پانچ سال بعد تاریخ موجودہ دور کو کیسے دیکھے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
دنیا کی تاریخ یہ بات بسا اوقات ہمیں بتا چکی ہے ، دکھا چکی ہے کہ جب بھی کوئی فرماں روا تخت اقتدار پر براجمان ہوتا ہے اس کی تمام خامیاں روپوش ہو جاتی ہیں۔ اس کی لغزشوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، اس کی غلطیاں دھندلا سی جاتی ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ حاکم وقت اپنے تخت سے اترتا ہے اس کے چند برسوں بعد سب پر اس دور کی حقیقت کھلتی ہے، اس کی خامیاں بھی سب کو یاد آ جاتی ہیں، لغزشوں سے بھی پردہ اٹھ جاتا ہے اور غلطیاں بھی طشت از بام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے تاریخ کسی دور میں کیے گئے فیصلوں کو اس دور کے گزرنے کے چند برس بعد پرکھتی ہے۔ یہ استدلال پاکستان کی تاریخ کے بارے میں بھی درست ہے۔
ہمارے حکمران بھی ابن الوقت لوگوں میں گھرے رہتے ہیں جو ان کی شان میں قصیدے بھی پڑھتے تھے، زمیں اور آسمان ایک کر دیتے تھے۔ حاکم وقت کی توصیف میں مبالغہ بھی جی بھر کر ہوتا رہا، غلو سے بھی کام لیا جاتا رہا اور حقیقتوں پر بھی پردہ ڈالا جاتا رہا۔ لیکن ایک دور کی حقیقت دوسرے دور میں کھلتی ہے، ایک زمانے کا سحر دوسرے زمانے میں ٹوٹتا ہے، ایک عہد کی قلعی دوسرے عہد میں کھلتی ہے۔ یہی تاریخ کا درس ہے، یہی اقتدار کی حقیقت ہے۔
حضرت ضیا الحق کا دور تھا، ہر طرف مرد مومن، مرد حق کا نعرہ گونج رہا تھا۔ ہر کوئی جہاد افغانستان کا سفیر بنا ہوا تھا۔ مجلس شوریٰ قائم ہو چکی تھی۔ ہر کوئی اس کا ممبر بننے کا خواہاں تھا۔ مرد مومن بسا اوقات ٹی وی کی ریکارڈڈ تقاریر میں امت مسلمہ کی حالت زار پر آبدیدہ ہو جاتے اور شیروانی کی جیب سے سفید براق رومال نکالتے اور پھر اس سے وہ آنسو پونچھتے تھے جنہیں بدخواہ ایک سمندری مخلوق کے آنسو قرار دیتی تھی۔
وہ دور کرب ناک بیت گیا، ایک طیارہ کیا تباہ ہوا، تاریخ کے سارے صفحے الٹ گیا۔ چند برس بعد ہم پر منکشف ہوا کہ افغان جہاد ہماری غلطی تھی۔ تب ہمیں پتا چلا کہ غیر جماعتی انتخابات ایک ڈھکوسلہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ مجلس شوریٰ ایک جمہوریت کش ادارہ تھا۔ تب ہمیں پتا چلا کہ وہ آنسو مگر مچھ کے آنسو تھے۔ مگر ان حقیقتوں کے واشگاف ہونے کے لیے ہمیں ایک حادثے کا انتظار کرنا پڑا۔ اس سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھا، وہ اس وقت لکھتا تھا کہ اب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے ہیں۔ یہ بعد از مرد مومن پتا چلا کہ پانی پینے کے بعد شیر بکری کو کھا جاتا تھا۔
پیپلز پارٹی کا جب بھی دور آیا لوگوں نے نعرہ لگایا اب آ گئی عوام کی حکومت۔ اب تخت گرائے جائیں گے اور تاج وغیرہ اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں کو ان کا حق ملا۔ یونینوں کی عید ہوگئی۔ طلبا تنظیمیں بحال ہوئیں۔ آئین میں وہ بنیادی تبدیلیاں کی گئیں جو لازم تھیں۔ صوبوں کو حق ملا، آئینی ترامیم تجویز کی گئیں۔ دانش وروں، فنکاروں کے دن پلٹ آئے۔ انسانی حقوق کی بات ہونے لگی۔ لیکن دور چاہے 1988 کا ہو، 1993 کا یا پھر پیپلز پارٹی کی 2008 والی حکومت ہو۔ اس کے ختم ہونے کے چند برس بعد ہمیں پتا چلا کہ یہ تو بڑے کرپٹ لوگ تھے۔ ہر منصوبے میں بندر بانٹ ہو رہی تھی۔ اقربا پروری کی انتہا ہو چکی تھی۔ جیالے سب خزانہ لوٹ کر چلے گئے۔ یہ پہلے ٹن پرسںٹ تھے، پھر نائینٹی پرسنٹ تک پہنچ گئے۔ یہ سب حقیقتیں اس وقت منکشف ہوئیں جب پیپلز پارٹی کا دور ختم ہو گیا۔ جب تک وہ دور چلتا رہا، اس وقت تک ہمیں کسی نے ان باتوں کا شائبہ تک نہ ہونے دیا۔
جنرل مشرف کا دور آیا تو قصیدہ خوانوں نے پھر لفظوں کو شیرے میں بھگونا شروع کردیا۔ بتایا گیا کہ یہ ہے قوم کا اصل مصلح، اسے کہتے ہیں ریفارمر۔ یہ ختم کرے گا کرپشن۔ یہ لائے گا واپس لوٹی ہوئی دولت۔ یہ کرے گا کڑا احتساب۔ پھر این آر او لکھا گیا۔ پھر غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کی بات چلی۔ پھر ابن الوقت لوگوں نے سچ کو چھپانا شروع کردیا۔ کسی نے مارشل لا کی بات نہیں کی۔ سب دور مشرف کو اصل جمہوریت کہنے لگے۔ کوئی فیس بک اور کوئی ٹوئٹر پر ان کی مقبولیت کے ترانے گانے لگا۔ کوئی ان کی پرکشش شخصیت کے سحر کے قصے سنانے لگا۔ جب دور مشرف بیت گیا تب پتا چلا کہ یہ ایک ڈکٹیٹر تھا۔ جمہوریت کا دشمن تھا۔ انسانی حقوق کا قاتل تھا۔ اس کے دور میں کرپشن بھی بہت ہوئی۔ خزانہ بھی بہت لوٹا گیا۔ پر تشدد لسانی جماعتوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی اور پی ٹی وی کی دیواریں پھاند کر جمہوریت پر شب خون بھی مارا گیا۔ لیکن یہ سب باتیں بعد کی ہیں۔ جب تک جنرل مشرف اقتدار میں رہے تنقید کرنے والی زبانیں گنگ رہیں اور اعتراض کرنے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔
ن لیگ کا جب بھی دور آیا، سب کہنے لگے اب کرے گی معیشت ترقی، اب ہوگی خوشحالی، اب تاجر برادری کے دن پھریں گے، اب کرے گی اسٹاک مارکیٹ آسمان سے باتیں، اب بنیں گی موٹر ویز، اب جال بچھے گا میٹروز کا، اب غربت ختم ہوگی، اب اورنج ٹرین بھی چلے گی اور اب ہوں گے بھارت سے تجارتی معاہدے۔ اب سارک بھی فعال ہوگا اور اسحاق ڈار دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بننے کا اعلان بھی کریں گے۔ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن جب ایسے کسی دور کے چار پانچ سال گزر جاتے ہیں تب پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ تو غلط لوگ تھے۔ ڈان لیکس کے ذمہ دار یہ تھے۔ موروثی سیاست کے بانی یہ ہیں۔ بٹ برادری کے علاوہ اس دور میں کسی کی شنوائی نہیں ہوتی۔ ان کی فیکٹریوں میں بھارتی کام کرتے ہیں۔ ان کی اسٹیل مل کا سریا ہر منصوبے میں لگتا ہے۔ ان کو نہ آئین کی سمجھ ہے نہ ان کے دور میں قانون پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بادشاہوں کی طرح اس ملک کو چلاتے ہیں۔
عمران خان کی مثال بھی کچھ مخلتف نہیں، جب خان صاحب اقتدار میں تھے سب اچھا تھا، دنیا میں سب سے زیادہ مشہور بھی وہ تھے اور مقبول بھی۔ بیرون ملک پاکستانی انہی کے گرویدہ تھے۔ کرپشن کے خلاف وہی جہاد کرتے تھے۔ ترقی کا سونامی ان کے دم قدم سے آیا لیکن جب خان صاحب کا دور ختم ہوا تو پتا چلا کہ یہ تو 9 مئی والے تھے۔ یہ انتقامی سیاست پر یقین رکھتے تھے۔ یہ تو کرپشن کے خلاف جہاد کا نعرہ لگاتے ہوئے کرپشن کرتے تھے لیکن یہ سب ایک دم پتا نہیں چلا، رفتہ رفتہ یہ حقائق تاریخ نے منکشف کیے۔
