اعجاز چودھری پر سازش کا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا، سپریم کورٹ نے ضمانت منظوری کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز احمد چودھری کیخلاف مجرمانہ سازش کا الزام استغاثہ کی جانب سے ٹرائل میں ثابت کیا جانا ابھی باقی ہے۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے 2سال سے قید اعجاز چوہدری کی ضمانت منظوری کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ جسٹس نعیم افغان نے فیصلے میں قرار دیا کہ استغاثہ نے ابھی تک ایف آئی آر درج کرنے میں تین دن اورشکایت کنندہ کی طرف سے ضمنی بیان دینے میں تقریباً ایک ماہ کی تاخیر کی وضاحت نہیں کی۔
بھارت اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیں
ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کو 12 مئی 2023 کوتھانہ سرور روڈ، میں درج ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا تھا، اسے 10جون کو سوشل میڈیا مواد کی بنیاد پر ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا، دو سال گزرنے کے باوجود اس کی سچائی کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ قانون کے طے شدہ اصولوں کے مطابق بطور سزا ضمانت کو روکا نہیں جا سکتا۔
یہ مقدمہ ابھی مزید انکوائری کے زمرے میں آتا ہے۔ درخواست گزار ضمانت کا اس لیے بھی حقدار ہے کیونکہ اسی مقدمے میں شریک ملزم امتیاز محمود کی بھی ضمانت منظور ہو چکی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
گوجرانوالہ: دیرینہ دشمنی پر فائرنگ، 5 افراد جاں بحق، ایک زخمی
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے سروس ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے محکمانہ کمیٹی کو خاتون فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی گریڈ 17 میں ترقی زیر غور لانے اور ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں زور دیا کہ سول بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے آزاد رہنا چاہیے۔ اسے ریاست کے مضبوط ڈھانچے کے طور پر کام کرنا چاہیے نہ کہ اقتدار میں موجود پارٹی کا ربڑاسٹمپ بن کر رہے، جسٹس منصور علی شاہ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ سیاسی قیادت کے برعکس جو انتخابی ادوار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔
بھارتی جیل میں قید مظفرآباد کا ٹرک ڈرائیور یوسف شاہ انتقال کرگیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حق میں دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کے مطابق محفوظ فیصلہ اسی ہفتے سنایا جائے گا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو دن 3 بجے سے شام تک 39 جگہوں پر حملہ کیا گیا، پاکستان میں ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی دی گئی لیکن ردعمل میں اس پارٹی نے وہ نہیں کیا جو 9 مئی کو ہوا تھا، جمہوریت بحالی تحریک میں ساری جماعتوں پر پابندی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف
اٹارنی جنرل کے مطابق ایم آر ڈی کی تمام قیادت پابند سلاسل تھی، اصغر خان 3 ساڑھے 3 سال تک نظر بند رہے، اس دوران بھی 9 مئی جیسا قدم کسی نے نہیں اٹھایا، 9 مئی کو اگر ری ایکشن میں بھی یہ سب کچھ ہوا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل کا مؤقف تھا کہ پاکستان ایک عام ملک نہیں ہے، جیوگرافی کی وجہ سے اسے کافی خطرات کا سامنا رہتا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ یہ سوال تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں کہ جرم نہیں ہوا، آپ اپیل کی طرف آئیں اپیل کا بتائیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال نہ بھی موجود ہو اس پر بات کرنا ضروری ہے، جناح ہاؤس حملہ میں غفلت برتنے پر فوج نے محکمانہ کارروائی بھی کی، 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پینشن اور مراعات ریٹائر کیا گیا، جن میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک برگیڈیئر، اور ایک لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل،سیکشن 94 کا اطلاق ان پر ہوگا جو آرمی ایکٹ کے تابع ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب جرم کیا ہوتا، محکمانہ کارروائی 9 مئی کا واقعہ نہ روکنے پر کی گئی، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ واضح ہے کہ محکمانہ کارروائی کےساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پنجاب میں 23، خیبرپختونخوا میں 8، سندھ میں 7 اور بلوچستان میں ایک واقعہ ہوا، جی ایچ کیو لاہور ،ایئر بیس میانوالی سمیت آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے ہوئے، 9 مئی کو رونما ہونیوالے تمام واقعات اتفاقیہ نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل: عام شہری کے گھر گھسنا بھی جرم ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 5:40 سے شام 9 بجے تک پوری کور غیر فعال ہوچکی تھی، 9 مئی کو اگر لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو جواب نہیں دیا جاسکتا تھا،
جسٹس اظہر رضوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے،
لوگوں نے خودسوزیاں کیں کیں کسی نے اس وقت پراپرٹی کو آگ نہیں لگائی، اٹارنی جنرل بولے؛ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پبلک پراپرٹی کوجا کر نقصان پہنچائیں۔
مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیخلاف فیصلہ پر اپیل: اٹارنی جنرل اصل فیصلہ میں غلطی دکھائیں، جسٹس محمد علی مظہر
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا جناح ہاوس کا گیٹ پھلانگا گیا تھا یا اندر سے کسی نے کھولا تھا؟ اگر اندر سے کسی نے کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا، جس پر منصور اعوان بولے؛ میں اس کو چیک کر کے بتاؤں گا کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا کیا جرم کی نیت سے ہی ہوا، کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی، ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہوئی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا مؤقف تھا کہ 9 مئی کو جو ہوا جرم ہی تھا، اس موقع پر جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہ آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعہ کی میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی.
مزید پڑھیں:سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، تحریری حکمنامے میں کیا کہا گیا ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان کے مطابق میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا، 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب شاید آپ کے لیے دینا ممکن نہ ہوں۔
جسٹس نعیم اختر افغان کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بغیر پینشن ریٹائر کیے گئے جنرل کور کمانڈر لاہور ہی تھے، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے دریافت کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا، جس پر جسٹس نعیم اختر افغان بولے؛ یہی تو بات ہے کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کر لیا گیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ اس میں آسانی سے ہونے والی ترمیم بھی نہیں کی جاتی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان کے مطابق اب تک 86 مجرمان اپیلیں کر چکے ہیں جبکہ دیگر مجرموں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دی جائے گی، اپیل کا حق دینے کے لیے سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آبزرویشن دے، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے، سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ اس فیصلے میں تو پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی گئی تھی، پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں:فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کرسکتا، جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آج انہوں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کے لیے رکھے تھے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے مستقبل کا سوچ رہے ہیں، فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیلوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
آئینی بینچ نے سربراہ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ شارٹ آرڈر کے ذریعے محفوظ فیصلہ اسی ہفتے جاری کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ اٹارنی جنرل انٹرا کورٹ پارلیمنٹ جسٹس اظہر رضوی جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل جسٹس مسرت ہلالی سپریم کورٹ سویلینز قانون سازی کور کمانڈر لاہور ملٹری ٹرائل منصور اعوان