Express News:
2025-12-03@23:36:01 GMT

بلڈ شوگر کیسے ’’جلد‘‘کم کریں؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT

ہم جب بھی کاربوہائڈیٹ والی کوئی غذا مثلاً روٹی ، چاول، مکئی، آلو، دالیں، کیلا یا سیب کھائیں تو وہ معدے میں پہنچ کر گلوکوز میں بدل جاتی ہیں۔

یوں قدرتاً خون میں گلوکوز کی سطح بڑھتی ہے جسے عرف عام میں ’’بلڈ شوگر‘‘کہا جاتا ہے۔ یہی سطح کم کرنے کے لیے لبلبلہ انسولین ہارمون خارج کرتا ہے۔ گلوکوز انسان کے اربوں خلیوں کا بنیادی ایندھن ہے۔وہ اسی سے توانائی پاتے ہیں۔ خصوصاً دماغ کے خلیے (نیورون)تو گلوکوز لے کر ہی تازہ دم ہوتے اور اپنے کام انجام دیتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے، انسان مسلسل اور وقفے وقفے سے کاربوہائڈیٹ والی غذائیں کھاتا رہے تو خون میں گلوکوز کی سطح متواتر بلند رہتی ہے۔ یہ چلن معمول بن جائے تو انسان تھکاوٹ، سستی اور چڑچڑاپن محسوس کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ عمل اس کو ذیابیطس، گردے کی بیماری، امراض قلب حتیٰ کہ ڈیمنشیا یا بھلکڑ پن جیسے خطرات کا نشانہ بنا دیتا ہے۔خوشخبری یہ کہ آپ آج ہی چند سادہ قدم اٹھا کر بلڈ شوگر کی اپنی بلند و خطرناک سطح متوازن کر سکتے ہیں۔

 اضافے کی وجوہ

 کاربوہائیڈریٹس والا کھانا کھانے سے لبلبے میں دو اہم عمل جنم لیتے ہیں: اول فوری طور پر انسولین ہارمون اور دوم امیلن(amylin) نامی ہارمون کا اخراج۔انسولین تیزی سے گلوکوز کو خون سے نکال کر خلیوں میں منتقل کرتا ہے۔ یہ عمل چند منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ امیلنیہ بات یقینی بناتا ہے کہ کھانا بہت جلد چھوٹی آنت تک نہ پہنچے (جہاں زیادہ تر غذائیت جذب ہوتی ہے)۔ زیادہ تر وقت کھانے کے بعد خون کی شوگر میں اضافہ عارضی ہوتا ہے جو شاید آپ محسوس بھی نہیں کرتے۔

لیکن کاربوہائیڈریٹس غذائیں زیادہ کھانے والوں اور ذیابیطس کے مریضوں میں یہ معمول خراب ہو جاتے ہیں۔ ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں میں لبلبہ انسولین بناتا ہے مگر خلیے اسے ویسا جواب نہیں دیتے جیسا دینا چاہیے۔ یہ کیفیت انسولین مزاحمت (insulin resistance) کہلاتی ہے۔

چونکہ گلوکوز خلیوں میں نہیں جا تا، اس لیے خون میں اس کی سطح تیزی سے بڑھتی ہے۔ انسولین تھراپی کراتے ذیابیطس کے مریضوں میں (چاہے وہ ٹائپ 1 ہوں یا ٹائپ 2)بلڈ شوگر آہستہ آہستہ نیچے ہوتی ہے کیونکہ انسولین کو کام شروع کرنے میں 15 منٹ تک لگ سکتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں امیلن بالکل نہیں بنتا یا ناکافی مقدار میں بنتا ہے۔اس وجہ سے ان کا کھانا تیزی سے ہضم ہوتا ہے۔انسولین کے تاخیری اخراج اور تیز ہاضمے سے مریضوں میںبلڈ شوگر کی سطح کھانے کے فوراً بعد بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ جب انسولین اپنا اثر دکھاتی ہے، تبھی اس میں کمی آتی ہے۔

 اضافے کا صحت پر اثر

 کھانے کے بعد بار بار بلڈ شوگر میں اضافے سے خون میں گلوکوز سے متعلق ہیموگلوبین، HbA1c کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ یہ بلند سطح صحت کے دیگر مسائل کے خطرے بڑھاتی ہے۔مثلاً تحقیقات سے ثابت ہے،کھانے کے بعد بلڈ شوگر کی بلند سطح گردے کی بیماری لگاتی ہے ۔

