Islam Times:
2025-12-11@08:05:12 GMT

مستقبل کس کا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

مستقبل کس کا ہے؟

اسلام ٹائمز: ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اسکی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اسکی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ تحریر: پروفیسر تنویر حیدر نقوی
 
"امریکہ کا زوال: دنیا کا ایک نیا دور" کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں امریکی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر جیمز ایچ فیٹزر کی تقریر کا متن قارئین کے ذوقِ مطالعہ کے پیش ہے، جس میں انہوں نے امریکہ کے زوال کی اپنے زاویہء نظر سے تصویر کشی کی۔ اپنے خطاب میں پروفیسر جیمز کہتے ہیں کہ: "1940 میں پیدا ہونے والے شخص کے طور پر میں نے اپنی زندگی میں "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کو زمانے کی ایک عظیم مملکت سے بدمعاش اسرائیلی حکومت کی غلام اور کٹھ پتلی سلطنت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ میرے لیے ایک ناگوار تجربہ رہا ہے۔ میں نے "میرین کور" میں ایک کیڈر آفیسر کی حیثیت سے بڑے اعزاز کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ مجھے یقین تھا کہ ہمارا ملک دنیا میں خیر کی ایک طاقت ہے۔ لیکن میرا یہ یقین ویتنام جنگ کے بعد سے متزلزل ہونا شروع ہوگیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس جنگ میں نہیں کودنا چاہیے تھا۔ اس وقت سے معاملات ناقابل یقین حد تک خراب ہوتے چلے گئے ہیں۔

میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقات میں شریک تھا اور مجھے پتہ چلا کہ اس قتل میں ہماری اپنی حکومت کے اندر موجود عناصر، جن کا تعلق سی آئی اے، فوج اور مخصوص مافیا سے ہے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس قتل کے پیچھے تیل کے مفادات، اسرائیل اور کاسترو مخالف کیوبا بھی ہیں۔ لیکن یہ سب "لنڈن جانسن" کی وجہ سے بھی تھا، جو صدر بننا چاہتا تھا۔ اس نے "یو ایس ایس لبرٹی" پر حملے کی تباہی کو ہونے دیا۔ میری رائے میں وہ ایک چھپا ہوا یہودی تھا، جو اسرائیل کے مفادات کو محفوظ بنانے والی امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا رہا تھا اور پھر 2000ء میں یقینی طور پر ہم نے ڈک چینی اور جارج ڈبلیو بش کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ وجہ یہ کہ ہم ڈک چینی کو 9/11 کا "فیلڈ اوورسیئر" بنانا چاہتے تھے۔ یہ سب کچھ اسرائیل، سی آئی اے، نیو کونز، محکمہء دفاع اور موساد کی مدد سے ہوا۔ ان سب کا منصوبہ امریکی فوجی قوت کو مشرق وسطیٰ میں لانا اور اسرائیل کے ذریعے ان عرب حکومتوں کو ختم کرنا تھا، جو پورے خطے پر اسرائیل کے تسلط کے خلاف کام کر رہی تھیں۔

شام اپنے زوال کے بعد اب سابق اسرائیلی فوجی دستوں کے زیر انتظام ہے۔ سمجھنے والوں کے لیے یہ انتہائی توہین آمیز اور شرمناک ہے۔ صرف ایران ہی اس وقت مضبوط اور خودمختار ہے۔ میں وہ ہوں، جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی اور تین بار انہیں ووٹ دیا۔ مجھے ان کے ان سیاسی بیانات پر یقین تھا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان احمقانہ جنگوں کو ختم کر دیں گے، سرحد بند کریں گے اور داخلی محاذ پر امریکہ کو بڑے فائدے پہنچائیں گے۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے جنگیں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے قتل عام میں اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے، جس میں نسل کشی کا ایک بھیانک جرم ہو رہا ہے اور امریکہ اس نسل کشی کی حمایت کرکے اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اقوام متحدہ، بین الاقوامی عدالت انصاف اور سب نے صحیح نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔

ایران اس وقت مضبوط کھڑا ہے۔ امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایران کی اب ایک اور ممکنہ حملے کے لیے زیادہ فوجی تیاری ہے۔ اس کے پاس چین کے 40 جدید طیارے اور دیگر ایسے میزائل ڈیفنس سسٹمز موجود ہیں، جو اسے مشرق وسطیٰ میں ایک طاقتور قوت بنائیں گے۔ اسرائیل کے عالمی رہنماوں پر قاتلانہ حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بالکل پاگل ہوچکا ہے اور طاقت کا بھوکا ہے۔ اسرائیل کے ٹارگٹ کیے گئے رہنماوں میں یمن کے حوثیوں کے رہنماء، قطر میں فلسطینی رہنماء، لبنان میں حزب اللہ کے رہنماء اور ایران میں ایرانی رہنماء شامل ہیں۔ بی بی (بینجمن) نیتن یاہو سمجھ گئے ہیں کہ ان کی قسمت جنگ سے جڑی ہوئی ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو ان کی وزارت عظمیٰ کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ بظاہر ناقابل یقین ہے کہ امریکہ یوکرین میں ایک مضحکہ خیز جنگ کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ایسا کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے روس اور پیوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا صرف وعدہ کیا، لیکن پیوٹن نے ماضی میں نیٹو اور مغرب کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ روس نیٹو میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ اب جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہ کتنا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ زیلنسکی نے امریکہ کو صرف اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے اسرائیلیوں نے ہمیں ہمیشہ سونے کے بچھڑے کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ ہمارا خون چوستے ہیں اور ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے فلاحی نظام کے سوا کچھ نہیں رہنے دیتے۔ اسرائیلی ان تمام ممالک کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں، جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ میں خود بنجمن نیتن یاہو کا حوالہ دیتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ زیلنسکی یوکرین کو نئے اسرائیل کے طور پر فروغ دے رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مسئلے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگیں اسی کے بارے میں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یورپیوں نے حیران کن حماقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں، جسے وہ جیت نہیں سکتے۔

وہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اسے نہیں جیت سکتے، جبکہ روس ایسی جنگ کے لیے تیار ہے۔ آخر نتیجہ کیا ہوگا۔؟ بدقسمتی سے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال بالکل بھی امید افزا نہیں ہے، اس نااہلی کے پیش نظر جو ہم اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ امکان سے باہر نہیں ہے کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ سے باہر پھینک دیا جائے گا، جس کا کہ وہ مستحق ہے۔ بدقسمتی سے، مجھے کہنا پڑتا ہے اور میں اس سے دکھی ہوں، لیکن خود امریکہ بھی ایسا ہی ہے۔ ٹرمپ نے نہ صرف اس جنگ کو ختم نہیں کیا بلکہ اسے مزید خراب کر دیا ہے۔ ٹرمپ، میری رائے میں، گمراہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہ ہو۔ وہ تقریباً چھ یا سات دنوں تک عوام میں نہیں دیکھا گیا، جو کہ انتہائی غیر معمولی تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا ایک بڑا طبی معائنہ ہوا ہے۔ اس کی پہلی عوامی نمائش میں ہم نے پریس افسروں اور دیگر کو روتے ہوئے دیکھا اور یہ اس لیے ہوا ہوگا کہ اس کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔

ہمیں یہاں امریکہ میں آزادئ اظہار کی ضرورت ہے۔ آزادئ اظہار کے بغیر آپ مسائل حل نہیں کرسکتے۔ آج روس میں، ایران میں اور میں شرط لگاتا ہوں کہ شمالی کوریا میں بھی امریکہ سے کہیں زیادہ اظہار کی آزادی ہے۔ یہ کتنا حیرت انگیز ہے۔؟ اس لیے میں اس موقعے پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روس، ایران اور چین۔۔۔ یہ مستقبل ہیں۔ ڈالر تیزی سے گر رہا ہے۔ برکس بڑھ رہا ہے۔ برکس ایک زیادہ مساوی معاشرہ ہے، جو کرہ ارض پر ابھر رہا ہے اور امریکہ اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ امریکی ہار جائیں گے۔ ہماری زندگی کا معیار بہت کم ہو جائے گا۔ ہماری حکومت اور اس کی پالیسیاں تباہ کن تھیں۔ ٹیرف کا استعمال اس طرح تھا کہ ہم نے تجارت کو سیاسی رنگ دیا۔ دنیا کو ڈالر کا متبادل تلاش کرنا پڑا ہے اور اب وہ ڈالر کو چھوڑ رہی ہے۔ دنیا امریکہ کے کردار کے بغیر بہتر ہوگی۔ میں ایران کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں روس کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا ملک ان اصولوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرے، جو کبھی اس ملک کا طرہء امتیاز تھا۔ شکریہ!

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ساتھ کھڑا ہوں ہم جانتے ہیں کہ اسرائیل کے کی حمایت ہے کہ اس کے لیے کا ایک ہوں کہ تھا کہ ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

جاتی امراء، شریف خاندان کی بیٹھک، تحریک انصاف کے مستقبل پر غور

جاتی امراء (نیوزڈیسک) وزیراعلیٰ ُپنجاب نے کابینہ میں ردوبدل کے ذریعے کارکردگی بہتر بنانے کے ارادے کا اظہار بھی کیا ہے
شریف خاندان نے جاتی امرا میں اتوار کے روز اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی تاکہ ملک میں جاری سیاسی صورتحال، خصوصاً اپوزیشن جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مستقبل اور پنجاب کی انتظامیہ میں ممکنہ تبدیلیوں پر مشاورت کی جا سکے۔

حکمران خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی گفتگو کی۔

2 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اس ملاقات میں پی ٹی آئی کی آئندہ چند دنوں میں ممکنہ حکمتِ عملی اور وفاقی و پنجاب حکومتوں کے مؤثر جواب پر غور کیا گیا۔

گفتگو کا محور یہ سوال بھی تھا کہ عمران خان کی اپنی جماعت میں موجودہ حیثیت کیا ہے، اور آیا پی ٹی آئی قیادت اپنے قید بانی کی رہنمائی پر انحصار جاری رکھے گی یا پھر سابق وزیرِاعظم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے اب تک کے سخت ترین ردعمل کے بعد خود کو ان سے دور کرے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان نے مختلف سیاسی اور معاشی اقدامات کے بارے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر کا جائزہ لیا، جو مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں اختیار کر رہی ہیں۔

ذرائع کے مطابق، مریم نواز نے پنجاب کابینہ کی حال ہی میں تیار کی گئی کارکردگی رپورٹ پر اپنے والد اور چچا کو بریفنگ دی، جس میں آڈٹ کے ذریعے سامنے آنے والی نمایاں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ نے اپنی کابینہ میں ردوبدل اور نئے وزرا کی شمولیت کے ذریعے حکومت کی مجموعی کارکردگی بہتر بنانے کے اپنے ارادے کا اظہار بھی کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بنگلہ دیشی نوجوان اور خواتین بہتر مستقبل کے ساتھ بدلتے حالات سے پُر امید
  • شام کے ساتھ جنگ لازمی ہے، صہیونی وزیر
  • غزہ جنگبندی کیلئے اصلی خطرہ اسرائیل ہی ہے، خالد مشعل
  • قطر و پاکستان خوشحال مستقبل کیلئے کام کرنے پر پُرعزم ہیں: وزیراعظم شہباز شریف
  • غداری کا امکان کھلا ہے—عمران خان کا مستقبل ایم کیو ایم جیسا؟ رانا ثنا اللہ کا تہلکہ خیز بیان
  • پاکستان نے بھرپور سفارت کاری سے امریکا میں اپنی پوزیشن غیرمعمولی طور پر مضوط کرلی، امریکی جریدہ
  • پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے معرکہ حق میں غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کیا, سید عاصم منیر
  • جاتی امراء، شریف خاندان کی بیٹھک، تحریک انصاف کے مستقبل پر غور
  • اسرائیل کیساتھ "برستی آگ تلے مذاکرات" کسی صورت قابل قبول نہیں، ولید جنبلاط