اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 06 مئی ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیںرپورٹ کے مطابق بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے.

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہے یا پھر اکثریتی فیصلے سے؟ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ ہمارا اختلاف اکثریتی ججوں سے ہے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نشستیں دینے کی استدعا تکنیکی بنیادوں پر مسترد کی تھی.

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے نظرثانی کا اسکوپ محدود ہے، اس پر دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ریٹرننگ افسر کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی پھر بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا گیا جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا.

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 181 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں آپ نظر ثانی کے گراونڈز نہیں بتا رہے جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ وکیل حارث عظمت نے کہا مجھے کنفرم نہیں ہے.

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن باﺅنڈ نہیں ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے.

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ آپ ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے ایک پیرا اگراف کی حد تک عمل کیا ہے جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا یہ آپ کی منشا یا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟ جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہا گیا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کروانا ہے آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں؟.

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مجھے پشاور ہائی کورٹ میں فریق بنایا گیا تھا اس لیے میں سپریم کورٹ آیا جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آگئے جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا ہے تو ٹھیک، ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل ہوگا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ہم فیصلے پر جزوی طور پر عمل کر چکے ہیں جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتے جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا.

جسٹس عقیل عباسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے؟وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا ایسی بات نہ کریں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پٹیشن پڑھی اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھالیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے باضابطہ منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے.

جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے منظوری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا جبکہ 11 ججوں نے اکثریت سے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائے گی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آپ کے خلاف توہین عدالت کی توہین عدالت کی درخواست الیکشن کمیشن کے وکیل کہ فیصلے پر عملدرآمد جسٹس جمال مندوخیل نے نظر ثانی درخواستوں جسٹس عقیل عباسی نے نے استفسار کیا کہ کہ فیصلے پر عمل نے فیصلے پر عمل پر عمل نہیں کیا سپریم کورٹ کے درخواستوں کو مخصوص نشستوں سماعت کے لیے نے کہا کہ ہم کے فیصلے پر کرتے ہوئے فیصلے سے ہیں کیا کیس میں ہے جسٹس عمل کیا رہے ہیں کیا ہے کیا آپ کہ کیا

پڑھیں:

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل، اس مقدمے میں کیا کچھ ہوتا رہا؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق فیصلہ 60 سے زائد سماعتوں کے بعد محفوظ کر لیا جو اِسی ہفتے سنائے جانے کا اِمکان ہے۔

یہ فیصلہ ممکنہ طور پر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم فیصلہ شمار کیا جائے گا اور آئندہ کے لیے طے کرے گا کہ سویلین ملزمان کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں ممکن ہیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: فیصلہ کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس جمال مندوخیل

اِس مقدمے کے دوران 9 مئی 2023 سے متعلق فوجی تحویل اور فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل 103 ملزمان کی تفصیلات عدالت میں پیش کی گئیں اور فوجی عدالتوں نے سپریم کورٹ حکم کے تحت ان ملزمان کے خلاف فیصلے بھی سنا دیے ہیں۔

گزشتہ روز اٹارنی جنرل آف پاکستان نے آئینی بینچ کو بتایا کہ ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، ایم آر ڈی کی قیادت پابندِ سلاسل رہی پر وہ کچھ نہیں ہوا جو 9 مئی کو ہوا۔ جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دلچسپ ریمارکس دیےکہ ہم 9 مئی مقدمے کے میرٹس پر تو بات کر ہی نہیں رہے۔

اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ جناح ہاوس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی جس میں 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات ریٹائر کر دیا گیا۔

مقدمے میں بحث کا مرکزی نقطہ کیا تھا؟

بنیادی طور پر اس مقدمے میں بحث کا محور آرٹیکل 175 رہا۔ یہ آئین کا وہ آرٹیکل ہے جو عدالتوں کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ یہ آرٹیکل عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ الگ بھی کرتا ہے۔ مقدمے میں بحث کا دوسرا مدعا آرٹیکل 10 اے یعنی رائٹ ٹو فیئر ٹرائل تھا۔ اس بات پر بحث کی گئی کہ آیا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آرٹیکل 10 اے کے تحت کسی ملزم کو حاصل حق رائٹ ٹو فیئر ٹرائل کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔

مقدمے کا بیک گراؤنڈ

9 مئی 2023 کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو جب القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تو اُس کے بعد ملک گیر ہنگامے پھوٹ پڑے،، قومی اور فوجی نوعیت کی عمارتوں اور تنصیبات کے باہر نہ صرف مظاہرے کیے گئے بلکہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا جن میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے۔ اس کے بعد تقریباً 1900 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ زیادہ تر لوگوں کے ٹرائل انسدادِ دہشتگردی عدالتوں جبکہ 103 لوگوں کے ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف پہلی درخواستیں بیرسٹر اعتراز احسن نے اپنے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل احمد حسن کے ذریعے سے دائر کیں۔

یہ بھی پڑھیے: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل

23 جولائی 2023 کو سپریم کورٹ کے مستعفی جج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رُکنی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو خلاف آئین قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے آرمی ایکٹ کی دفعات اور سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دی ہیں۔

13 دسمبر 2023 کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں کی ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کردیا۔

فیصلے کے مطابق سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل جاری رہے گا، لیکن فوجی عدالتیں سپریم کورٹ ختمی فیصلے تک سویلین ٹرائل کا فیصلہ جاری نہیں کر سکیں گی۔

