتھ ہرایک امریکی کروز میزائل جس میں3سے5کلو گرام ٹیربیئم چینی نایاب معدنیات استعمال ہوتی ہیں،اگرچین صرف 80 فیصد سپلائی روک دے تو6ماہ میں دفاعی شعبہ ایسے بحران میں مبتلاہو سکتا ہے کہ اس سے امریکی سلامتی کوسنگین خطرات کا سامناکرناپڑسکتاہے۔
یہ چینی معدنیات آخرکیوں’’نایاب‘‘ہیں؟یہ عناصرزمین کی پرت میں دوسری دھاتوں(جیسے آئرن، تانبا)کے ساتھ ملے ہوتے ہیں۔انہیں الگ کرنے کے لئے کیمیائی پیچیدگی کے ساتھ ساتھ انتہائی مہنگے کیمیائی عمل درکارہیں۔ پروسسینگ کے دوران زہریلے فضلے کا اخراج ہوتاہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک نے 1990ء کی دہائی میں کان کنی ترک کردی تھی۔ بیجنگ نے مزدوری کی کم قیمت اور ماحولیاتی قوانین میں نرمی سے پروسیسنگ پرکنٹرول حاصل کرلیااور یہی وجہ ہے کہ آج نایاب معدنیات کی پروسیسنگ میں چین کی اجارہ داری قائم ہوچکی ہے۔
اک نظر نایاب معدنیات کے عالمی ذخائر پر بھی ڈالتے ہیں:
نایاب معدنیات میں چین اس وقت سرفہرست ہے۔خاص طورپرانرمنگولیاکے بایان اوبوکان سے 44 ملین میٹرک ٹن کی مقدارمیں حاصل ہوتاہے جو دنیا کا 37 فیصدہے۔
ویتنام ٹیکنالوجی کی کمی کی بناکے باوجود 22 ملین میٹرک ٹن کی معدنیات نکال رہاہے جو دنیا کا 18 فیصد ہے اوروہ بھی پروسیسنگ کے لئے چین کی خدمات حاصل کررہاہے۔
روس اوربرازیل سرمایہ کاری نہ ہونے کی بناپر21ملین میٹرک ٹن معدنیات نکال رہاہے جودنیا کا17فیصدہے۔
امریکاکیلیفورنیامانٹین پاس کان سے (1.
آئیے صرف ان4چینی مخصوص نایاب معدنیات کاذکرکرتے ہیں جن کے اعدادوشمار خود امریکی ادارے نے شائع کئے ہیں:
امریکی الیکٹرک موٹرز،مقناطیس صنعت کاچینی نایابنیوڈیمیئم‘‘معدنیات پر92 فیصدانحصارہے۔
اسی طرح نیوکلیئرری ایکٹرزاورلیزر مصنوعات کاچینی معدنیات’’یوروپیئم‘‘پر89فیصد انحصار ہے۔
فوجی ریڈاراورایٹمی ہتھیارکے لئے چینی معدنیات ’’ڈسپروسیئم‘‘کا95فیصدلازمی عمل دخل ہے۔
ایئر کرافٹ انجنز اور ہائنبرڈ کارزکے لئے 91 فیصدپراسیوڈائمیئم نایاب چینی معدنیات استعمال لازمی ہے۔
مانٹین پاس کان(کیلیفورنیا)امریکاکی واحد فعال کان،جو15ہزارٹن سالانہ خام مواد نکالتی ہے لیکن اسے پروسسینگ کے لئے چین بھیجاجاتا ہے۔ جاتاہے۔امریکامیں صرف ایک پروسیینگ پلانٹ ٹیکساس میں ہے جوجون2025ء تک مکمل ہوگااوراس کے باوجودابھی امریکاکو پروسیسنگ کی سہولت کے لئے کئی سال چین پرانحصار کرناہوگا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نایاب معدنیات کی چینی معدنیات چینی نایاب کے لئے چین میٹرک ٹن کے مطابق میں چین ہے لیکن کے ساتھ چین کے چین کی
پڑھیں:
سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
واشنگٹن (نیوز ڈیسک )عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ خاندان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈک چینی پیر کی رات نمونیا اور دل و خون کی نالیوں کی بیماریوں کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب وفات پا گئے۔ریپبلکن رہنما — جو وائیومنگ کے سابق کانگریس مین اور وزیرِ دفاع رہ چکے تھے — اس وقت پہلے ہی واشنگٹن کی طاقتور شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے جب اُس وقت کے ٹیکساس کے گورنر جارج ڈبلیو بش نے انہیں 2000 کی صدارتی انتخابی مہم میں اپنا ساتھی اُمیدوار (رننگ میٹ) منتخب کیا تھا، جس میں بش کامیاب ہوئے تھے۔
2001 سے 2009 تک نائب صدر کی حیثیت سے، چینی نے صدارتی اختیارات کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کا خیال تھا کہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد، جس کی وجہ سے ان کے سابق باس رچرڈ نکسن اقتدار سے محروم ہوگئے تھے، صدر کے اختیارات کمزور ہو گئے تھے۔
انہوں نےایک قومی سلامتی کی ٹیم تشکیل دے کر جو اکثر انتظامیہ کے اندر خود ایک علیحدہ طاقت کا مرکز بن جاتی تھی، نائب صدر کے دفتر کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھایا۔
چینی 2003 میں عراق پر حملے کے پُرزور حامی تھے اور وہ بش انتظامیہ کے ان نمایاں اہلکاروں میں شامل تھے جنہوں نے عراق کے مبینہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذخیرے سے لاحق خطرے کے بارے میں سخت ترین انتباہات دیے۔ تاہم، ایسے کوئی ہتھیار کبھی نہیں ملے۔
انہوں نے بش انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے اختلافات بھی کیے، جن میں وزیرِ خارجہ کولن پاول اور کونڈولیزا رائس شامل تھے۔ ڈک چینی نے دہشت گردی کے مشتبہ افراد سے تفتیش کے لیے “بہتر یا سخت تفتیشی طریقے” — جیسے پانی میں ڈبونا (واٹر بورڈنگ) اور نیند سے محرومی — کا دفاع کیا۔
دوسری جانب، امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی و انسانی حقوق سمیت کئی اداروں نے ان طریقوں کو “تشدد” قرار دیا۔
ان کی بیٹی، لِز چینی، بھی ایک بااثر ریپبلکن رکنِ پارلیمنٹ بنیں، جو ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) کی رکن رہیں۔ تاہم، انہوں نے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں کے کیپٹل پر حملے کے بعد اُن کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے پر اپنی نشست کھو دی۔
ان کے والد نے بھی لز کے مؤقف سے اتفاق کیا اور اعلان کیا کہ وہ 2024 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔
ڈک چینی، جو طویل عرصے سے بائیں بازو کے سخت ناقد رہے، نے کہا تھا: “ہماری قوم کی 248 سالہ تاریخ میں، کوئی بھی شخص ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں رہا۔”
چینی اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں دل کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ 37 سال کی عمر میں انہیں پہلا دل کا دورہ پڑا، اور 2012 میں ان کا دل کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
عراق پر حملے کے پرزور حامی
چینی اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ — جو نِکسن وائٹ ہاؤس میں اُن کے ساتھی رہ چکے تھے — مارچ 2003 میں عراق پر حملے کے لیے دباؤ ڈالنے والی مرکزی آوازوں میں شامل تھے۔
جنگ کے آغاز سے پہلے کے عرصے میں، ڈک چینی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ممکن ہے عراق کا تعلق القاعدہ اور 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر ہونے والے حملوں سے ہو۔ تاہم، 9/11 حملوں کی تحقیقاتی کمیشن نے بعد میں اس نظریے کو بے بنیاد قرار دیا۔
ڈک چینی نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی افواج کو عراق میں “آزادی دلانے والوں” کے طور پر خوش آمدید کہا جائے گا، اور ان کے مطابق فوجی کارروائی “نسبتاً تیزی سے” مکمل ہو جائے گی — “ہفتوں میں، مہینوں میں نہیں”۔
اگرچہ تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں ملے، مگر بعد کے برسوں میں ڈک چینی اس موقف پر قائم رہے کہ اُس وقت دستیاب خفیہ معلومات کی بنیاد پر اور عراقی صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے، حملہ درست فیصلہ تھا۔
ایک دہائی سے زیادہ قبل، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں وزیرِ دفاع کی حیثیت سے، چینی نے پہلی خلیجی جنگ میں کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لیے امریکی فوجی کارروائی کی قیادت کی تھی۔
انہوں نے اُس وقت کے صدر بش سینئر پر زور دیا کہ وہ عراق کے خلاف سخت مؤقف اپنائیں، جب صدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم، اُس وقت چینی عراق پر حملے کے حامی نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو اُسے اکیلے کارروائی کرنا پڑے گی، اور یہ صورتحال ایک طویل دلدل بن جائے گی۔
چینی کے بش خاندان کے ساتھ طویل تعلقات اور حکومتی تجربے کی بنا پر، جارج ڈبلیو بش نے 2000 میں انہیں نائب صدر کے امیدوار کی تلاش کی سربراہی کے لیے منتخب کیا۔ لیکن بعد میں بش نے فیصلہ کیا کہ تلاش کرنے والا ہی اس منصب کے لیے بہترین امیدوار ہے۔
سیاست میں دوبارہ واپسی پر، ڈک چینی کو تیل کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہیلیبرٹن سے 35 ملین ڈالر کا ریٹائرمنٹ پیکج ملا، جس کے وہ 1995 سے 2000 تک سربراہ رہے تھے۔
عراق جنگ کے دوران ہیلیبرٹن حکومت کے بڑے ٹھیکیداروں میں شامل ہو گئی، اور چینی کے تیل کی صنعت سے تعلقات جنگ کے مخالفین کی جانب سے بار بار تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