ماضی کے ادوار کے بخیے ادھڑنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجود دور، ہائبرڈ نظام اور شہباز شریف کی حکومت کے بارے میں تاریخ پانچ سال بعد کیا کہے گی؟ تو اس سلسلے میں قرائن بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس دور کے معترضین کے منہ میں گھنگنیاں ہوں گی کیونکہ ارادے، عزائم اور امکانات بتاتے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اس ملک میں یہی دور ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
wenews پیپلزپارٹی تاریخ تخت اقتدار حکمران ضیاالحق کا دور عمار مسعود لغزش وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی تاریخ ضیاالحق کا دور وی نیوز پانچ سال بعد جاتی ہیں ختم ہو کا دور
پڑھیں:
مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-8
شاہنواز فاروقی
انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کر سکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تا کہ خوش ہو سکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تا کہ انبساط محسوس کر سکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تا کہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہو جائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ’’کمیونز‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ’’مسرت‘‘ حاصل ہو سکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئے، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہو سکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن بہر حال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصویر انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔
انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکار حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادّی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مازی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔
چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادّی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اول و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلا شبہ انسان ایک جسم بھی ہے، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اْٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنا دیتا ہے، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح نفس اور جسم پر محیط ہے۔
رسول اکرمؐ کے عہد میں اگر چہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں، ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنے، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرمؐ کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہو گئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھے، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارالسلام سے فرار ہو گئے، یا پھر معاشرے میں نا قابل اثر بن کر رہ گئے۔
انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ’’مدلل‘‘ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں بھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہا کہ انسان ایک مادی حقیقت ہے، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی شے ہے، طبیعیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی چیز ہے… غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہو گیا۔ انسانوں نے کہا کہ اصل چیز سرمایہ ہے، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہے، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہے، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہے، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سر چشمہ بن گئی۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟
اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں لیکن مادّی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نظام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو در پیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہے، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشتر کہ منڈی کا تصور ہے، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشتر کہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نے… مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ جو بھی سماجی بہبود، کم اوقات کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی ہے۔
مادّی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ء میں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ’’پیمانۂ مسرت‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روز گار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ تائیوان نے ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی نماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادّی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور نا کافی بھی۔
اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کر کے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔
ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہو جائے، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔
اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہے؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کر سکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔
اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کسی حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہے، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔
اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیے، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔
یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے نا آشنا ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