بلوچستان دہشتگردی کا المناک واقعہ، لورالائی میں شہید کیے گئے 9 پنجابی مسافروں کی تدفین مکمل
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
بلوچستان کے علاقے لورالائی میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی سفاکانہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے پنجاب کے 9 شہریوں کو ان کے آبائی علاقوں میں سپرد خاک کر دیا گیا یہ تمام افراد بسوں سے اتار کر شناخت کے بعد بے دردی سے قتل کیے گئے تھے شہداء میں دنیاپور کے دو سگے بھائی عثمان اور جابر گجرات کے 23 سالہ بلاول فیصل آباد کے شیخ ماجد لاہور کے جنید مظفرگڑھ کے محمد آصف ڈیرہ غازی خان کے محمد عرفان خانیوال کے غلام سعید اور گوجرانوالہ کے صابر شامل تھے شہداء کی میتیں سخت سیکیورٹی میں ان کے علاقوں کو منتقل کی گئیں جہاں ان کے لواحقین نے غم و اندوہ میں انہیں سپرد خاک کیا دنیاپور میں جب دو بھائیوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھے تو پورے علاقے میں کہرام مچ گیا نماز جنازہ میں اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور دونوں بھائیوں کو چوک قریشی کے قبرستان میں دفنایا گیا فیصل آباد کے شیخ ماجد جو لورالائی میں کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ تھے انہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ان کے پسماندگان میں بیوہ والدہ اور تین بہن بھائی شامل ہیں گجرات کے بلاول کو بھی ان کے آبائی علاقے میں دفنایا گیا وہ حال ہی میں دبئی سے وطن واپس آئے تھے اور دوستوں سے ملنے کوئٹہ گئے تھے لاہور کے جنید کوئٹہ میں اپنے سسرال سے واپسی کے دوران اسی بدقسمت بس میں سوار تھے جس پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ان کی تدفین لاہور میں کی گئی جنید کی شہادت نے پورے محلے کو سوگوار کر دیا جہاں لوگوں نے حکومت سے فوری انصاف اور مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا واضح رہے کہ اپریل 2024 میں بھی بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو قتل کر دیا گیا تھا ان واقعات نے بین الصوبائی ہم آہنگی کے خلاف سرگرم عناصر کے خطرناک عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے جن کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر موثر اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کر دیا
پڑھیں:
پنجابی دانش وروں کی پست مزاجی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-03-7
شاہنواز فاروقی
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان محبت میں غلو کرکے بھی عدم توازن کا شکار ہوتا ہے اور نفرت میں غلو کرکے بھی عدم توازن سے دوچار ہوتا ہے۔ چنانچہ انسان کو اپنی محبت پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور نفرت کو بھی غور سے دیکھتے رہنا چاہیے۔ اگر انسان یہ نہیں کرتا تو پھر پست مزاجی اور ننگا پن اس کا مقدر بن کر رہتا ہے۔ اس امر کی ٹھوس مثال عہد حاضر کے پنجابی دانش ور ہیں جو طالبان کی نفرت میں اندھے ہوگئے ہیں۔ ان کے اندھے پن کی دو ناقابل تردید مثالیں حال ہی میں سامنے آگئی ہیں۔ جب سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ پنجابی دانش ور بھی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑے ہیں۔ معروف شاعر، سابق بیورو کریٹ، دانش ور اور روزنامہ دنیا کے کالم نگار محمد اظہار الحق کے بارے میں ہماری عمومی رائے اچھی تھی۔ محمد اظہار الحق وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ ان کی شاعری میں اسلامی تاریخ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مگر طالبان کی نفرت نے انہیں ہولناک عدم توازن کا شکار بنادیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے طالبان کا غصہ پوری ’’افغان قوم‘‘ پر اُتار دیا ہے۔ محمد اظہار الحق نے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ وہ افغانوں کو طنزاً نمک حلال یعنی نمک حرام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’افغانوں کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے۔ وہ یہ کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔
اب پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ کون سی برائی ہے جو پاکستان نے افغانوں کے ساتھ نہیں کی۔ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے اپنی سرحدیں افغانوں کے لیے کھول دیں۔ انہیں پناہ دی۔ سوچیے! کتنی بڑی برائی تھی جو پاکستان نے کی۔ ایران نے افغانوں کو خاردار کیمپوں میں رکھا مگر پاکستان میں پورا ملک ان کے لیے کیمپ کی طرح تھا۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کر کوئٹہ تک‘ ہر جگہ افغان ٹڈی دَل کی طرح پھیل گئے۔ پاکستان نے ایک اور برائی یہ کی کہ افغانوں کو ہر طرح کے کاروبار کی اجازت دے دی۔ ٹرانسپورٹ کا کام‘ کپڑے کی خرید و فروخت‘ رئیل اسٹیٹ‘ امپورٹ ایکسپورٹ‘ تعمیرات‘ ٹھیکے۔ کون سا کاروبار ہے جو افغانوں نے پاکستان میں رہ کر پاکستانیوں سے نہیں چھینا۔ احسان شناسی اور وفاداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کا واقعہ ہے۔ پوری مارکیٹ افغان دکانداروں کی تھی‘ صرف ایک دکاندار مقامی تھا۔ اسے انہوں نے قتل کر دیا۔ ہے نا احسان شناسی!!
