WE News:
2025-12-03@23:05:34 GMT

حماس نے 10 یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

حماس نے 10 یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر کر دی

حماس نے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جو غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں کا حصہ ہے، تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم کا کہنا ہے کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات سخت گیر اسرائیلی رویے کے باعث ’انتہائی مشکل‘ ثابت ہو رہے ہیں۔

حماس کی جانب سے یہ اعلان بدھ کے روز اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی حملوں میں غزہ میں کم از کم 74 افراد شہید ہوگئے، ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں جلد ہی جنگ بندی ممکن ہو سکے گی۔

#BREAKING Hamas says it agrees to release 10 Israeli hostages as part of ‘flexibility’ to reach Gaza ceasefire pic.

twitter.com/5d7MHTZMNz

— Anadolu English (@anadoluagency) July 9, 2025

حماس کے مطابق قطر اور امریکا کی ثالثی میں جاری مذاکرات میں کئی اہم نکات پر اختلافات موجود ہیں، جن میں فوری انسانی امداد کی فراہمی، اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی اور مستقل جنگ بندی کی واضح ضمانتیں شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عہدیدار طاہر النوعنو کا کہنا ہے کہ تنظیم نے حالیہ جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور اپنے عوام کو تحفظ دینے، نسل کشی کے جرم کو روکنے، اور امداد کی باعزت اور آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے مزید کہا کہ جنگ بندی کے ابتدائی مرحلے کے تحت اسرائیلی فوج کو کن علاقوں سے پیچھے ہٹنا ہے، اس کا تعین اس طرح کیا جانا چاہیے کہ فلسطینی عوام کی زندگی متاثر نہ ہو اور مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے لیے راہ ہموار ہو۔

دوسری جانب اسی ہفتے دو بار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات بہت اچھے ہیں، تاہم ان کے تازہ بیان میں کچھ احتیاط کا عنصر نمایاں تھا۔

’مجھے لگتا ہے اس ہفتے یا اگلے ہفتے تک ہمیں موقع مل سکتا ہے، یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جنگ اور غزہ جیسے مسائل میں یقین کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن امکانات بہت اچھے ہیں کہ کسی نہ کسی قسم کا معاہدہ جلد طے پا جائے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل حماس خیر سگالی غزہ مذاکرات یرغمالی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل خیر سگالی مذاکرات یرغمالی کے لیے

پڑھیں:

