وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت معیشت کی بہتری کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات پر تیزی سے عمل کر رہی ہے اور پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنایا جائے گا۔

لاہور میں آل پاکستان چیمبرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جنوری تک قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق کمیٹی کو دوبارہ بلا کر پیش رفت کی جائے گی، جبکہ چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے ساتھ مثبت اور تعمیری ماحول میں بات چیت ہوچکی ہے۔

وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف سے اسٹرکچرل ریفارمز پر بات جاری ہے اور سرکاری ملازمین و پارلیمنٹرینز کے اثاثے عوام کے سامنے لانے کے لیے پہلے ہی قانون سازی مکمل کی جاچکی ہے۔

تنخواہ دار طبقے پر جو بوجھ پڑا ہے ہمیں اس کا احساس ہے۔ لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ ڈنڈے کے زور پر تو یہ ڈنڈا نہیں ہے، ملک تو چلانا ہے نا۔ Private Sector has to lead the country، محمد اورنگزیب pic.

twitter.com/kX9OXRnLcb

— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) December 13, 2025


ان کے مطابق یہ کوئی اضافی شرط نہیں بلکہ شفافیت کے فروغ کے لیے عملی اقدام ہے، اور تمام سول سرونٹس و پارلیمنٹرینز کے اثاثے ہر سال 31 دسمبر کو ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گے۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات، ٹیکس نیٹ میں توسیع اور خودکار نظام کے نفاذ سے شفافیت اور اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ موجود ہے، تاہم حکومت نان کمپلائنس سیکٹر کے خلاف کارروائی کر کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت کی قیادت نجی شعبے کو کرنی ہے، نوکریاں پیدا کرنا حکومت نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کا کردار ہے، اسی لیے اسٹارٹ اپس، نوجوان کاروباری افراد، ڈیجیٹل اکانومی اور ای کامرس کو فروغ دینا حکومتی ترجیح ہے۔

وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کو بند کیا جا رہا ہے جبکہ اسٹریٹیجک ذخائر نجی شعبے کے ذریعے رکھے جائیں گے، انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی کی گئی ہے اور 24 ادارے نجکاری کمیشن کے حوالے کیے جاچکے ہیں، جبکہ قومی ایئر لائن کی نیلامی 23 دسمبر کو متوقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو ایکسچینجز کو لائسنس دینے کے معاہدے سے بھی معیشت میں بہتری آئے گی، کیونکہ ڈھائی کروڑ سے زائد پاکستانی، جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، کرپٹو کاروبار سے وابستہ ہیں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ مہنگائی فی الحال قابو میں ہے، اصلاحاتی اقدامات سے معاشی اعشاریے بہتر ہوئے ہیں اور سرمایہ کاروں و تاجروں کا اعتماد بحال ہونے سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ اگلے سال کا پالیسی ساز بجٹ ایف بی آر نہیں بنائے گا، اور ہر شعبے کو برآمدات بڑھانے کے لیے متحرک ہونا ہوگا، اس مقصد کے لیے ٹیکس پالیسی آفس تاجر برادری سے 24 گھنٹے رابطے میں رہے گا، جبکہ لاہور چیمبر میں کراچی کی طرز پر ریسرچ سیل قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: محمد اورنگزیب کے لیے

پڑھیں:

عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے والی پالیسی ناکام ہو چکی ‘ شاہد رشید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (کامرس ڈیسک) معروف تاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔مثبت اور قابلِ عمل پالیسیاں اپنائی جائیں اور لاڈلی اشرافیہ پر بھی معاشی بوجھ ڈالا جائے۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ مراعات یافتہ گروہ صنعتی ترقی اور معاشی مساوات کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس لیے اس نے اصلاحات کے عمل کو روکا ہوا ہے اور ملک میں صنعتکاری کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ بے رحم اشرافیہ کبھی بھی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دے گی کیونکہ طاقتور طبقات صحت، تعلیم، روزگار اور معاشی ترقی کو اپنے اقتدار اور مراعات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔مسلسل مہنگائی، سخت ٹیکس اقدامات اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے تاجروں، صنعتکاروں اور عام صارف کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب ملک میں صنعتکاری نہیں ہو گی تو ٹیکس، روزگار اور برآمدات کیسے بڑھیں گی۔توانائی کی قیمتوں، ٹیکس ایڈمنسٹریشن، اور مسلسل پالیسی تبدیلیوں سے تنگ آ کر مقامی سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہے ہیں یا اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں۔ کاروبار کا غیر یقینی ماحول اور غیر دوستانہ ٹیکس سسٹم اس رجحان کو مزید بڑھا رہا ہے۔اگرچہ سرکاری حکام سخت مالیاتی اقدامات کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ضروری قرار دیتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم و ضبط صرف کمزور طبقوں اور چھوٹے کاروباروں تک محدود نظر آتا ہے جبکہ بڑے گروہوں کو استثنیٰ حاصل رہتا ہے۔ آئی ایم ایف کی وہی باتیں مانی جاتی ہیں جس کی اجازت اشرافیہ دیتی ہے۔شاہد رشید بٹ نے خبردار کیا کہ اگر صنعتی شعبے کو فوری ریلیف نہ دیا گیا تو نہ صرف روزگار کے مواقع مزید کم ہوں گے بلکہ درآمدی انحصار بھی بڑھے گا جس سے زرمبادلہ کا دباؤ اور مہنگائی مزید بڑھ جائے گی جس سے وہ گھریلو صارفین بنیادی جو اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں فاقے کرنے لگیں گے۔

کامرس ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • سرکاری ملازمین کے اثاثے پبلک کرنے سے متعلق قانون سازی کر چکے: وزیر خزانہ
  • وزیراعظم کی معاشی ٹیم کی محنت اور کاوشوں سے بدعنوانی میں نمایاں کمی آئی:محمد اورنگزیب
  • اصلاحاتی اقدامات سے معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی؛ محمد اورنگزیب
  • وزیراعظم شہباز شریف کا ریگولیٹری اصلاحات کے نئے فریم ورک کا اعلان
  • سندھ حکومت کا زرعی شعبے کی ترقی کیلئے جامع اصلاحات کا اعلان
  • پنجاب حکومت سے مذاکرات کامیاب، ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال فوری ختم کرنے کا اعلان کردیا
  • ٹرانسپورٹرز اور پنجاب حکومت میں مذاکرات کامیاب، ہڑتال ختم کرنے کا اعلان
  • عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے والی پالیسی ناکام ہو چکی ‘ شاہد رشید
  • گلوبل ڈویلپمنٹ فنانس کانفرنس میں شرکت کیلئے وزیر خزانہ سعودی عرب روانہ