سندھ میں پانی کا موجودہ بحران
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
پانی کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے زندگی کی بنیاد ہے اور پاکستان بالخصوص سندھ جیسے زرعی صوبے کے لیے پانی کا تحفظ زندگی اور معیشت کا سوال ہے، پنجاب ‘ بلوچستان ‘ خیبر پختون خواہ سمیت ملک بھر میں پانی کا بحران شدت سے سر اٹھا رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں سندھ کو پانی کے جس شدید بحران کا سامناکرنا پڑ رہا ہے، اس کے اثرات زراعت، ماحول، صحت‘ معیشت اور سماجی نظام تک پھیل چکے ہیں۔
دریائے سندھ صدیوں سے سندھ کی تہذیب اور تمدن کا مرکز رہا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب اسی دریا کے کنارے پروان چڑھی۔ یہ دریا نہ صرف پینے کے پانی، زراعت اور روزگار کا ذریعہ ہے، بلکہ ایک ثقافتی اور روحانی اہمیت بھی رکھتا ہے۔
دریائے سندھ دھرتی کی روح ہے اور صدیوں سے یہاں کے لوگوں کا اس کے ساتھ ایک گہرا روحانی تعلق رہا ہے۔ یہ صرف پانی کی ایک دھارا نہیں بلکہ زندگی، تہذیب اور شناخت کا مظہر ہے۔ سندھ کے لوگ اسے ’’ اُتم ماتا ‘‘ یعنی عظیم ماں کا درجہ دیتے ہیں،کیونکہ یہی دریا ان کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، ان کی معیشت کو سہارا دیتا ہے،اور ان کی ثقافت کو جنم دیتا ہے۔
دریائے سندھ کو صوفی شاعروں جیسے شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور دیگر نے اپنی شاعری میں روحانیت کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے کلام میں سندھُو ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو فطرت سے جوڑتی ہے، دلوں کو پاک کرتی ہے اور خدا کی قربت کا وسیلہ بنتی ہے۔ سندھُو کی روانی صوفیانہ وحدت الوجود کی علامت سمجھی جاتی ہے، جو ظاہر و باطن کو ملا دیتی ہے۔ تاہم، آج یہ دریا اپنی قدرتی عظمت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے دریائے سندھ پر ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر، پانی کے غیر منصفانہ بٹوارے اور موسمیاتی تبدیلیوں نے اس کی قدرتی روانی کو متاثر کیا ہے۔ سندھ کے عوام اور ماہرین اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ سندھ کے آخری علاقوں، خاص طور پر ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں دریا کا پانی پہنچنا بند ہوگیا ہے۔
سندھ ڈیلٹا، جو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہے، دریائے سندھ کے پانی کے بغیر صحرا میں بدل رہا ہے۔ میٹھے پانی کی کمی کے باعث سمندر آگے بڑھ رہا ہے اورکھارے پانی کی یلغار نے ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینوں کو بنجرکردیا ہے۔
سندھ کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر ہے اور زراعت کا انحصار مکمل طور پر پانی پر ہوتا ہے۔ گندم، چاول، کپاس، گنا اور سبزیاں سندھ کی بڑی فصلیں ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں پانی کی کمی کے باعث یہ فصلیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
نہری نظام کی زبوں حالی، پانی کی چوری، غیر مؤثر انتظام اور پرانے انفرا اسٹرکچر کے باعث کئی علاقوں کو ان کا حصہ کا پانی نہیں مل پاتا۔ چھوٹے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں،کیونکہ وہ نہ تو ٹیوب ویل لگا سکتے ہیں اور نہ ہی مہنگی ٹیکنالوجی استعمال کر سکتے ہیں۔ نتیجتاً، ان کی زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں، فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔
مزید برآں، پانی کی غیر موجودگی یا قلت نے مال مویشی پالنے والے افراد کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جانوروں کے لیے چارہ اگانے میں دشواری، پینے کے پانی کی قلت اورگرمیوں میں پانی کا بحران ان کے لیے ایک مسلسل چیلنج ہے۔پانی کی قلت کے ساتھ ساتھ پانی کی آلودگی بھی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔
دریائے سندھ اور اس سے جڑی نہریں صنعتی فضلہ، زرعی کیمیکل، سیوریج اورگھریلو کوڑا کرکٹ سے آلودہ ہو رہی ہیں۔ کراچی، حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ جیسے بڑے شہروں میں پانی کی صفائی کا مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے آلودہ پانی نہ صرف فصلوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ انسانوں میں جلدی، معدے، گردے اور جگر کی بیماریاں بڑھا رہا ہے۔
پینے کا صاف پانی اکثر دیہی علاقوں میں نایاب ہو چکا ہے۔ لوگ جوہڑوں، تالابوں یا آلودہ نہری پانی پر انحصارکرتے ہیں، جس سے ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور دیگر وبائیں عام ہو چکی ہیں۔
سندھ میں خشک سالی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی نہ ہونے سے نہ صرف ماحولیاتی بحران پیدا ہوچکا ہے، جس کا اثر سندھ کے کئی اضلاع پر بھی پڑ رہا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی نے سجاول، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کی زرعی زمینوں کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندرکی نذر ہو چکی ہے۔
حال ہی میں وفاقی سطح پر چولستان کے ریگستانی علاقے میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان سندھ کو اس پانی کی مزید کمی کی صورت میں ہوگا، جو پہلے ہی ضرورت سے کم مقدار میں اسے مل رہا ہے۔
سندھ کے بیشتر اضلاع، خاص طور پر زیریں سندھ کے علاقے پہلے ہی پانی کی قلت سے شدید متاثر ہیں، اگر چولستان کے لیے الگ سے نہر نکالی جاتی ہے تو مزید پانی اوپر ہی روک لیا جائے گا اور سندھ کے جنوبی اضلاع جیسے ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور تھرپارکر کو دریا کا پانی شاید مزید کم ملے گا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اس منصوبے پر سندھ کی قیادت اور ماہرین کو اعتماد میں لیے بغیر کام شروع کیا جا رہا ہے، جو آئینی اور بین الصوبائی اتفاق رائے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم ایک نازک توازن پر قائم ہے اور اس میں کسی بھی نئی نہر کا اضافہ اس توازن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مزید یہ کہ چولستان میں نہر نکالنے سے ماحولیاتی اثرات بھی پیدا ہوں گے۔ پانی کی سطح میں کمی، ڈیلٹا کی مزید تباہی اور سمندرکے کھارے پانی کی پیش قدمی جیسے اثرات مزید شدید ہو سکت ے ہیں۔ ساتھ ہی یہ اقدام سندھ کے لوگوں میں احساسِ محرومی اور بین الصوبائی اختلافات کو بڑھا رہا ہے۔
چولستان میں دریائے سندھ سے نہر نکالنے کا منصوبہ، موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک بھر میں پانی کے بٹوارے پر شفاف، منصفانہ اور آئینی اصولوں کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ سندھ کے بنیادی حقِ پانی کو محفوظ بنائے بغیر معیشت نہیں سنور سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دریائے سندھ میں پانی کے پانی پانی کا پانی کے پانی کی سندھ کے سندھ کی رہا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
میری بات/روہیل اکبر
ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