دوحہ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں اور فلسطینی حکام کے مطابق بات چیت مکمل ناکامی کے قریب پہنچ چکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وفد کے پاس اصل اختیارات نہیں اور یہ مذاکرات دراصل اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کے حالیہ امریکی دورے کے لیے محض وقت حاصل کرنے کا حربہ تھے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق، مذاکرات میں بنیادی رکاوٹیں اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، انسانی امداد کی تقسیم کے طریقہ کار، اور قیدیوں کی رہائی کے مراحل سے متعلق ہیں، حماس کا اصرار ہے کہ اسرائیلی افواج کو مکمل طور پر واپس بلایا جائے جبکہ اسرائیل صرف 40 فیصد علاقے سے جزوی انخلا کی تجویز دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ کا نیتن یاہو کے اعزاز میں عشائیہ، غزہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال

مزید برآں، حماس نے واضح کیا ہے کہ انسانی امداد صرف اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے تقسیم کی جائے، جبکہ اسرائیل اور امریکا غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے امداد تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جس پر حماس کو تحفظات ہیں۔

دوسری جانب، وزیر اعظم نیتن یاہو نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تاہم ان مذاکرات سے جنگ بندی معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، فلسطینی نمائندوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ان مذاکرات کو عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔

دوحہ میں یہ آٹھواں دور تھا جس میں قطر، مصر اور امریکا ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، 60 روزہ جنگ بندی، اسرائیلی فوجی انخلا اور یرغمالیوں کی مرحلہ وار رہائی پر بات چیت ہو رہی تھی۔

مزید پڑھیں: جنگ بندی پر مذاکرات کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 84 افراد شہید

ذرائع کے مطابق، امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی دوحہ آمد کے بعد ہی بات چیت دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے، تاہم فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک امریکا سخت مؤقف اختیار نہیں کرتا، مذاکرات کے مکمل ناکام ہونے کا خطرہ برقرار رہے گا۔

واضح رہے کہ اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 57,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ تقریباً 50 اسرائیلی یرغمالی اب بھی غزہ میں موجود ہیں، عالمی برادری کی نظریں اس تعطل شدہ مذاکراتی عمل پر لگی ہوئی ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کے لیے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیو وٹکوف اسرائیلی وزیر اعظم امریکا امریکی ایلچی ثالثی حماس دوحہ فلسطینی حکام فوجی انخلا قطر مذاکرات مرحلہ وار رہائی مشرق وسطیٰ مصر نیتن یاہو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیو وٹکوف اسرائیلی وزیر اعظم امریکا امریکی ایلچی ثالثی فلسطینی حکام فوجی انخلا مذاکرات مرحلہ وار رہائی نیتن یاہو ہے کہ اسرائیل فلسطینی حکام نیتن یاہو کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کی چالاکی، غزہ جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کو استعمال کرنے کی کوشش

اسلامی دنیا کی مسلسل مذمت، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے بعد بالآخر اسرائیل نے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے دوران تعمیر نو کیلئے قطر اور دیگر ممالک کو وسائل فراہم کرنے کی مشروط اجازت دینے پر ”رضامندی“ ظاہر کی ہے۔ تاہم اسرائیلی چالاکی یہ ہے کہ وہ قطر کو تنہا فنڈنگ کی اجازت نہیں دینا چاہتا اور اس میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔

حماس کی جانب سے یہ شرط واضح ہے کہ جب تک تعمیر نو اور امدادی اقدامات کی بین الاقوامی ضمانت نہیں دی جاتی، وہ کسی عارضی یا مستقل جنگ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ حماس کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم ہے کہ اہلِ غزہ کو باور کرایا جا سکے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے۔ اسی حوالے سے قطر کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے بات چیت کی، جہاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی یرغمالیوں کے تبادلے کے بہانے موجود تھے۔

اس سارے کھیل میں اسرائیل کی سب سے بڑی ضد ”موراغ کوریڈور“ پر کنٹرول ہے، جو خان یونس اور رفح کو جوڑتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ یہاں اپنی فوجی موجودگی قائم رکھے تاکہ ہزاروں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو اپنی چیک پوسٹوں سے کنٹرول کر سکے، چاہے وہ رفح واپس آ رہے ہوں یا جبراً بےدخل کیے گئے ہوں۔

اسرائیل یہاں ایک نئی ”انسانی شہر“ تعمیر کرنے کی آڑ میں رفح کی تباہ شدہ بستیوں کو خیمہ بستیوں سے بدلنے کا منصوبہ رکھتا ہے — ایک اور انسانی جیل کی تیاری۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق مذاکرات رُکے ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل نے قطر کو نئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں فوجی قبضے کو نرم الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے دوران ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک سے دو ہفتوں کے اندر جنگ بندی کا امکان ہے، لیکن اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے تو اسرائیل دوبارہ حملے کرے گا۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو خود جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے مگر ظاہر ایسے کر رہا ہے جیسے مہربانی کر رہا ہو۔

حماس کے ترجمان طاہر النونو نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم دوحہ میں ثالثوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر دس اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاکہ امداد بہم پہنچے اور اسرائیلی جارحیت رُکے۔ النونو نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کسی ایسے سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی جس سے فلسطینیوں کی عزت نفس مجروح ہو یا جبری بے دخلی کو جواز ملے۔

برطانیہ سے اسرائیل کے خلاف اقدامات، جنوبی افریقہ کی عالمی عدالت میں درخواست، ترکی و عرب دنیا کی شدید مخالفت اور اب اسرائیل کا تعمیر نو کے بدلے جنگ بندی کی کوشش کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو ماضی میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے تھے، اب خود جنگ کے نتائج سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ بندی کے لیے دوحہ میں مذاکرات بدستور بے نتیجہ
  • 60 روزہ جنگ بندی کے دوران مستقل جنگ بندی کےلیے بات چیت کریں گے، اسرائیلی وزیراعظم
  • اسرائیل غزہ میں مسقتل جنگ بندی پر بھی آمادہ، شرائط کیا رکھی ہیں؟
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے حالات سازگار ہیں،اسرائیلی آرمی چیف
  • اسرائیل کی چالاکی، غزہ جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کو استعمال کرنے کی کوشش
  • حماس نے اسرائیل کے 10 قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی
  • حماس کی مستقل جنگ بندی کے بدلے 10 قیدیوں کی رہائی کی پیشکش
  • حماس نے 10 یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی
  • نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جنگ بندی کے لیے دوسری ملاقات، غزہ میں 40 فلسطینی شہید