پاک بھارت ایٹمی جنگ 99 فیصد انسانوں کو تباہ کرسکتی ہے، میڈیا رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ایٹمی ممالک نے عارضی طور پر اپنے سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں، ساتھ ہی اہم ترین معاہدوں کو معطل کرنے کی بھی دھمکیاں دی ہیں اور ایک دوسرے کے شہریوں کو ملک سے نکال دیا ہے۔ بھارت نے ممکنہ طور پر محدود فوجی کارروائی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک غیر ملکی پروفیسر کا حوالہ دیتے ہوئے نجی ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ دنیا کے 99 فیصد انسانوں کو ختم کر سکتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجے میں دنیا کی تقریباً 99 فیصد آبادی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ایٹمی ممالک نے عارضی طور پر اپنے سفارتی تعلقات معطل کر دیے ہیں، ساتھ ہی اہم ترین معاہدوں کو معطل کرنے کی بھی دھمکیاں دی ہیں اور ایک دوسرے کے شہریوں کو ملک سے نکال دیا ہے۔ بھارت نے ممکنہ طور پر محدود فوجی کارروائی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے بھرپور جواب دے گا۔ دونوں ممالک نے سالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ کیا ہے تاہم اصل مقصد جنگ روکنا ہے۔
لیکن اگر یہ تنازعہ ایک مکمل ایٹمی جنگ میں بدل جائے، تو ایک نامعلوم پروفیسر نے ایک سائنسی ماڈل تیار کیا ہے تاکہ دکھایا جا سکے کہ ایسا ہونے پر کیا ہوگا۔ جدید میزائل سسٹمز اور لڑاکا طیاروں سے لیس یہ ممالک ایک دوسرے کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔ انہوں نے ایک روسی ٹیلی گرام چینل پر پوسٹ کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جوہری جنگ سے 47 میگا ٹن کاربن نکل سکتا ہے۔ یہ کاربن براہ راست ایٹمی دھماکوں سے نہیں بلکہ دھماکوں کی وجہ سے شہروں میں لگنے والی زبردست آگ سے آئے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑی آگ کی طرح اگر ایک آتشزدگی ہوا میں حرارت پیدا کرے اور دھواں اوپر اٹھے، تو یہ ہوا میں سرد ہوا کو کھینچتا ہے، جس سے طوفانی ہوائیں بنتی ہیں جو شعلوں کو بھڑکاتی ہیں، اور چیزوں کو جلا کر راکھ کردیتی ہیں، شیشے اور دھاتوں کو پگھلا دیتی ہیں۔ پروفیسر نے مزید کہا کہ ایٹمی جنگ سے 5 ارب سے زائد افراد بھوک سے مر جائیں گے، جن میں تقریباً 99 فیصد امریکی، روسی، یورپی اور چینی شامل ہوں گے۔“
پروفیسر کے مطابق ہمیں نہیں معلوم کہ ایٹمی جنگ میں کتنے لوگ بچیں گے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ اتنی ہی تباہ کن ہوئی جتنی کہ بہت سے سائنسی ماہرین سمجھتے ہیں۔ یہ معاملہ دنیا کے لیے سنگین خطرہ ہے، جس میں دونوں ممالک کے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال عالمی سطح پر ایک تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ پروفیسر نے خبردار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار برفانی دور جیسے حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ صرف بھارت اور پاکستان کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان اور پاکستان کے کے درمیان ایٹمی جنگ کیا ہے
پڑھیں:
عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) دنیا بھر میں ہونے والے مسلح تنازعات میں بیشتر ہلاکتیں کلسٹر بموں سے ہوئی ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں مسلسل تیسرے سال ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی سب سے بڑی تعداد انہی بموں کا نشانہ بنی جبکہ شام اور یمن میں ہلاکتوں کا بڑا سبب بھی یہی اسلحہ تھا۔
سول سوسائٹی کے اقدام 'کلسٹر مونیشن مانیٹر' کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، فروری 2022 میں یوکرین پر روس کا حملہ شروع ہونے کے بعد 1,200 سے زیادہ لوگ کلسٹر بموں کا نشانہ بننے سے ہلاک و زخمی ہوئے ہیں تاہم، حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور درست اعدادوشمار سامنے آنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