موجودہ افغان حکمران سال ہا سال بلکہ کئی عشرے پاکستان میں رہے۔ ان کے خاندان یہاں رہے۔ ان لوگوں نے تعلیم یہاں کے تعلیمی اداروں سے پائی۔ یہاں کاروبار کیے۔ جائدادیں خریدیں۔ یہاں پاسپورٹ بنوائے۔ یہاں کی دھوپ‘ چاندنی اور ہوا سے متمتع ہوئے۔ یہاں کی گندم کھائی۔ یہاں کا نمک کھایا۔ اْن کی کئی نسلوں نے یہاں پرورش پائی۔ یہ سب وہ برائیاں تھیں جو پاکستان نے ان کے ساتھ کیں۔ اب یہ وفادار اور احسان شناس افغان ان ’’برائیوں‘‘ کا پاکستان سے بدلہ لے رہے ہیں۔
کئی ہزار سال سے افغان موجودہ پاکستان سے خوراک اور وہ تمام اشیا حاصل کر رہے ہیں جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ خود ان کے ہاں جراب تک نہیں بنتی۔ ان کا واحد پیشہ قتل و غارت ہے اور لوٹ مار۔ پہلے یہ لوٹ مار کرنے جتھوں کے ساتھ آتے تھے۔ اہل ِ پنجاب کو آج تک وہ محاورہ یاد ہے: کھادا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا۔ غزنوی سے لے کر ابدالی تک لوٹ مار کر کے یہاں سے لاکھوں اونٹوں پر لوٹ کا سامان لاد کر لے جاتے رہے۔ اب اسمگلنگ ان کا معاش ہے۔ سب کچھ پاکستان سے لیتے ہیں۔ پاکستان ایک برائی ان کے ساتھ یہ بھی کر رہا ہے کہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے اجازت دیتا ہے۔ ایک ہفتہ بارڈر بند رہے تو ان کی چیں بول جاتی ہے۔ ان احسان شناسوں اور شکر گزاروں کے بیماروں کا علاج پاکستانی اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کی رْو سے ہمارے اسپتالوں کی تیس فی صد سہولتیں یہ لے اْڑتے ہیں۔ ان کے نوجوان پاکستانی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان سب برائیوں کا بدلہ یہ افغان اب بھارت سے مل کر اور ہماری افواج پر دہشت گردی کا ارتکاب کر کے لے رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں نمک حلالی!!‘‘ (روزنامہ دنیا 16اکتوبر 2025ء)
بدقسمتی سے یہ صرف محمد اظہار الحق کا عدم توازن نہیں۔ معروف کالم نگار اور دانش ور جاوید چودھری بھی طالبان کی نفرت میں تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں۔ اس کا ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت ان کے کالم کا یہ اقتباس ہے۔ جاوید چودھری لکھتے ہیں۔
’’افغان فطرتاً حملے کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ حملہ کریں گے اور چند منٹوں میں ہر چیز تہس نہس کر دیں گے‘ آپ تاریخ دیکھ لیں‘ افغانوں نے انڈیا کے ساتھ کیا کیا‘ یہ آتے تھے‘ شہروں کو لوٹتے تھے‘ مکانوں اور کھیتوں کو آگ لگاتے تھے‘ انسانوں کو قتل کرتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے۔
جنگی زبان میں اسے چھاپا مار کارروائی کہتے ہیں‘ یہ اس کے ایکسپرٹ ہیں‘ دوسرا یہ اپنے مفاد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں‘ ان پر حملہ ہو یا انہیں کسی ملک میں مفاد نظر آئے گا تو یہ قبائلی عصبیت اور نظریاتی اختلافات بھلا کر فوراً اکٹھے ہو جائیں گے لیکن جوں ہی مفاد ختم ہو گا یہ دوبارہ ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیں گے۔
ان دو خوبیوں کے علاوہ ان میں خامیاں ہی خامیاں ہیں‘ یہ ڈسپلنڈ نہیں ہیں‘ افغانستان تاریخ کے کسی بھی دور میں آزاد اور مکمل ملک نہیں رہا‘ یہ مختلف علاقوں اور قبائل میں منقسم رہا لہٰذا افغانوں کے ڈی این اے میں ڈسپلن‘ قانون کی پابندی‘ ملک سے محبت‘ رواداری اور انسانی حقوق پیدا نہیں ہوئے۔
ان کی نظر میں انسانی جان‘ وعدے کی پابندی‘ خواتین کا احترام اور احسان مندی کی اہمیت نہیں‘ لڑنا‘ مرنا اور مارنا ان کی خو ہے‘ یہ آپس میں لڑتے اور مرتے رہتے ہیں اور اگر کوئی دوسرا آ جائے تو یہ غول کی شکل میں اس سے لڑ پڑتے ہیں‘ وہ تنگ آ کر واپس چلا جاتا ہے تویہ پھر ایک دوسرے کا سر اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔
سوویت یونین کے معاملے میں بھی یہی ہوا‘ یہ سب روس سے لڑ رہے تھے لیکن جوں ہی روسی ٹینک واپس جانے شروع ہوئے یہ آپس میں لڑ پڑے اور اس لڑائی سے انہیں افغان وار سے دس گنا نقصان ہوا۔
طالبان کا ظہور اسی خانہ جنگی کا نتیجہ تھا‘ طالبان آئے تو افغانستان میں امن ہو گیا اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے بعد طالبان نے وہ گل کھلائے کہ امریکا ان پر حملے کے لیے مجبور ہوگیا اور اس کے بعد افغانوں نے ایک بار پھر افغانوں کے ساتھ وہ کیا جسے سن کر انسانیت کانپ جاتی ہے۔
آپ خانہ جنگی کے واقعات پڑھ لیں آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ یہ لوگ اپنے بھائیوں کو کنٹینروں میں بند کر کے صحرا میں چھوڑ دیتے تھے اور لوگ کنٹینر میں بھوک‘ پیاس اور گرمی سے مر جاتے تھے‘ لاشوں سے بھرے یہ کنٹینر برسوں صحراؤں میں کھڑے رہے۔
اب سوال یہ ہے یہ لوگ اگر اتنے ہی جاہل‘ سنگ دل‘ مطلبی اور احسان فراموش ہیں تو پھر ہم انہیں دہائیوں تک آئیڈیل کیوں سمجھتے رہے اور ہم نے اپنے میزائلوں کے نام غوری‘ غزنوی‘ بابر اور ابدالی کیوں رکھے؟ یہ داستان بھی کم دلچسپ نہیں‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس 19 اکتوبر2025ء)
اصول ہے چیونٹی کو چپل اور ہاتھی کو گُرز سے مارا جاتا ہے۔ مگر پنجابی دانش وروں اظہار الحق اور جاوید چودھری نے چیونٹی کے لیے بھی گُرز استعمال کر ڈالا ہے۔ دونوں پنجابی دانش وروں کا سب سے بڑا عدم توازن یہ ہے کہ انہوں نے ’’طالبان‘‘ اور ’’افغان قوم‘‘ میں فرق نہیں کیا۔ پاکستان کی جو شکایت ہے ’’طالبان‘‘ سے ہے مگر محمد اظہار الحق اور جاوید چودھری پوری افغان قوم پر پل پڑے ہیں۔ امریکا کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ امریکا کے سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے بعد، دو سو سال میں 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کر ڈالا۔ لیکن کیا اس قتل عام کی بنیاد پر پورے امریکا سے نفرت کرنا جائز ہوگا؟ یورپی اقوام نے اپنے مقبوضہ جات میں کروڑوں باشندوں کو ہلاک کیا مگر کیا اس بنیاد پر پورے یورپ سے نفرت کی جاسکتی ہے۔؟ بھارت میں بی جے پی اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کی دشمن ہے۔ اس نے بابری مسجد سمیت کئی مساجد کو شہید کروایا ہے لیکن کیا اس حوالے سے پورے ہندو سماج پر تھوکنا مناسب ہوگا؟
بلاشبہ طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اندر دہشت گردی سے روکنے میں ناکام ہیں لیکن کیا اس بنیاد پر پوری افغان قوم سے نفرت کا درس دینا کوئی ’’اسلامی‘‘ اور ’’عقلی‘‘ بات ہے؟ اس سلسلے میں پنجابی دانش وروں کو کسی اور سے نہیں تو علامہ اقبال ہی سے تھوڑی سی رہنمائی لے لینی چاہیے۔ اقبال نے کہا ہے۔
آسیا یک پیکرِ آب و گِل است
ملّت افغاں درآں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
از کشادِ او کشادِ آسیا
