WE News:
2025-09-17@23:43:16 GMT

پانچ سال بعد تاریخ موجودہ دور کو کیسے دیکھے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT

دنیا کی تاریخ یہ بات بسا اوقات ہمیں بتا چکی ہے ، دکھا چکی ہے کہ جب بھی کوئی فرماں روا تخت اقتدار پر براجمان ہوتا ہے اس کی تمام خامیاں روپوش ہو جاتی ہیں۔ اس کی لغزشوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، اس کی غلطیاں دھندلا سی جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ حاکم وقت اپنے تخت سے اترتا ہے اس کے چند برسوں بعد سب پر اس دور کی حقیقت کھلتی ہے، اس کی خامیاں بھی سب کو یاد آ جاتی ہیں، لغزشوں سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے اور غلطیاں بھی طشت از بام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے تاریخ کسی دور میں کیے گئے فیصلوں کو اس دور کے گزرنے کے چند برس بعد پرکھتی ہے۔ یہ استدلال پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بھی درست ہے۔

ہمارے حکمران بھی ابن الوقت لوگوں میں گھرے رہتے ہیں جو ان کی شان میں قصیدے بھی پڑھتے تھے، زمیں اور آسمان ایک کر دیتے تھے۔ حاکم وقت کی توصیف میں مبالغہ بھی جی بھر کر ہوتا رہا، غلو سے بھی کام لیا جاتا رہا اور حقیقتوں پر بھی پردہ ڈالا جاتا رہا۔ لیکن ایک دور کی حقیقت دوسرے دور میں کھلتی ہے، ایک زمانے کا سحر دوسرے زمانے میں ٹوٹتا ہے، ایک عہد کی قلعی دوسرے عہد میں کھلتی ہے۔ یہی تاریخ کا درس ہے، یہی اقتدار کی حقیقت ہے۔

حضرت ضیا الحق کا دور تھا، ہر طرف مرد مومن، مرد حق کا نعرہ گونج رہا تھا۔ ہر کوئی جہاد افغانستان کا سفیر بنا ہوا تھا۔ مجلس شوریٰ قائم ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اس کا ممبر بننے کا خواہاں تھا۔ مرد مومن بسا اوقات ٹی وی کی ریکارڈڈ تقاریر میں امت مسلمہ کی حالت زار پر آبدیدہ ہو جاتے اور شیروانی کی جیب سے سفید براق رومال نکالتے اور پھر اس سے وہ آنسو پونچھتے تھے جنہیں بدخواہ ایک سمندری مخلوق کے آنسو قرار دیتی تھی۔

وہ دور کرب ناک بیت گیا، ایک طیارہ کیا تباہ ہوا، تاریخ کے سارے صفحے الٹ گیا۔ چند برس بعد ہم پر منکشف ہوا کہ افغان جہاد ہماری غلطی تھی۔ تب ہمیں پتا چلا کہ غیر جماعتی انتخابات ایک ڈھکوسلہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ مجلس شوریٰ ایک جمہوریت کش ادارہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ وہ آنسو مگر مچھ کے آنسو تھے۔ مگر ان حقیقتوں کے واشگاف ہونے کے لیے ہمیں ایک حادثے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، وہ اس وقت لکھتا تھا کہ اب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ یہ بعد از مرد مومن پتا چلا کہ پانی پینے کے بعد شیر بکری کو کھا جاتا تھا۔

پیپلز پارٹی کا جب بھی دور آیا لوگوں نے نعرہ لگایا اب آ گئی عوام کی حکومت۔ اب تخت گرائے جائیں گے اور تاج وغیرہ اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کو ان کا حق ملا۔ یونینوں کی عید ہوگئی۔ طلبا تنظیمیں بحال ہوئیں۔ آئین میں وہ بنیادی تبدیلیاں کی گئیں جو لازم تھیں۔ صوبوں کو حق ملا، آئینی ترامیم تجویز کی گئیں۔ دانش وروں، فنکاروں کے دن پلٹ آئے۔ انسانی حقوق کی بات ہونے لگی۔ لیکن دور چاہے 1988 کا ہو، 1993 کا یا پھر پیپلز پارٹی کی 2008 والی حکومت ہو۔ اس کے ختم ہونے کے چند برس بعد ہمیں پتا چلا کہ یہ تو بڑے کرپٹ لوگ تھے۔ ہر منصوبے میں بندر بانٹ ہو رہی تھی۔ اقربا پروری کی انتہا ہو چکی تھی۔ جیالے سب خزانہ لوٹ کر چلے گئے۔ یہ پہلے ٹن پرسںٹ تھے، پھر نائینٹی پرسنٹ تک پہنچ گئے۔ یہ سب حقیقتیں اس وقت منکشف ہوئیں جب پیپلز پارٹی کا دور ختم ہو گیا۔ جب تک وہ دور چلتا رہا، اس وقت تک ہمیں کسی نے ان باتوں کا شائبہ تک نہ ہونے دیا۔

جنرل مشرف کا دور آیا تو قصیدہ خوانوں نے پھر لفظوں کو شیرے میں بھگونا شروع کردیا۔ بتایا گیا کہ یہ ہے قوم کا اصل مصلح، اسے کہتے ہیں ریفارمر۔ یہ ختم کرے گا کرپشن۔ یہ لائے گا واپس لوٹی ہوئی دولت۔ یہ کرے گا کڑا احتساب۔ پھر این آر او لکھا گیا۔ پھر غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کی بات چلی۔ پھر ابن الوقت لوگوں نے سچ کو چھپانا شروع کردیا۔ کسی نے مارشل لا کی بات نہیں کی۔ سب دور مشرف کو اصل جمہوریت کہنے لگے۔ کوئی فیس بک اور کوئی ٹوئٹر پر ان کی مقبولیت کے ترانے گانے لگا۔ کوئی ان کی پرکشش شخصیت کے سحر کے قصے سنانے لگا۔ جب دور مشرف بیت گیا تب پتا چلا کہ یہ ایک ڈکٹیٹر تھا۔ جمہوریت کا دشمن تھا۔ انسانی حقوق کا قاتل تھا۔ اس کے دور میں کرپشن بھی بہت ہوئی۔ خزانہ بھی بہت لوٹا گیا۔ پر تشدد لسانی جماعتوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی اور پی ٹی وی کی دیواریں پھاند کر جمہوریت پر شب خون بھی مارا گیا۔ لیکن یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ جب تک جنرل مشرف اقتدار میں رہے تنقید کرنے والی زبانیں گنگ رہیں اور اعتراض کرنے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔

ن لیگ کا جب بھی دور آیا، سب کہنے لگے اب کرے گی معیشت ترقی، اب ہوگی خوشحالی، اب تاجر برادری کے دن پھریں گے، اب کرے گی اسٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں، اب بنیں گی موٹر ویز، اب جال بچھے گا میٹروز کا، اب غربت ختم ہوگی، اب اورنج ٹرین بھی چلے گی اور اب ہوں گے بھارت سے تجارتی معاہدے۔ اب سارک بھی فعال ہوگا اور اسحاق ڈار دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بننے کا اعلان بھی کریں گے۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن جب ایسے کسی دور کے چار پانچ سال گزر جاتے ہیں تب پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ تو غلط لوگ تھے۔ ڈان لیکس کے ذمہ دار یہ تھے۔ موروثی سیاست کے بانی یہ ہیں۔ بٹ برادری کے علاوہ اس دور میں کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کی فیکٹریوں میں بھارتی کام کرتے ہیں۔ ان کی اسٹیل مل کا سریا ہر منصوبے میں لگتا ہے۔ ان کو نہ آئین کی سمجھ ہے نہ ان کے دور میں قانون پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بادشاہوں کی طرح اس ملک کو چلاتے ہیں۔

عمران خان کی مثال بھی کچھ مخلتف نہیں، جب خان صاحب اقتدار میں تھے سب اچھا تھا، دنیا میں سب سے زیادہ مشہور بھی وہ تھے اور مقبول بھی۔ بیرون ملک پاکستانی انہی کے گرویدہ تھے۔ کرپشن کے خلاف وہی جہاد کرتے تھے۔ ترقی کا سونامی ان کے دم قدم سے آیا لیکن جب خان صاحب کا دور ختم ہوا تو پتا چلا کہ یہ تو 9 مئی والے تھے۔ یہ انتقامی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ یہ تو کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کرتے تھے لیکن یہ سب ایک دم پتا نہیں چلا، رفتہ رفتہ یہ حقائق تاریخ نے منکشف کیے۔

ماضی کے ادوار کے بخیے ادھڑنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجود دور، ہائبرڈ نظام اور شہباز شریف کی حکومت کے بارے میں تاریخ پانچ سال بعد کیا کہے گی؟ تو اس سلسلے میں قرائن بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس دور کے معترضین کے منہ میں گھنگنیاں ہوں گی کیونکہ ارادے، عزائم اور امکانات بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس ملک میں یہی دور ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

wenews پیپلزپارٹی تاریخ تخت اقتدار حکمران ضیاالحق کا دور عمار مسعود لغزش وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی تاریخ ضیاالحق کا دور وی نیوز پانچ سال بعد جاتی ہیں ختم ہو کا دور

پڑھیں:

’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!

کیا صرف چند معیاری سوالات آپ کو دوسروں کے قریب لا سکتے ہیں؟ نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم کے ماہرین نفسیات نے ایسا ہی ایک تجربہ کیا جس نے حیران کن نتائج دیے۔

یہ بھی پڑھیں: اکثر افراد کو درپیش ’دماغی دھند‘ کیا ہے، قابو کیسے پایا جائے؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر نفسیات ایڈی برومیل مین اور ان کی ٹیم نے 8 سے 13 سال کی عمر کے بچوں اور ان کے والدین پر ایک تجربہ کیا جس میں والدین نے اپنے بچوں سے صرف 14 سوالات پوچھے۔ یہ سوالات عام گفتگو سے ہٹ کر، ذاتی تجربات اور جذبات سے متعلق تھے۔

مثال کے طور پر اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے تو کہاں جاتے اور کیوں؟ اب تک کا سب سے عجیب تجربہ کیا رہا؟ آپ آخری بار کب تنہا محسوس ہوئے اور کیوں؟

9 منٹ کی گفتگو

اس مختصر بات چیت کے بعد بچوں سے سوالنامہ پر کروایا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ وہ اپنے والدین سے کتنا پیار محسوس کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟

صرف 9 منٹ کی گفتگو کے بعد بچوں نے والدین کی محبت اور سپورٹ کا زیادہ احساس ظاہر کیا۔ یعنی گہرے سوالات، گہرے رشتے پیدا کرتے ہیں۔

فااسٹ فرینڈز پروسیجر

یہ تکنیک اصل میں ’فاسٹ فرینڈز پروسیجر‘ کہلاتی ہے جسے پہلی بار سنہ 1990 کی دہائی میں ماہر نفسیات آرتھر آرن نے تیار کیا تھا۔ اس میں 2 افراد ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ کا ایک مثالی دن کیسا ہوگا؟ اگر آپ کو موت سے پہلے صرف ایک چیز بچانے کا موقع ملے تو وہ کیا ہوگی اور کیوں؟

مزید پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟

تحقیق سے پتا چلا کہ ایسے سوالات خود انکشاف (سیلف ڈسکلوژر) کو فروغ دیتے ہیں جو انسانی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے خواہ وہ 2 اجنبی، دوست، ساتھی یا والدین و بچے ہوں۔

دماغی اثرات: بات چیت اور خوشی کے کیمیکل

سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جب ہم دل سے بات کرتے ہیں تو ہمارا دماغ قدرتی اینڈورفنز خارج کرتا ہے وہی کیمیکل جو ہمیں خوشی، تعلق اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔

یہی ’اوپیئڈ سسٹم‘ منشیات جیسے مورفین پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے مگر یہاں بات ہے قدرتی، محفوظ اور جذباتی تعلق کی۔

ایک تجربے میں جب شرکا کو ایک دوا دے کر اینڈورفنز کے اثرات کو روکا گیا تو وہ نہ تو گفتگو میں دلچسپی لے پائے اور نہ ہی دوسرے شخص کے قریب محسوس کیا۔

 مختلف معاشرتی گروہوں میں بھی مؤثر

اس طریقے کو مختلف گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہ طریقہ آن لائن طلبہ کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لیے، مختلف جنسی رجحانات کے افراد کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے اور نسل، عمر یا ثقافت کے فرق کے باوجود تعلق قائم کرنے کے لیے اپنایا گیا۔

سادہ اصول: سچے سوالات اور کھلا دل

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں زیادہ بہادر ہونے کی ضرورت ہے۔ اکثر لوگ ذاتی باتیں اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں لگتا ہے دوسرا شخص دلچسپی نہیں لے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ لوگ سننا چاہتے ہیں اور تعلق چاہتے ہیں۔

یہ صرف سوالات پوچھنے کا عمل نہیں بلکہ ایک سوچ کی تبدیلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوائلٹ میں موبائل کا استعمال کس خطرناک بیماری کا سبب بن سکتا ہے؟

والدین بھی اپنی کہانی سنائیں، بچوں کو سوالات پوچھنے دیں، اور ایک برابری کے ماحول میں گفتگو کریں — تب ہی دل سے دل جڑے گا۔

کیا حال ہے؟

اگر آپ اپنے بچوں، شریک حیات، دوست یا کسی اجنبی سے تعلق مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو صرف ’کیا حال ہے‘ سے آگے بڑھیں۔

ان سے پوچھیں کہ ایسا کون سا لمحہ تھا جب آپ نے خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کیا؟ یا یہ کہ آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟ شاید یہی ایک سوال، ایک زندگی بدل دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بامعنی سوالات بامعنی گفتگو باہمی تعلقات باہمی محبت دوستی لوگوں کو قریب لائیں

متعلقہ مضامین

  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • خضدار، سکیورٹی فورسز کی کارروائی، پانچ دہشتگرد ہلاک
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر سینیٹ کمیٹیوں سے استعفے دے رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر
  • چین کی غذائی پیداوار چودہویں پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئی بلندی پر پہنچ گئی
  • بلوچستان، کیچ میں آئی ای ڈی دھماکےمیں کیپٹن سمیت 5 جوان شہید،کلیئرنس آپریشن میں پانچ دہشت گرد ہلاک
  • 82 سالہ امیتابھ بچن 75 فیصد ناکارہ جگر کے باوجود موت کو کیسے شکست دے رہے ہیں؟
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
  • فلمسٹار خوشبو نے ارباز خان سے علیحدگی کی تصدیق کردی
  • مالی مشکلات سے تنگ ہیں؟ جانیے چیٹ جی پی ٹی کیسے آپ کی مدد کرسکتا ہے