مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں ٹکٹس کن کن وزرا کے خاندانوں میں بانٹیں؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے ن لیگ نے ٹکٹیں تقسیم کر دی ہیں۔
9 مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے فسادات میں ملوث اراکین کو انسدادِ دہشت گردی عدالتوں نے سزائیں سنائیں اور بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیے: 9 مئی سمیت دیگر کیسز میں قومی اسمبلی کے 8 ارکان کی نااہلی، عمر ایوب اپوزیشن لیڈر نہیں رہے
ان میں عمر ایوب، شبلی فراز، زرتاج گل سمیت کئی رہنما شامل تھے۔ ان نااہلیوں کے باعث قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں خالی نشستیں پیدا ہوئیں۔ ای سی پی نے ان خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا اعلان کیا، تاہم سیلاب اور قانونی پیچیدگیوں کے باعث شیڈول میں تاخیر ہوئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے ان ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ انتخابات دھاندلی زدہ ہوں گے، جبکہ مسلم لیگ (ن) انہیں ‘مومنٹم بلڈنگ’ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
اکتوبر 2025 کے آخری ہفتے میں مسلم لیگ (ن) نے آئندہ ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا۔ پارٹی کی جانب سے جاری کی گئی فہرست نے ن لیگ کی موروثی سیاست کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ یہ اعلان نہ صرف انتخابی حکمتِ عملی کا حصہ ہے بلکہ ایک بار پھر پارٹی کے اندر خاندانی روابط کو ’میرٹ‘ پر فوقیت دینے کا مظاہرہ بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: الیکشن کمیشن نے ممبر قومی اسمبلی عبداللطیف چترالی کو نااہل قرار دیدیا
نیشنل اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے متعدد حلقوں کے لیے جاری کیے گئے ٹکٹس میں سابق وزرا، مشیروں اور اراکین کے اہلِ خانہ اور قریبی رشتہ داروں کو واضح برتری دی گئی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام پارٹی کی ‘ڈائناسٹی پالیٹکس’ کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔
ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ اور فیصل آباد جیسے حلقوں میں مزید خاندانی امیدواروں کو ٹکٹس دیے گئے ہیں، جو اس رجحان کو مزید واضح کرتے ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیمن لیگ کی مرکزی سیکریٹریٹ کی جانب سے 25–26 اکتوبر کو جاری کردہ فہرست میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے 11 قومی و صوبائی حلقوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ ان ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے ان افراد کو ٹکٹس دیے جن کے بھائی یا قریبی رشتہ دار اس وقت وفاقی وزیر ہیں یا رہ چکے ہیں۔
این اے-96 فیصل آباد: بلال بدر چوہدری، وفاقی وزیر مملکت طلال چوہدری کے بھائی۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے سابق ایم این اے رائے حیدر علی خان کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی، جو 9 مئی کیس میں سزا یافتہ ہیں۔ این اے-104 فیصل آباد: راجہ دانیال ریاض، سابق وزیر راجہ ریاض کے بیٹے۔ پی پی-116 فیصل آباد: رانا احمد شہریار، وزیراعظم کے مشیر رانا ثناءاللہ کے داماد۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے محمد اسماعیل کی سزا کے بعد خالی ہوئی۔ این اے-66 وزیرآباد: بلال فاروق تارڑ، وفاقی وزیر قانون عطااللہ تارڑ کے بھائی۔ این اے-143 ساہیوال: محمد طفیل جٹ، اور پی پی-203 ساہیوال: محمد حنیف جٹ، دونوں بھائی ہیں۔ ن لیگ نے ان حلقوں میں مقامی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جٹ برادران کو ٹکٹس دیے۔ پی پی-73 سرگودھا: سلطان علی رانجھا، سابق صوبائی وزیر میاں مناظر رانجھا کے بیٹے۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے انصار اقبال کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی۔ این اے-18 ہری پور: بابر نواز خان، سابق وفاقی وزیر اعظم اختر نواز خان کے بیٹے۔ پی پی-98 فیصل آباد: آزاد علی تبسم، سابق ایم پی اے، جنہیں سیاسی خاندانی پس منظر کے باعث ٹکٹ دیا گیا۔ یہ نشست پی ٹی آئی کے شاہد جاوید کی سزا کے بعد خالی ہوئی۔ این اے-185 ڈیرہ غازی خان: محمود قادر لغاری، لغاری قبیلے کے بااثر رہنما اور سابق ایم پی اے۔ ن لیگ نے قبیلائی حمایت کے پیشِ نظر لغاری خاندان کو ترجیح دی۔ پی پی-269 مظفرگڑھ: اقبال خان پتافی، مقامی سیاسی خاندان کے رکن، جو 2024 کے انتخابات میں بھی فعال رہے۔ پی پی-115 فیصل آباد: محمد طاہر پرویز، سابق رکنِ پنجاب اسمبلی، جنہیں خاندانی سیاسی نیٹ ورک کی بنیاد پر ٹکٹ دیا گیا۔ ن لیگ کی پالیسی اور جمہوری اصولسیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی یہ پالیسی بظاہر پارٹی کو اندرونی طور پر مستحکم کر رہی ہے، لیکن جمہوری اصولوں کو کمزور کر رہی ہے۔ ’یوتھ ونگ‘ اور نئے چہروں کو نظرانداز کرتے ہوئے خاندانی امیدواروں کو ترجیح دینا، 2024 کے عام انتخابات کی طرح، ووٹرز میں مایوسی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ٹکٹوں کی تقسیم، تنازعے کو ختم کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کیا کررہی ہے؟
فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور مظفرگڑھ میں قبیلاتی خاندانوں کو شامل کرنا ن لیگ کی روایتی حکمتِ عملی کو ظاہر کرتا ہے، جہاں مقامی طاقت کے مراکز کو برقرار رکھنا ترجیح دی جاتی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی غیر موجودگی ن لیگ کو آسان فتح فراہم کر سکتی ہے، جو آئندہ عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرے گی۔
تاہم، یہ ضمنی انتخابات پاکستانی سیاست میں موروثیت اور نااہلیوں کے اثرات کی ایک جھلک ہیں، جہاں خاندانی اجارہ داری بدستور قائم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن ٹکٹ ضمنی انتخابات ن لیگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن ٹکٹ ضمنی انتخابات ن لیگ یہ نشست پی ٹی آئی کے کے بعد خالی ہوئی ضمنی انتخابات وفاقی وزیر کی نااہلی فیصل آباد مسلم لیگ ن لیگ نے ن لیگ کی کے لیے
پڑھیں:
ممکن ہے صدارتی انتخابات پھر سے لڑوں، سابق امریکی نائب صدر کاملا ہیرس
امریکا کی سابق نائب صدر کاملا ہیرس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایک بار پھر وائٹ ہاؤس کی دوڑ میں شامل ہو سکتی ہیں۔
بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں ہیرس نے کہا، میں ابھی ختم نہیں ہوئی، اور ممکن ہے کہ ایک دن صدر بنوں۔ یہ ان کا اب تک کا سب سے واضح اشارہ ہے کہ وہ مستقبل میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے پر غور کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ کا کملا ہیرس اور ہیلری کلنٹن سے سیکیورٹی کلیئرنس واپس لینے کا اعلان
کاملا ہیرس نے 2024 کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، جب صدر جو بائیڈن نے انتخابی مہم سے صرف 107 دن قبل دستبردار ہو کر ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اپنی کتاب 107 ڈیز میں ہیرس نے بائیڈن کے فیصلے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور کہا کہ نظام کو اندر سے بدلنا ممکن نہیں۔
انٹرویو میں ہیرس نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بھانجیاں اپنی زندگی میں ایک خاتون صدر ضرور دیکھیں، اور جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود ہو سکتی ہیں، تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا، ممکن ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا صدارتی انتخابات کاملا ہیرس