اسلامی دنیا کی مسلسل مذمت، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے بعد بالآخر اسرائیل نے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے دوران تعمیر نو کیلئے قطر اور دیگر ممالک کو وسائل فراہم کرنے کی مشروط اجازت دینے پر ”رضامندی“ ظاہر کی ہے۔ تاہم اسرائیلی چالاکی یہ ہے کہ وہ قطر کو تنہا فنڈنگ کی اجازت نہیں دینا چاہتا اور اس میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔

حماس کی جانب سے یہ شرط واضح ہے کہ جب تک تعمیر نو اور امدادی اقدامات کی بین الاقوامی ضمانت نہیں دی جاتی، وہ کسی عارضی یا مستقل جنگ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ حماس کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم ہے کہ اہلِ غزہ کو باور کرایا جا سکے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے۔ اسی حوالے سے قطر کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے بات چیت کی، جہاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی یرغمالیوں کے تبادلے کے بہانے موجود تھے۔

اس سارے کھیل میں اسرائیل کی سب سے بڑی ضد ”موراغ کوریڈور“ پر کنٹرول ہے، جو خان یونس اور رفح کو جوڑتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ یہاں اپنی فوجی موجودگی قائم رکھے تاکہ ہزاروں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو اپنی چیک پوسٹوں سے کنٹرول کر سکے، چاہے وہ رفح واپس آ رہے ہوں یا جبراً بےدخل کیے گئے ہوں۔

اسرائیل یہاں ایک نئی ”انسانی شہر“ تعمیر کرنے کی آڑ میں رفح کی تباہ شدہ بستیوں کو خیمہ بستیوں سے بدلنے کا منصوبہ رکھتا ہے — ایک اور انسانی جیل کی تیاری۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق مذاکرات رُکے ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل نے قطر کو نئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں فوجی قبضے کو نرم الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔

نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے دوران ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک سے دو ہفتوں کے اندر جنگ بندی کا امکان ہے، لیکن اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے تو اسرائیل دوبارہ حملے کرے گا۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو خود جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے مگر ظاہر ایسے کر رہا ہے جیسے مہربانی کر رہا ہو۔

حماس کے ترجمان طاہر النونو نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم دوحہ میں ثالثوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر دس اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاکہ امداد بہم پہنچے اور اسرائیلی جارحیت رُکے۔ النونو نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کسی ایسے سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی جس سے فلسطینیوں کی عزت نفس مجروح ہو یا جبری بے دخلی کو جواز ملے۔

برطانیہ سے اسرائیل کے خلاف اقدامات، جنوبی افریقہ کی عالمی عدالت میں درخواست، ترکی و عرب دنیا کی شدید مخالفت اور اب اسرائیل کا تعمیر نو کے بدلے جنگ بندی کی کوشش کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو ماضی میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے تھے، اب خود جنگ کے نتائج سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

حماس نے اسرائیل کے 10 قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی

فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سینئر رہنما طاہر النونو نے اعلان کیا ہے کہ حماس نے اسرائیل کے 10 قیدیوں کو غزہ میں رہائی دینے کی منظوری دے دی ہے، تاکہ انسانی امداد کی روانی کو یقینی بنایا جا سکے اور قابض اسرائیل کی درندگی کو روکا جا سکے۔

طاہر النونو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حماس قطر میں جاری مذاکرات میں انتہائی لچک دکھا رہی ہے اور ثالثوں کے ساتھ تعاون کر رہی ہے، حالانکہ ان مذاکرات کو شدید چیلنجز درپیش ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حماس کا موقف ہر حال میں مستحکم ہے، کسی بھی معاہدے کی بنیاد اسرائیل کا غزہ سے مکمل انخلاء اور جنگ بندی کا جامع نفاذ ہے۔

یہ بھی پڑھیے اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ، حماس معاہدہ قبول کرے: ٹرمپ

طاہر النونو نے مزید کہا کہ عالمی ضمانتیں ناگزیر ہیں، خاص طور پر امریکا کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی طاقت موجود ہے، اگر سیاسی ارادہ ہو تو۔ ان کے مطابق، جنگ بندی کا نفاذ صرف امریکا کی سیاسی مرضی سے ممکن ہے، کیونکہ امریکا اسرائیل کو ہر طرح کے اسباب فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ جنگ جاری رہتی ہے۔

حماس کے موقف کے مطابق، مذاکرات کا مرکز فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کے اعلیٰ ترین مقاصد ہیں، جو ہر فیصلہ اور مفاہمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ طاہر النونو نے بتایا کہ حماس نے انسانی المیہ کو روکنے اور فلسطینیوں کی عزت و وقار کے ساتھ امداد کی مکمل فراہمی کے لیے مذاکرات میں نرمی کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ درندگی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

مذاکرات میں 2 اہم مسائل زیر بحث ہیں:

اولاً، انسانی امداد کی مکمل بحالی بغیر اسرائیلی مداخلت کے، تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری نقل مکانی کو روکا جا سکے۔

ثانیاً، اسرائیلی فوج کی وہ پہلی انخلاء لائن قائم ہوجائے، جس سے فلسطینیوں کی زندگی اور مستقبل پر کوئی منفی اثر نہ پڑے اور جو دوسری مرحلے کی مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔

یہ بھی پڑھیے اسرائیل غزہ سے نکل جائے، جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے معاہدے پر تیار ہیں، حماس

النونو نے واضح کیا کہ جنگ بندی اور اسرائیل کا مکمل انخلا حماس کے کسی بھی معاہدے کی بنیادی شرط ہے۔ ان کے مطابق، ابتدائی معاہدہ 60 دنوں کا ہوگا جس میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کا انخلا شامل ہوگا، جو بعد میں مکمل معاہدے کی راہ ہموار کرے گا۔

واضح رہے کہ یہ مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ طور پر جاری ہیں، جس کا مقصد 2023ء کے اکتوبر سے جاری فلسطینیوں کی خون ریزی کو روکنا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل حماس غزہ قیدیوں کی رہائی

متعلقہ مضامین

  • یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ جنگ بندی کے لیے حالات سازگار ہیں: اسرائیلی آرمی چیف
  • اسرائیل غزہ میں مسقتل جنگ بندی پر بھی آمادہ، شرائط کیا رکھی ہیں؟
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے حالات سازگار ہیں،اسرائیلی آرمی چیف
  • حماس نے اسرائیل کے 10 قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی
  • حماس کی مستقل جنگ بندی کے بدلے 10 قیدیوں کی رہائی کی پیشکش
  • حماس نے 10 یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی
  • غزہ میں جنگ بندی کے لیے حالات سازگار ہیں: اسرائیلی آرمی چیف
  • قطر: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کیلیے مذاکرات جاری
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ کے زیر قبضہ علاقے کا زیادہ تر حصہ خالی کرنے پر اظہار آمادگی