غزہ: قیامِ امن ہنوز تشنہ طلب کیوں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251202-03-2
غزہ میں قیامِ امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے جانے والے بیس نکاتی امن معاہدے کے تحت ہونے والی جنگ بندی کی باجود اسرائیل جس بڑے پیمانے پر معاہدے کی خلاف وزری کر رہا ہے، اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی طور اپنے جنگی جنون کو کم کرنے پر آمادہ نہیں، گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی غزہ امن منصوبے کی منظوری دی تھی، جس پر حماس نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور اسے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، خود ارادیت اور قومی مطالبات کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ حماس کا کہنا تھا کہ قرارداد اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی نوآبادیاتی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، غزہ کو فلسطینی جغرافیہ سے الگ کرکے اس پر غیر ملکی کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کو کسی طور قبول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مزاحمت ختم کی جاسکتی ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس دراصل قبضہ برقرار رکھنے والی فورس ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی، انسانی امداد اور تعمیر نو کو سیاسی بلیک میلنگ کا آلہ نہیں بننے دیا جائے گا، اور فلسطینی ریاست کی تشکیل، یروشلم کو دارالحکومت بنانے اور قبضے کے مکمل خاتمے کے بغیر کوئی بھی منصوبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے کی جو قرار داد منظور کی ہے اسے غزہ میں استحکام، تعمیر نو، اور امن کے لیے سنگ میل قرار دیا جارہا ہے مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے کے تحت ہونے والی جنگ بندی معاہدے کے باوجود نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل بمباری ہنوز جاری ہے، 10 اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیل غزہ پر 490 حملے کرچکا ہے، غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ان حملوں میں سیکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں، جبکہ پندرہ ہزار سے زائد عمارتیں تباہ و برباد کردی گئیں۔ الجزیرہ کے تجزیے کے مطابق پچھلے 52 دنوں میں 41 ایسے حملے ہوئے، جن میں بمباری، گولی باری اور گھروں کی توڑ پھوڑ شامل تھی، علاوہ ازیں غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں بھی مسلسل روکاٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے رفح کی سرنگوں میں محصور تقریباً دو سو حماس کے جنگجوئوں کو اسرائیل کسی طور محفوظ راستہ دینے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ حماس نے ثالثوں پر بھی زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو خطرے میں ڈالنے والے اس بحران کا حل تلاش کریں جس کے جواب میں مصری سیکورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ محفوظ راستے کے بدلے رفح میں موجود جنگجو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں اور وہاں موجود سرنگوں کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ انہیں تباہ کیا جا سکے تاہم حماس اور اس کے جنگجو کسی طور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں، حماس نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ’’دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں‘‘۔ جبکہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا کہنا ہے کہ 200 جنگجوؤں کے لیے تجویز کردہ معاہدہ غزہ بھر میں حماس کی فورسز کو غیر مسلح کرنے کے وسیع عمل کا ایک امتحان ہو گا۔ غزہ میں اسرائیل کے بہیمانہ حملے اور معصوم فلسطینیوں کو خاک وخون میں نہلانے کے عمل نے پوری دنیا میں اس کے خلاف شدید غم و غصہ اور رد عمل پیدا کیا، پوری دنیا کے امن پسند عوام نے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی بمباری کے خلاف مظاہرے کیے، اس صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے اپنی نیک نامی میں اضافے اور اسرائیل کو سفارتی محاذ پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے جس بیس نکاتی امن منصوبے کا اعلان کیا جس کی توثیق مسلم حکمرانوں اور بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کردی مگر اس کے باوجود پرنالا آج بھی وہیں گر رہا ہے، امن کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ خود واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کے منصوبے کو عملی نفاذ کے مرحلے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اہم ممالک سے فوجی شرکت حاصل کرنے میں دشواری اور فلسطینی عوام کے ساتھ ممکنہ جھڑپوں کا خوف اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ اخبار نے امریکی منصوبہ بندی سے واقف ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ یہ فورس تین بریگیڈز پر مشتمل ہو سکتی ہے، یعنی تقریباً 15 ہزار فوجی، جبکہ ایک دوسرے ذریعے نے تعداد 20 ہزار تک بتائی۔ تاہم تعیناتی کے تفصیلات، جنگ بندی کے اصول اور میدان میں ذمے داریاں ابھی تک غیر واضح ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ شریک ممالک کے حتمی فیصلے کے بعد لاجسٹک سپورٹ اور تربیت میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، جبکہ واشنگٹن کی امید ہے کہ 2026 کے آغاز پر تعیناتی شروع ہو جائے گی۔ لیکن ممکنہ ممالک کی فہرست ابھی تک غیر یقینی ہے اور کوئی پختہ وعدہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ 20 ہزار فوجیوں کا ذکر ان کی امن فورسز کی عمومی تیاری کو ظاہر کرتا ہے، یہ غزہ کے لیے کوئی برا وعدہ نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق غزہ پلان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، عالمی سطح پر انتظار اور مطلوبہ جوش و خروش کی کمی ہے، جس سے ٹرمپ انتظامیہ کے مقرر کردہ ٹائم لائن میں اس کے نفاذ کے امکانات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے امریکی صدر نے جو بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا وہ غزہ میں حقیقتاً امن کے قیام کا منصوبہ نہیں بلکہ وہ اسرائیل کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی، اسرائیل اپنے شہریوں کی عدم بازیابی پر سخت دبائو میں تھا، اور چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح اس کے یرغمالی رہا ہو جائیں، یہ امن کا موثر فریم ورک نہیں اسرائیلی مفادات کا تحفظ اور حماس کو کمزور کرنے کی سازش تھی، جس کی تائید بوجودہ کی گئی تھی، تاہم اس وقت بھی حماس نے ان نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا خودبین الاقوامی امور کے ماہرین بھی پہلے ہی خبردار کرچکے تھے کہ مجوزہ بیس نکاتی فامورلہ قیامِ امن کا ضامن نہیں ہوسکتا کیونکہ اس امن معاہدے میں فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت کا کوئی ذکر نہیں تھا، حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا، امن منصوبے کی ساری شقوں کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو پہنچ رہا تھا۔ کوشش کی گئی کہ کسی طرح نیتن یاہو کی سیاسی اور فوجی ضرورتوں کو پورا کردیا جائے اور اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب بھی رہے، آج اگر غزہ کے عوام مشکلات سے دوچار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ امریکا اور ان ثالثی ممالک کی مجرمانہ خاموشی ہے جو سیاسی دبائو اور اسرائیل کی بے جا حمایت کررہے ہیں، اگر امریکی صدر غزہ میں حقیقتاً قیامِ امن کے خواہاں ہیں تو انہیں اسرائیل کی فوجی امداد فوری طور پر بند کرنا چاہیے تاکہ معاہدے کا عملی نفاذ ممکن ہوسکے۔ مسلم حکمرانوں بالخصوص مصر، قطر اور ترکیہ کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور اسرائیل پر براہ راست دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے تاکہ غزہ کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور تعمیر نو کا آغاز ہوسکے۔

اداریہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سعودی عرب میں ہونیوالے مذاکرات بے نتیجہ ختم، جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق
  • غزہ پر اسرائیلی حملے جاری، صحافی سمیت 3 فلسطینی شہید
  • اسرائیل کی غزہ پر مکمل قبضے اورخصوصی فوجی آپریشن کی منصوبہ بندی
  • جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی  شہید
  • اسرائیل کی خصوصی فوجی آپریشن اور غزہ پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی
  • نیتن یاہو، ٹرمپ ٹیلیفونک رابطہ، حماس کو غیر مسلح کرنے پر تبادلہ خیال
  • غزہ: قیامِ امن ہنوز تشنہ طلب کیوں؟
  • آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل ہے‘ پوپ لیو
  • اسرائیلی فوج کا 40 سے زائد حماس جنگجو شہید کرنے کا دعویٰ
  • روس یوکرین جنگ بندی پر مزید بات چیت درکار ہے: مارکو روبیو