سعودی عرب کا نیوم اسکائی اسٹیدیم دنیا کو حیران کردے گا
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سعودی عرب دنیا کا پہلا اسکائی اسٹیڈیم بنانے کی تیاری کر رہا ہے، جسے نیوم اسٹیڈیم کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منفرد منصوبہ زمین سے تقریباً 350 میٹر، یعنی 1,150 فٹ، کی بلندی پر ہوا میں معلق ہوگا اور اس میں 46 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔ اسٹیڈیم کو شمسی اور ہوا کی توانائی سے چلانے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی رپورٹس کے مطابق نیوم اسٹیڈیم صرف کھیلوں کا مقام نہیں بلکہ ایک ثقافتی، تفریحی اور سماجی مرکز بھی ہوگا۔ یہاں مردوں اور خواتین کے پیشہ ور فٹبال کلبز موجود ہوں گے، جبکہ سال بھر مختلف عالمی ایونٹس منعقد کیے جائیں گے۔
منصوبے کے مطابق اس کی تعمیر 2027 میں شروع ہوگی اور 2032 میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔ یہ اسٹیڈیم 2034 کے فیفا ورلڈ کپ کے میچوں کی میزبانی بھی کرے گا۔ یہ منصوبہ نیوم شہر کے ’دی لائن‘ پروجیکٹ کا حصہ ہے، جو ایک جدید اور پائیدار طرزِ زندگی پر مبنی شہر کی تعمیر کا وژن رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی 2034 ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے درخواست فیفا کی جانب سے منظور ہونے والا پہلا اقدام ہے، جو ملک کے عالمی کھیلوں میں بڑھتے اثر و رسوخ کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب 2034 ورلڈ کپ کے لیے 15 نئے اسٹیڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جن میں ریاض کا کنگ سلمان انٹرنیشنل اسٹیڈیم بھی شامل ہے، جس کی گنجائش 92,760 افراد ہوگی اور یہ 2029 تک مکمل ہوگا۔
ماہرین کے مطابق نیوم اسکائی اسٹیڈیم جدید اور پائیدار فنِ تعمیر کی ایک شاندار مثال ہوگا، تاہم اس کی بلندی اور مقام کی وجہ سے انجینئرنگ کے کئی چیلنجز درپیش ہیں جن کے لیے نئے تکنیکی حل تلاش کیے جا رہے ہیں۔ یہ اسٹیڈیم صحت اور تعلیم کے اداروں کے قریب بنایا جائے گا تاکہ کھیلوں پر مبنی ایک فعال اور صحت مند کمیونٹی کو فروغ دیا جا سکے۔
اس منصوبے کی تکمیل سے سعودی عرب میں سیاحت، سرمایہ کاری اور عالمی توجہ میں نمایاں اضافہ متوقع ہے، جو ملک کے وژن 2030 کے ترقیاتی اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے اس اسٹیڈیم کی مضبوطی اور حفاظتی پہلوؤں پر سوالات اٹھائے ہیں، جبکہ کئی ماہرین اسے کھیلوں کی دنیا میں ایک انقلابی اور تاریخ ساز قدم قرار دے رہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
فلائٹ میں دیا جانے والا کتنا خطرناک ہوتا ہے؟ کیبن کریو ممبر نے حیران کن انکشافات کردیے
بھارت سے تعلق رکھنے والی ایک ایئر لائن کی کیبن کریو ممبر نے انکشاف کیا ہے کہ وہ دورانِ پرواز مسافروں کو پیش کیا جانے والا کھانا خود نہیں کھاتے، بلکہ اپنے لیے علیحدہ طور پر گھر یا ریسٹورنٹ سے کھانا لے کر آتے ہیں۔
خاتون کریو ممبر کے مطابق فلائٹ کا کھانا صحت کے لیے موزوں نہیں ہوتا کیونکہ اس میں سوڈیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاز میں فراہم کیا جانے والا کھانا پرواز سے 24 سے 48 گھنٹے پہلے تیار کیا جاتا ہے۔ کھانا پہلے پکایا جاتا ہے، پھر ٹھنڈا کر کے فریز کیا جاتا ہے، بعد ازاں فلائٹ میں لوڈ کر کے ریفریجریٹر میں رکھا جاتا ہے اور مسافروں کو پیش کرنے سے قبل اسے اوون میں دوبارہ گرم کیا جاتا ہے۔
کریو ممبر نے مزید بتایا کہ اگر کوئی مسافر کہے کہ وہ اپنا کھانا کچھ گھنٹے بعد کھائے گا تو گرم شدہ کھانا دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتا اور اسے پھینکنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق اس کھانے کو دوبارہ گرم بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس صورت وہ خراب ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے زیادہ تر کیبن کریو ممبرز دورانِ پرواز فلائٹ کا کھانا کھانے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے ساتھ گھر کا تازہ پکایا ہوا یا باہر سے منگوایا ہوا کھانا لے جاتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
فضائی سفر فلائٹ میں کھانا کیبن کریو کیبن کریو کو دی جانے والی سہولیات