UrduPoint:
2025-11-03@20:08:21 GMT

بھارت: لال قلعے پر بہادر شاہ ظفر کے وارث کا دعویٰ مسترد

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

بھارت: لال قلعے پر بہادر شاہ ظفر کے وارث کا دعویٰ مسترد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مئی 2025ء) سترہویں صدی میں مغلوں کی تعمیر کردہ دہلی کے تاریخی لال قلعے پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر دوم کے پوتے کی بیوہ سلطانہ بیگم کے دعوے کو پیر کے روزمسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے پوچھا کہ "صرف لال قلعہ ہی کیوں؟ فتح پور سیکری اور تاج محل کیوں نہیں؟" یہ دونوں عمارتیں بالترتیب 16ویں صدی کے آخر میں اکبر نے اور 17ویں صدی میں شاہ جہاں نے بنوائی تھیں۔

جسٹس کھنہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا،"کیا آپ اس پر بحث کرنا چاہتی ہیں۔" اس کے ساتھ ہی انہوں نے درخواست مسترد کردی۔

سلطانہ بیگم، جو مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتہ کے قریب رہتی ہیں، نے لال قلعہ پر اپنا دعویٰ اس بنیاد پر کیا تھا کہ وہ اصل مالکان، یعنی مغل بادشاہوں کی براہ راست اولاد ہیں۔

(جاری ہے)

لال قلعہ کو 1857 میں پہلی جنگ آزادی کے بعد برطانوی انتظامیہ نے مغلوں سے چھین لیا تھا، جس کے بعد بہادر شاہ ظفر، جنہوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف پہلی بغاوتوں کی حمایت کی تھی، کو جلاوطن کر دیا گیا اور ان کی زمینیں اور جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔

سلطانہ بیگم نے اپنا دعویٰ ترک کرنے کے لیے متبادل کے طور پر حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کیا۔

سلطانہ پہلے بھی عدالت جا چکی ہیں

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سلطانہ بیگم نے لال قلعہ پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔ انہوں نے سن دو ہزار اکیس میں بھی اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

سلطانہ بیگم نےاس وقت دلیل دی تھی کہ 1960 میں حکومت ہند نے ان کے (اب متوفی) شوہر بیدار بخت کے بہادر شاہ ظفر کی اولاد اور وارث ہونے کے دعوے کی تصدیق کر دی تھی۔

اس کے بعد حکومت نے انہیں پنشن دینا شروع کیا جو 1980 میں بیدار بخت کی موت کے بعد سلطانہ بیگم کو منتقل کر دی گئی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں یہ دلیل دی تھی، یہ پنشن ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔

دہلی ہائی کورٹ میں داخل اپنی عرضی میں سلطانہ بیگم نے الزام لگایا تھا کہ حکومت نے لال قلعہ پر 'غیر قانونی' قبضہ کر لیا ہے اور اس جائیداد اور تاریخی اہمیت کے مطابق مناسب معاوضہ فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جو کہ بھارتی آئین میں شہریوں کو دیے گئے حقوق کے خلاف ہے۔

تاہم دہلی ہائی کورٹ نے اس دلیل اور درخواست کو رد کر دیا تھا۔

سلطانہ بیگم نے تین سال بعد ایک بار پھراس فیصلے کے خلاف اپیل کی، اور اسے دوبارہ مسترد کر دیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اپیل اصل فیصلے کے بعد بہت تاخیر سے کی گئی تھی۔ حالانکہ سلطانہ کا کہنا تھا کہ ان کی ناخواندگی اور خرابیء صحت کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر سلطانہ بیگم کا ردعمل

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سلطانہ بیگم نے کہا، "مجھے سپریم کورٹ سے جو امید تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ میری آخری امید اب مودی حکومت سے ہے"۔

سلطانہ نے تاہم کہا کہ انہوں نے کبھی لال قلعہ نہیں مانگا۔ انہوں نے کہا، "ہم نے لال قلعہ یا فتح پور سیکری نہیں مانگی، ہم نے صرف یہ کہا کہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کے محلات اور گھر ہوتے ہیں، پھر بہادر شاہ ظفر کا گھر کہاں ہے؟ ہم نے صرف ان کی صحیح رہائش مانگی تھی۔

