Express News:
2025-11-02@01:54:22 GMT

تلاش

اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT

’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔

غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔

انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔

دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔

دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔

مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔

ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔

کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔

انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔

خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔

تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔

انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔

تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی میں انسان کی انسان کو کی زندگی کی تلاش تلاش ا ہے اور

پڑھیں:

سوڈان میں خونیں کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-3

 

سوڈان ایک بار پھر خون میں نہا رہا ہے۔ شہر الفشر میں گزشتہ ہفتے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں، وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں۔ فوجی انخلا کے بعد سے ریپڈ سپورٹ فورسز نے شہر پر قبضہ کر کے ایک ایسا قتل عام شروع کیا ہے جس نے دارفور کے پرانے زخم پھر سے تازہ کر دیے ہیں۔ صرف چار دن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور پچیس ہزار سے زیادہ شہری نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، الفشر کے اطراف میں ایک لاکھ سترہ ہزار کے قریب لوگ پھنسے ہوئے ہیں، بغیر خوراک، پانی یا طبی سہولت کے۔ اس المناک صورتحال کی جڑیں آج کی نہیں بلکہ ایک دہائی پرانی پالیسیوں میں پیوست ہیں۔ 2013ء میں جب دارفور میں بغاوت کے شعلے بھڑکے، تو خرطوم نے روایتی فوج کی ناکامی کے بعد ایک نئی ملیشیا بنائی، ریپڈ سپورٹ فورس۔ مقصد یہ تھا کہ تیز رفتار کارروائیوں کے ذریعے شورش کو ختم کیا جائے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ گواہ ہے، ’’ایک ملک میں دو فوجیں کبھی ساتھ نہیں رہ سکتیں‘‘۔ اس ملیشیا کو وسائل، اختیار اور تحفظ دیا گیا، مگر اس کے ساتھ وہ خود مختاری بھی ملی جس نے بالآخر ریاستی ڈھانچے کو کمزور کر دیا۔ ماضی میں دیکھا جائے تو جب 2019ء میں عمرالبشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا، تو یہی ملیشیا اقتدار کی کشمکش میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگی۔ ریپڈ فورسز نے فوجی اقتدار کے عبوری دور میں بھی اپنے اثر و نفوذ میں اضافہ جاری رکھا۔ پھر 2023ء میں وہ لمحہ آیا جب جنرل برھان کی فوج اور جنرل حمیدتی کی فورس کے درمیان تصادم نے سوڈان کو مکمل خانہ جنگی میں دھکیل دیا۔ آج الفشر میں جو خون بہہ رہا ہے، وہ دراصل انہی غلط فیصلوں اور طاقت کے بے لگام استعمال کا نتیجہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹیں بتاتی ہیں کہ سوڈان کی صورت حال اب انسانی المیے کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر، معیشت تباہ، اسپتال ملبے میں تبدیل، اور عورتیں و بچے عدم تحفظ کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ وہی مغربی دنیا جو یوکرین یا اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بیانات دیتی ہے، سوڈان کے جلتے ہوئے شہروں پر آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ سوڈان کا المیہ صرف ایک ملک کا نہیں بلکہ یہاں بھی عالمی بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جب کسی ریاست کے اندر طاقت کے دو مراکز قائم ہو جائیں، جب اقتدار ذاتی مفاد کے تابع ہو جائے، جب بین الاقوامی طاقتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی اسیر ہوجائیں تو ایسے ہی حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس وقت سوڈان کو فوری طور پر جنگ بندی، غیر جانب دار انسانی رسائی، اور ایک جامع سیاسی عمل کی ضرورت ہے، جس میں فوج، ریپڈ فورس اور سول سوسائٹی سب شامل ہوں۔ بین الاقوامی برادری کو بھی اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ صرف تماشائی بنے رہنا چاہتی ہے یا واقعی انسانی حقوق کے اصولوں پر قائم ہے۔

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • سوڈان میں خونیں کھیل
  • پاکستانی فاسٹ بولر نے جیت ماں کے نام کر دی
  • اسرائیل جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تلاش کررہا ہے: اردوان
  • دنیا کی زندگی عارضی، آخرت دائمی ہے، علامہ رانا محمد ادریس قادری
  • سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے.
  • انصاف تک رسائی میں رکاوٹیں
  • ‎گفتگو کا بھوکا عہدِ حاضر کا انسان ‎
  • انسان کو اس جگہ کی عزت کرنی چاہیے جہاں اسے عزت، دولت، شہرت ملی ہو: مشی کی صبا پر تنقید