پنجاب حکومت کا ایک اور احسن اقدام، سکول میل پروگرام کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
پنجاب حکومت نے سکول میل پروگرام کے ابتدائی مرحلے کی کامیابی کے بعد اس کے دائرہ کار کو مزید اضلاع تک توسیع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔بہاولنگر، بھکر، ڈیرہ غازی خان، لیہ، میانوالی اور مظفرگڑھ جیسے اضلاع کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔پروگرام کے تحت سکول کے بچوں کو روزانہ دودھ فراہم کیا جاتا ہے جس کا مقصد ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کو بہتر بنانا ہے، سکول میل پروگرام کو بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے اور تعلیم میں بہتری لانے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق پروگرام کی توسیع کے لیے 45 نئی آسامیوں پر افسران و ملازمین کی بھرتی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ نئے اضلاع میں منصوبے کو مثر انداز میں نافذ کیا جا سکے۔حکام کے مطابق سکول میل پروگرام کے مثبت اثرات دیکھنے میں آئے ہیں جس کی بنیاد پر اس کا دائرہ مزید وسیع کیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس سہولت سے مستفید ہو سکیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی جدید سول سروس نظام درکار ہے، احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایک ایسا سول سروس نظام درکار ہے جو جدید، شفاف، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ ان کے مطابق حکومت ایک جامع اصلاحاتی فریم ورک کے تحت بیوروکریسی کو نئی روح، مقصد اور توانائی کے ساتھ فعال بنا رہی ہے تاکہ یہ نظام عوامی توقعات کے مطابق کام کر سکے۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں “مقامی حقائق اور علاقائی مستقبل” کے عنوان سے منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، جس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کی۔ تقریب میں بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان چوہدری، ہائی کمشنر محمد اقبال کاشف راٹھور، اور دیگر ماہرینِ تعلیم، بیوروکریٹس اور طلبہ نے بھی شرکت کی۔
احسن اقبال نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے — ٹیکنالوجی، موسمیاتی بحران، آبادی میں اضافہ اور جغرافیائی تبدیلیاں حکمرانی کے پرانے ماڈلز کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ایسے میں صرف وہی قومیں ترقی کر سکتی ہیں جو اپنی سول سروس کو علم، شفافیت، مہارت اور خدمتِ عوام کے اصولوں پر استوار کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سول سروس ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے، جو نظم و ضبط اور ٹیکس وصولی کے لیے بنایا گیا تھا، ترقی کے لیے نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایسا نظام تشکیل دیں جو استحکام کے بجائے جدت، مراتب کے بجائے اشتراک، اور طریقہ کار کے بجائے نتائج کو ترجیح دے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت نے سول سروس اصلاحات کے لیے ایک ’اسمارٹ فریم ورک‘ تیار کیا ہے، جس کے تحت سی ایس ایس امتحانات میں بھی بنیادی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ توجہ انگریزی زبان پر نہیں بلکہ تنقیدی سوچ، تجزیاتی صلاحیت اور پالیسی فہم پر مرکوز ہو۔
انہوں نے کہا کہ انگریزی کو ترقی نہیں بلکہ اشرافیہ کے تسلط کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے — اب وقت ہے کہ ہم اس سوچ کو بدلیں۔ مزید کہا کہ خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی نمائندگی بڑھانے کے لیے بھی عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ سول سروس واقعی عوام کی ترجمان بن سکے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے جامعات، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان شراکت کے لیے پبلک پالیسی لیبز کے قیام کی تجویز دی ہے، جو پالیسی سازی کو تحقیق، ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑیں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک سات نکاتی تعلیمی فریم ورک تشکیل دیا ہے جس میں علم پر مبنی پالیسی سازی، مشترکہ تحقیق، ڈیجیٹل گورننس، پالیسی فیلو شپ پروگرامز اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو مشترکہ چیلنجز — جیسے موسمیاتی تبدیلی، غربت اور پانی کی قلت — کے حل کے لیے ایک “ساوتھ ایشین گورننس فریم ورک” تشکیل دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں گورننس کا عمل پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے، کیونکہ اب عوام زیادہ تعلیم یافتہ، ڈیجیٹل طور پر منسلک اور باخبر ہیں۔ لوگ صرف ووٹ دے کر خاموش نہیں رہنا چاہتے بلکہ پالیسی سازی میں براہِ راست شرکت کے خواہاں ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اسلام نے انصاف، جواب دہی اور خدمتِ عوام پر مبنی نظامِ حکومت کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے حضرت عمرؓ کا قول دہراتے ہوئے کہا: “اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر جواب دہ ہوگا” — یہی وہ اصول ہیں جو آج کے حکمرانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: “یاد رکھو، تم ریاست کے خادم ہو، حکمران نہیں” — یہی وژن موجودہ حکومت کی اصلاحات کا بنیادی فلسفہ ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت سول سروس کو ایک جدید، میرٹ پر مبنی اور عوامی خدمت پر مرکوز ادارے میں بدلنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی تبدیلی صرف حکومت کے زور پر نہیں آتی — بلکہ جب ریاست، نجی شعبہ، جامعات اور سول سوسائٹی ایک ٹیم بن کر کام کریں تو ملک ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
احسن اقبال نے کانفرنس میں جامعات کے لیے کارکردگی کے سات نکاتی فریم ورک کا اعلان بھی کیا، جس میں تعلیمی معیار، تحقیق و جدت، صنعت و اکیڈمیا تعلقات، سماجی خدمت، ٹیکنالوجی کا استعمال، کارپوریٹ گورننس اور گریجویٹس کے معیار جیسے عناصر شامل ہیں۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے ملک کی اشرافیہ سے اپیل کی کہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا:غریب عوام آج بھی پاکستان کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں، اب وقت ہے کہ خوشحال طبقہ بھی ٹیم پاکستان کا حصہ بنے۔