"

سلطانہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا کہ بہادر شاہ ظفر نے ملک کے لیے سب کچھ قربان کر دیا، لیکن ان کی تمام جائیدادیں چھین لی گئیں۔

اٹھارہ سو ستاون میں پہلی جنگ آزادی کے بعد، بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ جہاں 1862 میں ان کی وفات ہو گئی۔

'پاکستان کی پیش کش کو ٹھکرا دیا'

سلطانہ بیگم نے کہا، "کیا بہادر شاہ ظفر کی وفاداری رائیگاں گئی؟ جنہوں نے اپنا تاج قوم کے لیے قربان کر دیا، ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انگریزوں نے ان سے چھین لیا، آج غدار خوشحال ہو رہے ہیں، جبکہ ظفر کی اولادیں مایوسی میں بھٹک رہی ہیں۔

"

سلطانہ بیگم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں پاکستان سے وہاں آباد ہونے کی دعوت ملی تھی لیکن انہوں نے اپنے ملک سے غداری کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے کہا، "میں 1981 میں بھارت چھوڑ سکتی تھی جب امریکہ اور پیرس کے لوگوں نے مجھے وہاں لے جانے کی پیشکش کی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ یہاں (بھارت میں) میری کوئی عزت نہیں ہے، اور میرے بچے بیرون ملک بہتر زندگی گزاریں گے۔

ہمیں پاکستان کی طرف سے پیشکش بھی ہوئی، لیکن ہم نے انکار کر دیا.

.. ہم بہادر شاہ ظفر کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔"

سلطانہ نے زور دے کر کہا کہ میر جعفر جیسے غداروں کو انعام دیا گیا، لیکن ظفر کی اولاد "بُری طرح دُکھ" جھیل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، "تاریخ بتاتی ہے کہ میر جعفر جیسے غداروں کو کیسے فائدہ پہنچا، جب کہ ہم کو، جو اپنی قوم کے ساتھ وفادار رہے، مصائب کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔"

سلطانہ بیگم کو اب مودی حکومت سے امید ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالے گی۔ انہوں نے کہا، "ہم نے ابھی تک کسی سے رابطہ نہیں کیا ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ اگر کچھ نہ ہوا تو ہم حکومت کو درخواست دیں گے۔"

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سلطانہ بیگم نے بہادر شاہ ظفر انہوں نے کہا نے لال قلعہ سپریم کورٹ دیا گیا ظفر کی کے لیے کے بعد تھا کہ کر دیا کہا کہ

پڑھیں:

جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش

ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند نے بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تین حالیہ واقعات کا ذکر کیا، مہاراشٹر میں ایک خاتوں ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دلی میں ایک ہسپتال کی ملازمہ جسے ایک جعلی فوجی افسر نے پھنسایا تھا اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ جسے نشہ دیکر بلیک میل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات بھارتی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہے، الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، یہ جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب ان کی کارکردگی، دیانت داری اور عوام مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات 6 اور 11نومبر کو ہو رہے ہیں۔

پریس کانفرنس سے ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سوال رائٹس (اے پی سی آر) کے سیکرٹری ندیم خان نے خطاب میں کہا کہ دلی مسلم کشن فسادات کے سلسلے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر بے گناہ طلباء کو پانچ برس سے زائد عرصے سے قید کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ وٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریروں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے، اس کا گلا گھونٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: جنسی تعلقات سے انکار پر خاتون کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار
  • اب ہم نے نئی معاشی بلندیوں کو چُھونا ہے، عطا تارڑ
  • پاک-بھارت جنگ روکنے کا 57ویں مرتبہ تذکرہ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے متعلق امکان کو مسترد کردیا
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • لاہور، محلے داروں میں جھگڑا کے دوران سر پر چوٹ لگنے سے خاتون جاں بحق
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • گلگت بلتستان کے بہادر عوام ملک و قوم کا فخر ہیں، وزیراعلیٰ کی ڈوگرا راج سے آزادی کے یوم پر مبارکباد
  • بھارت نے اعجاز ملاح کو کونسا ٹاسک دے کر پاکستان بھیجا؟ وزیر اطلاعات کا اہم بیان