ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے پہلے سو روز کیسے رہے؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 اپریل 2025ء) دوبارہ منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2025 کے دن وائٹ ہاؤس واپس آئے اور اپنے ایجنڈے پر تیزی سے عمل درآمد کرتے ہوئے بہت سے صدارتی فرامین پر دستخط کیے۔
انہوں نے اپنے پہلے 100 دنوں میں جن صدارتی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، ان میں امیگریشن، مساوی مواقع کے اقدامات اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کو نشانہ بنایا گیا۔
ان کی ٹیرف کی حکمت عملی نے عالمی مالیاتی منڈیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ٹرمپ کی انتظامیہ نے روایتی یورپی اتحادیوں کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے یوکرین میں روس کی جنگ کے خاتمے کے لیے جارحانہ انداز میں کوشش کی ہے۔
یوکرین کے لوگ ٹرمپ کے امن منصوبے کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟
سو روز کی تکمیل پر ٹرمپ نے جشن کیسے منایا؟امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کا 100 واں دن انتخابی مہم کے انداز میں منایا اور اپنی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے سیاسی دشمنوں کو نشانہ بھی بنایا۔
(جاری ہے)
انہوں نے مشیگن میں حامیوں کے ایک ہجوم سے کہا کہ وہ اپنی صدارت کا استعمال "دور رس تبدیلی" کے لیے کر رہے ہیں۔
ریپبلکن صدر نے اپنے ڈیموکریٹک پیشرو جو بائیڈن کا مذاق اڑایا اور امریکی فیڈرل ریزرو کے چیئرمین پر پھر سے تنقید کی، جبکہ انہوں نے اپنی مقبولیت میں کمی کو ظاہر کرنے والے پولز کو مسترد کر دیا۔
ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں ڈرامائی کمی کی ہے، تاہم معیشت ایک ممکنہ سیاسی خطرے کے سائے تلے ہے کیونکہ انہوں نے ایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
ٹرمپ نے منگل کے روز ڈیٹرائٹ کے مضافاتی علاقے میں ہجوم کو بتایا، "ہم نے ابھی شروعات کی ہے، آپ نے ابھی تک کچھ نہیں دیکھا ہے۔"
تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
اس سے ایک روز پہلے انہوں نے اپنے اقتصادی منصوبے کے ایک اہم عنصر، غیر ملکی کاروں اور کاروں کے پرزوں کی درآمد پر محصولات کو تھوڑا نرم کر دیا ہے، کیونکہ امریکی کار سازوں نے قیمتوں میں اضافے کے خطرے سے خبردار کیا تھا۔
اپنی ریلی میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ رائے عامہ کے سروے جو ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے وہ "جعلی" ہیں۔
کییف پر حملوں کے بعد ٹرمپ کی پوٹن پر تنقید
مقبولیت میں کمیگیلپ کے مطابق ٹرمپ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے ایسے واحد صدر ہیں، جنہیں 100 دن کے اقتدار کے بعد عوام کی نصف سے بھی کم حمایت حاصل ہے، جو 44 فیصد ہے۔
لیکن ریپبلکن ووٹروں کی اکثریت اب بھی ٹرمپ کی مضبوطی سے حمایت کرتی ہے اور حریف ڈیموکریٹک پارٹی بھی پولنگ میں مشکلات کا شکار ہے۔
ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی (ڈی این سی) نے کہا کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دن ایک "زبردست ناکامی" تھے۔
اس نے کہا، "ٹرمپ اس حقیقت کے لیے ذمہ دار ہیں کہ زندگی زیادہ مہنگی ہے، ریٹائر ہونا مشکل ہے اور 'ٹرمپ کساد بازاری' ہماری دہلیز پر ہے۔
"ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
اپنی تقریر کے دوران ٹرمپ نے ملک بدر کرکے امریکہ سے نکالے جانے اور ایل سلواڈور کی ایک میگا جیل میں بھیجے جانے کی ویڈیو بھی دکھائی۔
منگل کی تقریر کے دوران ٹرمپ نے اصرار کیا کہ انڈے کی قیمتوں میں 87 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ یہ دعویٰ حکومت کی قیمتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار سے متصادم ہے۔
ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مہنگائی، توانائی کی قیمتیں اور رہن کے نرخوں میں کمی آئی ہے، اگرچہ بے روزگاری میں قدرے اضافہ ہوا ہے، صارفین کے جذبات میں کمی آئی ہے اور ٹیرف کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ہنگامہ آرائی میں ڈوب چکی ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے ٹرمپ کے کے بعد
پڑھیں:
پہلے فلسطین، پھر اسرائیل سے بات، عالمی کانفرنس میں سعودی عرب نے اپنا فیصلہ سنا دیا
نیویارک:اقوام متحدہ میں فلسطینی مسئلے کے پرامن حل اور دو ریاستی فارمولے پر عملدرآمد کے لیے ہونے والی اعلیٰ سطحی عالمی کانفرنس کا آغاز ہو گیا، جس میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں متعدد عالمی رہنماؤں نے شرکت کی۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن و استحکام کی کنجی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے جائز اور قانونی حقوق کی فراہمی کے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
سعودی وزیر خارجہ نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ کانفرنس دو ریاستی حل کے لیے ایک فیصلہ کن سنگِ میل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب یہ واضح کر چکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا انحصار فلسطینی ریاست کے قیام پر ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں کے مطابق، مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر قائم ہونی چاہیے۔
شہزادہ فیصل نے کہا کہ غزہ میں جاری انسانی بحران کا فوری خاتمہ کیا جائے اور عالمی برادری فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہو۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی عرب اور فرانس نے مشترکہ طور پر ورلڈ بینک کے ذریعے فلسطین کو 30 کروڑ ڈالر کی امداد کی فراہمی ممکن بنائی ہے۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحاتی کوششوں کی حمایت کی اور اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ کانفرنس کے دوران فلسطینی اداروں کے ساتھ کئی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جائیں گے تاکہ فلسطینی عوام کو بااختیار بنایا جا سکے۔
کانفرنس کے شریک صدر اور فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نول باروٹ نے کہا کہ فلسطینی عوام کو اپنی زمین پر خودمختاری کا حق حاصل ہے، اور آنے والے مہینوں میں مزید ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ پر حملے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے اور جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔
فلسطینی وزیر اعظم کا خطاب:
کانفرنس میں فلسطینی وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے بھی خطاب کیا اور اس کانفرنس کو قیامِ امن کی ایک تاریخی موقع قرار دیا۔
انہوں نے سعودی عرب اور فرانس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس فلسطینی عوام کے لیے عالمی حمایت کا واضح پیغام ہے۔