اقبال نے ان چار مصرعوں میں کہا ہے کہ ایشیا پانی اور مٹی کا ایک وجود ہے۔ ایشیا کے وجود میں افغان دل کی مانند ہے۔ افغانستان کے فساد میں مبتلا ہونے سے ایشیا فساد میں ہے اور اس کی اصلاح میں ایشیا کی اصلاح ہے۔ مگر پاکستان کے پنجابی دانش ور اقبال کی بصیرت پر تھوک رہے ہیں۔ پنجابی دانش ور اپنے کالموں میں اس خیال کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں کہ یہ پاکستان تھا جس نے افغانوں کے لیے روس سے جنگ کی۔ پاکستان افغانوں کی مدد نہ کرتا تو افغان روس کے غلام بن جاتے۔ لیکن یہ بات ایک صریح جھوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روس کبھی افغانستان تک محدود رہنے والی طاقت نہیں تھا۔ وہ ’’توسیع پسند‘‘ تھا۔ اس نے اسی توسیع پسندی کے تحت پورے مشرقی یورپ پر قبضہ کیا تھا، چنانچہ وہ افغانستان میں آنے کے بعد کبھی افغانستان تک محدود نہ رہتا۔ وہ افغانستان پر قبضہ مضبوط کرتے ہی پاکستان پر حملہ کرتا اور پاکستان پر قبضہ کرلیتا۔ چنانچہ پاکستان نے روس کے خلاف افغانوں کی مدد کرکے، دراصل پاکستان کی آزادی اور بقا و سلامتی کی جنگ لڑی۔ یہ جنگ افغانستان جیسے پہاڑی علاقے ہی میں لڑی جاسکتی تھی۔ پاکستان جیسے میدانی علاقے میں روس جیسی طاقت کے خلاف جنگ لڑنا ناممکن ہوتا۔ پاکستان نے امریکا کے خلاف جنگ میں بھی افغانوں کی خفیہ طریقے سے مدد کی۔ یہ مدد بھی دراصل پاکستان کی آزادی اور بقا و سلامتی کی جدوجہد کا حصہ تھی۔ امریکا کو افغانستان میں شکست نہ ہوتی تو امریکا مستقل طور پر پاکستان کے پڑوس میں آبیٹھتا۔ اس صورتحال کے ہماری آزادی، خودمختاری اور ایٹمی پروگرام کے لیے سنگین مضمرات تھے۔ خطے میں امریکا کی موجودگی چین کے لیے بھی مشکلات کا سبب ہوتی اور پاکستان امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں جس طرح کا توازن اس وقت برقرار رکھے ہوئے ہے افغانستان میں امریکا کی مستقل موجودگی کے بعد اس طرح کا توازن پاکستان کے لیے ایک خواب بن کر رہ جاتا۔ چنانچہ امریکا کے خلاف طالبان کے جہاد میں پاکستان نے طالبان کی خفیہ طریقے سے مدد کرکے طالبان کو جتنا فائدہ پہنچایا اس سے زیادہ فائدہ اس خفیہ مدد سے خود پاکستان کو حاصل ہوا۔ چنانچہ پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کی مدد کرکے خود اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ یہاں بھی طالبان نے اپنی جنگ سے زیادہ پاکستان کی جنگ لڑی۔
پاکستان کے پنجابی دانش ور ہوں یا پاکستان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ ان کے لیے دوسری قوموں کو مطعون کرنے کا عمل نیا نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنگالی پاکستان بنانے والے تھے۔ وہ پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے مگر پاکستان کی پنجابی اور پشتون اسٹیبلشمنٹ نے 1947ء سے 1962ء تک بنگالیوں پر فوج کے دروازے بند رکھے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ’’مارشل ریس‘‘ کا نظریہ گھڑا جو کہتا تھا کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے آدمی کا لمبا قد ہونا چاہیے۔ چونکہ بنگالی پست قد ہیں اس لیے وہ فوج میں نہیں آسکتے۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1970ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تو ایک بار پھر پاکستان کی پنجابی اور پشتون اسٹیبلشمنٹ نے بنگالی قوم کا اکثریتی فیصلہ مسترد کردیا اور پوری بنگالی قوم کو غدار قرار دے کر اس کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یہاں تک کہ جنرل نیازی نے فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ 2024ء کے انتخابات میں پوری پاکستانی قوم نے عمران خان کی جماعت کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا مگر جرنیلوں نے فارم 47 کے ذریعے اپنی ہی قوم کو فتح کرتے ہوئے قوم کے انتخابی فیصلے پر تھوک دیا۔ ایسے لوگ جب طالبان پر اخلاقی، تہذیبی اور تاریخی اعتراضات کرتے ہیں اور پنجابی دانش وروں کو افغانوں پر حملے کے لیے اکساتے ہیں تو بے ساختہ یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