طبی سائنس روز بروز انسانی زندگی کے تحفظ کی نئی راہیں تلاش کر رہی ہے، اور حالیہ برسوں میں دل کی بیماریوں کے علاج میں جو حیران کن پیش رفت ہوئی ہے وہ نہ صرف طبی سائنس کے لیے ایک ’’بازی پلٹنے والا" کارنامہ ہے بلکہ لاکھوں مریضوں کے لیے نئی امید بھی ہے۔
امریکا، آسٹریلیا اور یورپ میں ہونے والے تین غیرمعمولی تجربات نے ’’دل کی پیوندکاری‘‘ اور ’’مصنوعی دل‘‘ جیسے پیچیدہ میدان میں کام یابی کی نئی راہیں ہموار کی ہیں۔
مردہ دل کو زندہ کر کے پیوند کرنا: ایک ناقابل یقین کام یابی
ڈیوک یونیورسٹی، امریکا کے ماہرینِ جراحت نے حال ہی میں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس نے دنیا بھر میں طبی سائنس کے ماہرین کو حیران کردیا۔ انہوں نے تین ماہ کے شیرخوار بچے کو ایک ایسا دل پیوند کیا جو ’’کلینیکی طور پر مردہ‘‘ قرار دیا جا چکا تھا۔
یہ دل، عام طریقہ کار کے برعکس، ایک ایسے شخص سے لیا گیا تھا جس کا دل بند ہوچکا تھا۔ تاہم، ڈاکٹروں نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس دل کو انسانی جسم سے باہر مشین کے ذریعے دوبارہ فعال کیا، پھر اسے کامیابی سے بچے کے جسم میں نصب کیا۔
اس جدید طریقے کو ’’آپریشن میز پر دوبارہ زندگی دینا‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں ایک خاص مشین ’’بیرونی دورانِ خون کا نظام‘‘ دل کو زندہ کرتی ہے، اس کی فعالیت کا معائنہ کرتی ہے، اور پھر اسے پیوندکاری کے لیے قابلِ استعمال قرار دیتی ہے۔ یہ نہ صرف طبی سائنس میں نیا دروازہ کھولتی ہے، بلکہ دل کے عطیات کی کمی کو کم از کم 30 فی صد تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تحقیق کے مرکزی مصنف ڈاکٹر ایرون ولیمز کے مطابق یہ طریقہ ’’دل کی پیوندکاری‘‘ کے شعبے میں ایک انقلاب ہے آسان، کم خرچ اور دنیا کے زیادہ تر اسپتالوں میں قابلِ عمل۔
مصنوعی دل: 100 دن تک زندگی کا سفر
آسٹریلیا میں 40 سالہ ایک مریض نے ’’بیوا کور مکمل مصنوعی دل‘‘ کے ذریعے 100 دن تک زندگی گزار کر نئی تاریخ رقم کی۔ یہ مصنوعی دل آسٹریلوی ماہر ڈاکٹر ڈینیئل ٹمز کی ایجاد ہے، جس میں ’’مقناطیسی معلق حرکت‘‘ کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جو خون کے قدرتی بہاؤ کو نقل کرتی ہے۔
یہ آلہ ان مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے جو انتہائی آخری درجے کے دل کی مکمل ناکامی کا شکار ہوں۔ دنیا بھر میں ہر سال لگ بھگ 2 کروڑ 30 لاکھ افراد دل کی ناکامی کا شکار ہوتے ہیں، مگر ان میں سے صرف 6000 کو عطیہ کردہ دل میسر آتا ہے۔
اس آلے کو ابتدائی طور پر ’’پیوندکاری سے پہلے کا سہارا‘‘ کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، تاکہ مریض کو عطیہ کردہ دل ملنے تک زندہ رکھا جا سکے، مگر تحقیق کی روشنی میں یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں مریض مستقل طور پر اسی مصنوعی دل کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے۔
خنزیر کا دل انسانی جسم میں: ایک تجربہ، ایک سوال
امریکی ریاست میری لینڈ میں ڈیوڈ بینیٹ نامی 57 سالہ شخص وہ پہلے انسان تھے جن کے سینے میں خنزیر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل پیوند کیا گیا۔ 7 جنوری کو پیوند کاری کے بعد وہ تقریباً 2 ماہ زندہ رہے اور 8 مارچ کو انتقال کرگئے۔
اگرچہ ان کی زندگی مختصر رہی، تاہم یہ تجربہ انسانی اعضا کی شدید قلت کے حل کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ابتدائی ناکامی مستقبل کی کام یابیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، بشرطے کہ جینیاتی انجنیئرنگ میں مزید بہتری لائی جائے اور جسم کے ردعمل پر قابو پایا جائے۔
خواتین اور دل کی بیماری: علامات مختلف، خطرات منفرد
دل کی بیماری صرف مردوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ خواتین میں بھی یہ خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، مگر ایک اہم فرق یہ ہے کہ خواتین میں دل کے دورے کی علامات مردوں سے مختلف ہوتی ہیں:
٭ غیر معمولی تھکاوٹ
٭ سینے کی بجائے کمر یا جبڑے میں درد
٭ سانس کی تنگی
٭ ہلکی متلی یا معدے میں تکلیف
تحقیقات کے مطابق 70 فی صد خواتین دل کا دورہ پڑنے سے قبل غیرمعمولی تھکن کا شکار ہوتی ہیں، مگر اکثر اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
دل کی بیماریوں میں مردوں کا زیادہ شکار کیوں؟
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال 1 کروڑ 79 لاکھ افراد دل کی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں، اور ان میں مردوں کا تناسب خواتین سے زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات میں شامل ہیں:
٭ ایسٹروجن ہارمون، جو خواتین میں دل کو قدرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
٭ مردوں میں زیادہ سگریٹ نوشی، ذہنی دباؤ، غیرصحت بخش خوراک۔
٭ ہارمونی فرق، خواتین میں حیض کی بندش سے پہلے دل کی بیماری کا خطرہ نسبتاً کم ہوتا ہے۔
علاج میں صنفی تفریق: خواتین کو کم توجہ؟
یورپی سوسائٹی آف ہارٹ ڈیزیز کی ایک تحقیق کے مطابق دل کے دورے کے بعد خواتین کو مردوں کی نسبت ’’دل کی ناکامی کے باعث جسم کو آکسیجن نہ ملنے‘‘ کی حالت کے علاج میں کم ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دل جسم کو درکار آکسیجن فراہم کرنے سے قاصر ہو جائے۔
ڈنمارک کی ایک تحقیق میں شامل 1,716 مریضوں میں سے 26 فی صد خواتین تھیں، اور ان کی اوسط عمر 71 سال جب کہ مردوں کی 66 سال تھی۔ تحقیق نے واضح کیا کہ جنس کی بنیاد پر علاج کی ترجیحات کا فرق زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
دل کو تن درست رکھنے کے سادہ مگر مؤثر طریقے:
امراضِ قلب سے بچنے کے لیے ’’دل کو متحرک رکھنے والی ورزشیں‘‘ سب سے زیادہ مؤثر مانی جاتی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
٭ تیز چہل قدمی: دل کی رفتار کو معتدل انداز میں بڑھاتی ہے۔
٭ دوڑنا: دل کی پمپنگ کی طاقت کو بڑھاتی ہے۔
٭ رسی کودنا: دل کے نظام کے لیے بہترین۔
٭ سائیکل چلانا: بلڈ پریشر اور خون کی روانی بہتر بناتی ہے۔
٭ تیراکی: پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے اور دل کو مستحکم بناتی ہے۔
ایک روشن مستقبل کی امید:
طب کی دنیا میں دل کی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز جیسے ’’آپریشن میز پر دوبارہ زندگی دینا‘‘، ’’مصنوعی دل‘‘، اور ’’جینیاتی طور پر ترمیم شدہ اعضاء‘‘ ہمیں ایک نئی دنیا کی جانب لے جا رہے ہیں۔ اگر ان تجربات کو عالمی سطح پر اپنایا جائے تو دل کے مریضوں کی زندگی میں وہ روشنی داخل ہو سکتی ہے جس کا انتظار برسوں سے تھا۔
جہاں ایک طرف یہ کام یابیاں سائنسی ترقی کا اعلان ہیں، وہیں ہمیں اخلاقی، معاشرتی اور صنفی توازن کے پہلو بھی نظر میں رکھنا ہوں گے، کیوںکہ جدید طب کا اصل مقصد صرف زندگی کا بچانا ہی نہیں، بلکہ ایک معیاری، محفوظ اور مساوی زندگی فراہم کرنا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دل کی بیماریوں خواتین میں کے مطابق میں ایک کرتی ہے کے لیے
پڑھیں:
اچھے کپڑوں اور گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی: حرا مانی
پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حرا مانی نے اپنے مداحوں کو ایک دلچسپ پیغام دے دیا۔حرا مانی انسٹاگرام پر اپنی مختلف ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں جس میں کبھی وہ ڈانس تو کبھی مزاحیہ ویڈیوزبناتی نظر آتی ہیں۔حال ہی میں اداکارہ نے انسٹا گرام پر اپنی مختلف تصاویر شیئر کیں اور ساتھ ہی اپنے مداحوں کو ایک دلچسپ پیغام بھی دیا۔اداکارہ نے لکھا کہ اچھے کپڑوں اور اچھی گاڑی سے زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور جب میرے پاس یہ سب کچھ آیا تو مجھے پتا چلا۔انہوں نے مزید لکھا کہ اپنے اندر کے بچے کو نہیں مارو، جو صرف چھوٹی موٹی چیزوں میں خوش رہتا ہے، اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے گزاریں۔