Tweet URLرپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کی سربراہ لورین پرسی نے جنوب مشرقی ایشیا کے ملک لاؤ کو کلسٹر بموں سے آلودہ سب سے بڑا ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں ان بموں سے ہزاروں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
(جاری ہے)
یہ بم پھٹنے سے کئی طرح کے زہریلے مواد وسیع علاقے میں پھیل کر تباہی مچاتے ہیں۔کلسٹر بموں کا وسیع استعمالاقوامِ متحدہ کے شعبہ تخفیفِ اسلحہ میں تحقیقاتی ادارے (یو این آئی ڈی آئی آر) کی معاونت سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں اسرائیل کے اس الزام کا حوالہ بھی شامل ہے کہ رواں سال جون میں ایران نے اس پر بیلسٹک میزائل حملے میں کلسٹر مواد استعمال کیا جبکہ غزہ اور جنوبی لبنان میں بھی ان ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ میانمار میں فوجی حکومت نے اس وقت جاری خانہ جنگی کے دوران مقامی طور پر تیار کردہ کلسٹر بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے جو فضا سے گرائے جاتے ہیں۔
مانیٹر کے تحقیقی ماہر مائیکل ہارٹ نے بتایا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں سکول بھی ان حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ اسلحہ ریاست چِن، رخائن، کاچن اور سائیگون خطے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
بچوں کا نقصانذیلی ہتھیار جنہیں بم لیٹس بھی کہا جاتا ہے، دھماکوں کے اثر، اپنی آگ لگانے کی صلاحیت اور ٹکڑوں کے پھیلاؤ کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس بم کے ایک ہی حملے میں اس کے ہزاروں ٹکڑے سیکڑوں مربع میٹر رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔
یہ بم فضا اور زمین سے داغے جا سکتے ہیں اور انہیں بکتر بند گاڑیوں، جنگی سازوسامان اور فوجی اہلکاروں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تاہم، لورین پرسی کے مطابق، کلسٹر بموں کے استعمال سے بڑا نقصان شہریوں کا ہی ہوتا ہے۔2024 میں بھی ان بموں سے ہونے والے جانی نقصان میں بچوں کا تناسب زیادہ (42 فیصد) تھا کیونکہ بچے عموماً ان بم لیٹس کو دلچسپ اور کھلونوں جیسا سمھجتے ہیں یا کھیل کے دوران، سکول جاتے ہوئے یا کھیتوں میں کام کرتے وقت یہ بم ان کے ہاتھ لگ کر پھٹ جاتے ہیں۔
بارودی مواد کی صفائی کا مسئلہامدادی وسائل میں آنے والی کمی سے بھی کلسٹر بموں سے متاثرہ ممالک پر منفی اثر پڑا ہے۔
مانیٹر کی اعلیٰ سطحی محقق کیٹرین ایٹکنز نے بتایا ہے کہ افغانستان، عراق اور لبنان نے بارودی مواد سے آلودہ زمین کو صاف کرنے میں اچھی پیش رفت کی تھی لیکن اب یہ ملک امداد میں کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے صفائی کا عمل سست پڑ گیا ہے۔لورین پرسی نے بتایا ہے کہ ماضی میں امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی معاونت سے بارودی مواد کی صفائی کے منصوبوں کو روک دیا گیا ہے جن میں لاؤ کا ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔
یہ منصوبہ 60 اور 70 کی دہائی میں بنایا گیا تھا جو کئی دہائیوں تک نہ صرف دور دراز علاقوں میں کلسٹر بموں کے متاثرین کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے میں مددگار رہا بلکہ اس کے تحت متاثرین کی بحالی اور مصنوعی اعضا فراہم کرنے کا نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔
کلسٹر بموں کی پیداوار میں کمیمانیٹر کے مطابق، کلسٹر ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن کی منظوری کو پندرہ برس گزر چکے ہیں۔
اس دوران صرف 10 ممالک نے یہ ہتھیار استعمال کیے ہیں اور یہ تمام اس عالمی معاہدے کے فریق نہیں ہیں۔اب تک 18 ممالک کلسٹر بموں کی پیداوار بند کر چکے ہیں۔ ارجنٹائن کے علاوہ وہ تمام ممالک اب اس معاہدے کے فریق ہیں جو پہلے یہ ہتھیار تیار کرتے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب بھی 17 ممالک کلسٹر بم تیار کرتے ہیں یا اس حق کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس معاہدے کا فریق نہیں ہے۔ ان ممالک میں برازیل، چین، مصر، یونان، انڈیا، ایران، اسرائیل، میانمار، شمالی کوریا، پاکستان، پولینڈ، رومانیہ، روس، سنگاپور، جنوبی کوریا، ترکیہ اور امریکہ شامل ہیں۔