اس فیصلے کے ٹھیک ایک سال بعد 13 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے خلاف فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔

فوجی عدالتوں میں سویلیز کا ٹرائل آئینی بینچ میں

اکتوبر 2024 میں آئینی بینچ کی تشکیل کی بعد یہ مقدمہ بھی آئینی بینچ کو منتقل ہوا تو 18 نومبر کو سردار لطیف کھوسہ نے مقدمے کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کی۔ اُنہوں نے مذکورہ درخواست میں کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے اس سے قبل کیے گئے فیصلے میں 103 سویلین ملزمان کے مقدمات سویلین عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ انٹراکورٹ اپیلوں میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلے سے روک رکھا ہے۔ عدالت نے یہ مقدمہ جنوری 2024 کے تیسرے ہفتے میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ابھی تک یہ مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیے: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی یا پرائیویٹ بل لایا؟ جسٹس امین الدین خان

20 نومبر کو آئینی بینچ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے اعلامیہ جاری کیا کہ جسٹس عائشہ ملک سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق بینچ کا حصّہ نہیں رہ سکتیں کیوںکہ وہ پہلے والے اُس بینچ کا حصّہ تھیں جس نے 23 جولائی 2023 کو فیصلہ دیا تھا۔

5 دسمبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ 9 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا۔

9 دسمبر 2024 کو جب اِس مقدمے کی پہلی سماعت ہوئی عدالت نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی تھی۔

مقدمے کی پہلی اور آخری سماعت اور حفیظ اللہ نیازی

عمران خان کے کزن اور معروف سیاسی تجزیہ نگار حفیظ اللہ نیازی نے عدالت سے استدعا کی کہ اُن کا بیٹا ڈیڑھ سال سے تحویل میں ہے، فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دی جائے یا اُسے عام جیل بھجوایا جائے تاہم اُس وقت عدالت نے مذکورہ استدعا مسترد کر دی تھی۔

گزشتہ روز اِس مقدمے کی آئینی بینچ کے سامنے آخری سماعت میں بھی حفیظ اللہ نیازی پیش ہوئے اور اُنہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا چلا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں 2 مقامات کو لاک کر رکھا ہے، ایک کوٹ لکھپت جیل اور دوسرا جوہر ٹاؤن لاہور، میرا بیٹا بھی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، بے فکر رہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارا دفاع مضبوط ہے۔

9 دسمبر 2024 پہلی سماعت

اُس وقت آئینی بینچ میں موجود جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا تھا کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا تھا جس پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے بتایا کہ اُس وقت 21 ویں آئینی ترمیم کی گئی تھی۔

اس مقدمے کی پہلی سماعت 9 دسمبر کو ہوئی۔ وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے پہلی سماعت پر کہا کہ یہ کہنا ہی غلط ہے کہ سویلنز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا بلکہ آرمی ایکٹ مسلح افواج کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ 9 دسمبر کی سماعت میں جسٹس مسرت ہلالی نے استفہامیہ انداز میں ریمارکس دیےکہ کور کمانڈرز جب اپنے گھر کو دفتر کی طرح استعمال کریں تو اُسے دفتر ڈکلیئر کرتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: قانون کے اطلاق کا معیار طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، وکیل خواجہ حارث

مقدمے کی تیسری سماعت 12 دسمبر کو ہوئی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیےکہ جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اِس کے ڈسپلن کے ماتحت کیسے ہو سکتا ہے جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے کہا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فوجی کو قتل کرنے اور فوجی تنصیبات پر حملے کے مقدمے انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں چلتے ہیں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ذاتی عناد پر کسی فوجی کا قتل الگ چیز جبکہ بلوچستان اور پختونخواہ میں فوج پر حملے الگ چیز ہیں۔

سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، جسٹس امین الدین خان کے ریمارکس

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ قانون کو اُس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ایک جرم فوجی کرے اور ہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہو سکتا ہے۔

ایک سماعت پر اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ سویلین کی ایک کیٹگری بھی آرمی ایکٹ کے زُمرے میں آتی ہے۔ یہ تفریق کیسے ہو گی کہ کونسا سویلین آرمی ایکٹ کے ماتحت آتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

جسٹس جمال خان نے ایک سماعت میں کہا کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ یہ پالیسی فیصلہ بھی کرلیں کہ سول نظام ناکام ہو چکا، تمام مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوا دیں۔

فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جا سکتا ہے یا نہیں۔ آئین کا آرٹیکل 175 صرف عدالتوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔کوئی شخص جو فوج کا حصّہ نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زُمرے میں کیسے آ سکتا ہے۔ آرمی ایکٹ تو واضح کرتا ہے کہ محکمانہ کاروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی دی جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

9 مئی آئینی بینچ پی ٹی آئی کارکن ٹائم لائن سانحہ نو مئی سماعت سویلینز کا ملٹری ٹرائل عدالت فوجی عدالتیں گرفتاری مقدمہ نو مئی

متعلقہ مضامین

  • سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل، اس مقدمے میں کیا کچھ ہوتا رہا؟
  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور، 2 ججوں کا اختلاف
  • مخصوص نشستوں کا کیس: 2 ججز نے ای سی پی، ن لیگ، پی پی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں
  • مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستیں باضابطہ سماعت کیلئے منظور
  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی: کیا ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
  • سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نظرثانی اسکوپ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا
  • آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • سپریم کورٹ آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا