غزہ کے بعد مغربی کنارہ: اسرائیل کی نئی جارحیت
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251029-03-2
اسرائیلی پارلیمنٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے غیرقانونی بل کی پہلے مرحلے میں منظوری دے دی ہے، عرب میڈیا کے مطابق 120 نشستوں پر مشتمل اسرائیلی کنیسٹ میں بل کے حق میں 25 ووٹ جبکہ مخالفت میں 24 ووٹ پڑے۔ عرب میڈیا کے مطابق اب یہ بل مزید غور کے لیے خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے اس غیر قانونی بل پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کی اجازت نہیں دیں گے، مقبوضہ مغربی کنارہ اسرائیل میں ضم ہو ایسا نہیں ہوگا، ہمیں عربوں کی زبردست حمایت حاصل ہے، اگر ایسا ہوا تو اسرائیل امریکا سے اپنی حمایت کھو دے گا۔ ادھر امریکا کے نائب صدر نے فیصلے کو احمقانہ قرار ددیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک بے معنی علامتی ووٹ تھا، جس کا کوئی عملی اثر نہیں، اگر یہ سیاسی حربہ تھا تو یہ بہت ہی بے وقوفانہ تھا اور وہ ذاتی طور پر اسے غزہ امن معاہدے کی توہین سمجھتے ہیں، جی ڈی وینس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی یہ ہے کہ مغربی کنارہ اسرائیل میں ضم نہیں کیا جائے گا اور یہ مؤقف برقرار رہے گا تاہم اگر اسرائیلی پارلیمنٹ علامتی ووٹ دینا چاہتی ہے تو دے دے لیکن ہم اس سے بالکل خوش نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان، سعودی عرب، ترکیے، او آئی سی اور عرب لیگ سمیت 17 ممالک اور تنظیموں نے مغربی کنارے پر قبضے کے غیرقانونی بل کی اسرائیلی کینسٹ سے منظوری کی شدید مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، خصوصاً قرارداد 2334، کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو‘ کے قیام کی راہ ہموار کی جائے، یہ خطے میں پائیدار امن اور استحکام کا واحد راستہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے 1967 سے مغرب کنارے (West Bank) پر قبضہ کر رکھا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 میں جہاں غزہ پر بے پناہ بمباری کر کے ہزاروں افراد کو شہید کیا گیا وہیں دوسری جانب مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو بھی ظلم کا نشانہ بنایا گیا، یہاں آئے نہتے فلسطینیوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے جو کسی بھی طور انسانی حقوق سے ہم آہنگ نہیں، اسرائیلی فوجی کہیں پاپردہ خواتین کو بے حجاب کرتے ہیں اور کہیں سرعام بے گناہوں پر گولیاں برسادی جاتی ہیں، حتیٰ کہ فلسطینیوں کے گھروں پر سیوریج کا پانی تک پھینکا جاتا ہے۔ یہاں اب تک 703 فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں، غزہ اور مغرب کنارہ صرف 33 کلومیٹرکے فاصلے پر ہیں، لیکن اسرائیلی پابندیوں نے ان دونوں فلسطینی علاقوں کی جغرافیائی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے، ان کے درمیان سفر اور رابطے عملاً مسدود ہوچکے ہیں۔ فلسطین کامغرب کنارہ، مشرقی یروشلم سمیت، 5,655 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جو غزہ سے 15 گنا بڑا ہے۔ مغرب کنارے میں تقریباً 33 لاکھ فلسطینی آباد ہیں، جو غزہ سے دس لاکھ زیادہ ہیں۔ یہ 11 مقامی انتظامی یونٹ میں تقسیم ہے، سب سے زیادہ آبادی الخلیل میں ہے جہاں فلسطینیوں کی تعداد آٹھ لاکھ بیالیس ہزار ہے، جبکہ یروشلم میں پانچ لاکھ، نابلس میں چار لاکھ چالیس ہزار، رام اللہ والبیرہ میں تین لاکھ سینتیس ہزار اور جنین میں تین لاکھ ساٹھ ہزار ہے، مغربی کنارے میں اسرائیل نے اپنے اقدام سے یہاں آباد مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا ہے، بلاجواز گرفتاریاں، جا بجا چیک پوسٹ کا قیام، گھروں پر چھاپے اور مسلمانوں کے مکانات مسمار کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 ماہ میں اسرائیل نے 1,697 عماراتیں مسمار کیں، جن سے 4,233 لوگ بے گھر ہوئے جبکہ گزشتہ 15 سال میں 11,500 فلسطینی عمارات زمین بوس کی گئیں۔ 1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت مغرب کنارے کو تین حصوں A,B اور C میں تقسیم کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور اسرائیل کے درمیان پہلا امن معاہدہ تھا، جس کے تحت فلسطینی اتھارٹی وجود میں آئی تھی ، جو خود مختار علاقوں میں سیکورٹی، انتظامیہ اور شہری امور دیکھتی ہے۔ ایریا A مغرب کنارے کا 18 فی صد ہے، یہاں فلسطینی اتھارٹی شہری معاملات اور انتظامی امور خود کنٹرول کرتی ہے۔ ایریا B، جو 22 فی صد پر مشتمل ہے، میں فلسطینی اتھارٹی تعلیم، صحت، اور معیشت جیسے شعبوں کی ذمے دار ہے، لیکن سیکورٹی کا مکمل کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے، اور وہ کسی بھی وقت اس علاقے میں داخل ہو سکتا ہے۔ ایریا C، جو سب سے بڑا حصہ یعنی 60 فی صد ہے، مکمل طور پر اسرائیل کے کنٹرول میں ہے، اوسلو معاہدے میں ایریا C کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ ستم یہ ہے کہ اب مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں 250 غیر قانونی بستیاں قائم کردی گئی ہیں جہاں 7 لاکھ اسرائیلی آباد ہیں، یہ بستیاں عالمی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں کیونکہ چوتھا جنیوا کنونشن قبضہ کرنے والی طاقت کو اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنے سے روکتا ہے۔ 2002 میں یہاں اسرائیل نے 700 کلومیٹرلمبی دیوار بنائی تھی جو فلسطینی علاقوں کو کاٹتی ہے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں چیک پوائنٹس اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے فلسطینیوں کو نقل و حرکت میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ مغرب کنارے میں 8.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینی اتھارٹی اسرائیل نے اسرائیل کے فلسطینی ا کے مطابق کنارے کو یہ ہے کہ کیا گیا گیا ہے یہاں ا
پڑھیں:
مستقبل کس کا ہے؟
اسلام ٹائمز: ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اسکی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اسکی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
"امریکہ کا زوال: دنیا کا ایک نیا دور" کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں امریکی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر جیمز ایچ فیٹزر کی تقریر کا متن قارئین کے ذوقِ مطالعہ کے پیش ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے زوال کی اپنے زاویہء نظر سے تصویر کشی کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر جیمز کہتے ہیں کہ: "1940 میں پیدا ہونے والے شخص کے طور پر میں نے اپنی زندگی میں "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کو زمانے کی ایک عظیم مملکت سے بدمعاش اسرائیلی حکومت کی غلام اور کٹھ پتلی سلطنت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ میرے لیے ایک ناگوار تجربہ رہا ہے۔ میں نے "میرین کور" میں ایک کیڈر آفیسر کی حیثیت سے بڑے اعزاز کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارا ملک دنیا میں خیر کی ایک طاقت ہے۔ لیکن میرا یہ یقین ویتنام جنگ کے بعد سے متزلزل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔ اس وقت سے معاملات ناقابل یقین حد تک خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔
میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات میں شریک تھا اور مجھے پتہ چلا کہ اس قتل میں ہماری اپنی حکومت کے اندر موجود عناصر، جن کا تعلق سی آئی اے، فوج اور مخصوص مافیا سے ہے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس قتل کے پیچھے تیل کے مفادات، اسرائیل اور کاسترو مخالف کیوبا بھی ہیں۔ لیکن یہ سب "لنڈن جانسن" کی وجہ سے بھی تھا، جو صدر بننا چاہتا تھا۔ اس نے "یو ایس ایس لبرٹی" پر حملے کی تباہی کو ہونے دیا۔ میری رائے میں وہ ایک چھپا ہوا یہودی تھا، جو اسرائیل کے مفادات کو محفوظ بنانے والی امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا رہا تھا اور پھر 2000ء میں یقینی طور پر ہم نے ڈک چینی اور جارج ڈبلیو بش کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ وجہ یہ کہ ہم ڈک چینی کو 9/11 کا "فیلڈ اوورسیئر" بنانا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ اسرائیل، سی آئی اے، نیو کونز، محکمہء دفاع اور موساد کی مدد سے ہوا۔ ان سب کا منصوبہ امریکی فوجی قوت کو مشرق وسطیٰ میں لانا اور اسرائیل کے ذریعے ان عرب حکومتوں کو ختم کرنا تھا، جو پورے خطے پر اسرائیل کے تسلط کے خلاف کام کر رہی تھیں۔
شام اپنے زوال کے بعد اب سابق اسرائیلی فوجی دستوں کے زیر انتظام ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے یہ انتہائی توہین آمیز اور شرمناک ہے۔ صرف ایران ہی اس وقت مضبوط اور خودمختار ہے۔ میں وہ ہوں، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی اور تین بار انہیں ووٹ دیا۔ مجھے ان کے ان سیاسی بیانات پر یقین تھا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان احمقانہ جنگوں کو ختم کر دیں گے، سرحد بند کریں گے اور داخلی محاذ پر امریکہ کو بڑے فائدے پہنچائیں گے۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے جنگیں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں نسل کشی کا ایک بھیانک جرم ہو رہا ہے اور امریکہ اس نسل کشی کی حمایت کرکے اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت انصاف اور سب نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔
ایران اس وقت مضبوط کھڑا ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایران کی اب ایک اور ممکنہ حملے کے لیے زیادہ فوجی تیاری ہے۔ اس کے پاس چین کے 40 جدید طیارے اور دیگر ایسے میزائل ڈیفنس سسٹمز موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور قوت بنائیں گے۔ اسرائیل کے عالمی رہنماوں پر قاتلانہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بالکل پاگل ہوچکا ہے اور طاقت کا بھوکا ہے۔ اسرائیل کے ٹارگٹ کیے گئے رہنماوں میں یمن کے حوثیوں کے رہنماء، قطر میں فلسطینی رہنماء، لبنان میں حزب اللہ کے رہنماء اور ایران میں ایرانی رہنماء شامل ہیں۔ بی بی (بینجمن) نیتن یاہو سمجھ گئے ہیں کہ ان کی قسمت جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بظاہر ناقابل یقین ہے کہ امریکہ یوکرین میں ایک مضحکہ خیز جنگ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے روس اور پیوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا صرف وعدہ کیا، لیکن پیوٹن نے ماضی میں نیٹو اور مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ روس نیٹو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیلیوں نے ہمیں ہمیشہ سونے کے بچھڑے کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ ہمارا خون چوستے ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے فلاحی نظام کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتے۔ اسرائیلی ان تمام ممالک کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ میں خود بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ زیلنسکی یوکرین کو نئے اسرائیل کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مسئلے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگیں اسی کے بارے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپیوں نے حیران کن حماقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جسے وہ جیت نہیں سکتے۔
وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اسے نہیں جیت سکتے، جبکہ روس ایسی جنگ کے لیے تیار ہے۔ آخر نتیجہ کیا ہوگا۔؟ بدقسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال بالکل بھی امید افزا نہیں ہے، اس نااہلی کے پیش نظر جو ہم اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ امکان سے باہر نہیں ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے باہر پھینک دیا جائے گا، جس کا کہ وہ مستحق ہے۔ بدقسمتی سے، مجھے کہنا پڑتا ہے اور میں اس سے دکھی ہوں، لیکن خود امریکہ بھی ایسا ہی ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف اس جنگ کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ ٹرمپ، میری رائے میں، گمراہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہ ہو۔ وہ تقریباً چھ یا سات دنوں تک عوام میں نہیں دیکھا گیا، جو کہ انتہائی غیر معمولی تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا ایک بڑا طبی معائنہ ہوا ہے۔ اس کی پہلی عوامی نمائش میں ہم نے پریس افسروں اور دیگر کو روتے ہوئے دیکھا اور یہ اس لیے ہوا ہوگا کہ اس کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔
ہمیں یہاں امریکہ میں آزادئ اظہار کی ضرورت ہے۔ آزادئ اظہار کے بغیر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے۔ آج روس میں، ایران میں اور میں شرط لگاتا ہوں کہ شمالی کوریا میں بھی امریکہ سے کہیں زیادہ اظہار کی آزادی ہے۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے۔؟ اس لیے میں اس موقعے پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روس، ایران اور چین۔۔۔ یہ مستقبل ہیں۔ ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اس کی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ شکریہ!