ریٹینوپیتھی (آنکھوں کی بیماری) کے بڑھنے کی رفتار تیز کرتی ہے۔ اسی طرح ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں میںجب کھانے کے بعد بلڈ شوگر میں بار بار اضافہ ہو تو وہ دل کی بیماریوں کے زیادہ خطرے کا سامنا کر سکتے ہیں۔انسان کی دماغی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیںاور وہ بھلکڑ پن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دیگر مختصر مدتی مسائل میں تھکاوٹ، دماغی خرابی ( دماغی دھند یا "برین فاگ")، جسمانی صلاحیت میں کمی اور موڈ میں تبدیلی شامل ہیں۔

ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ جب ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح بلند رہے تو ان کے دماغی فنکشن اور موڈ پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس عمل سے معلومات پروسیسنگ کی رفتار، یادداشت اور توجہ کی بعض خصوصیات متاثر ہوتی ہیں۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ شرکا میں توانائی میں کمی آئی اور غم و پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔

بلڈ شوگر میں اضافہ روکنا

کھانے کے بعد بلڈ شوگر میں اضافہ کم کرنا دو طریقوں سے ممکن ہے: دوا کی انتظامی تدابیر اور غذائی تبدیلیاں۔ جو لوگ ذیابیطس کی دوا یا انسولین تھراپی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اپنے معالج یا ماہر ذیابیطس سے مشورہ کریں۔یقینی بنائیں کہ آپ بہترین علاج کروا رہے کہ اس سے بلڈ شوگر کو بخوبی کنٹرول کرنا ممکن ہے۔ تاہم دوا صرف ایک جزو ہے، بلڈ شوگر قابو کرنے کے لیے غذا اور جسمانی سرگرمی بھی بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔بلڈ شوگر کی سطح صحت مند رکھنے میں درج ذیل راہنمائی مدد دے گی:

(1) زیادہ گلیسیمک انڈیکس والی غذائیں محدود کریں

گلیسیمک انڈیکس (GI) پیمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی غذا بلڈ شوگر کتنی تیزی سے بڑھاتی ہے۔ GI اسکور 0 سے 100 تک ہوتا ہے۔ وہ غذائیں جن کا GI زیادہ ہو، عموماً پروسیس شدہ کاربوہائیڈریٹس اور شکروں سے بھرپور ہوتی ، بہت جلد ہضم ہو جاتی اور بلڈ شوگر کی سطح تیزی سے بڑھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیسٹری کا جی آئی 83 ہوتا ہے۔

کم GI والی غذائیں آہستہ آہستہ ٹوٹتی اور بلڈ شوگر دھیرے دھیرے بڑھاتی ہیں۔ فائبر، پروٹین یا صحت مند چکنائی سے بھرپور ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر سیب کا جی آئی 28 ہے اور پھلیوں کا صرف 7 ۔عام طور پر کم GI والی غذائیں زیادہ کھا کر بلڈ شوگر میں اضافہ کم کیا جا سکتا ہے۔

(2)زیادہ فائبر کھائیں

 ایک اور طریقہ یہ ہے کہ غذا میں زیادہ فائبر شامل کریں۔ ہاضمے میں مدد دینے اور کولیسٹرول کم کرنے کے علاوہ فائبر والی غذاؤں کے کاربوہائیڈریٹ آہستہ ہضم ہوتے ہیں۔یہ کھانے کے بعد بلڈ شوگر میں اضافہ روکتے ہیں کہ فائبر کو آنتوں میں ہضم ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس سے گلوکوز آہستہ آہستہ خون میں داخل ہوتا ہے۔فائبر کے اچھے ذرائع میں لوبیا،ثابت اناج اور پھل شامل ہیں۔ فائبر کی روزانہ مقدار بڑھانے سے کھانے کے بعد بلڈ شوگر قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

 (3) سمجھ داری سے غذاؤں کا ملاپ

بلڈ شوگر قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے وقت کھانے کی مجموعی ترکیب بھی بہت اہم ہے۔ یقینی بنائیں کہ کھانے اور اسنیکس میں کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور چکنائی کا مناسب توازن ہو۔اگر زیادہ کاربوہائیڈریٹس والے اجزا لیے جائیں تو خون میں شوگر تیزی سے بڑھتی ہے۔ پروٹین اور چکنائی کاربوہائیڈریٹس کے مقابلے میں آہستہ ہضم ہوتی ہیں۔ اس لیے کاربوہائیڈریٹس کو پروٹین یا چکنائی کے ساتھ کھانے سے ہاضمہ آہستہ ہوتا ہے۔یوں گلوکوز بھی آہستہ آہستہ خون میں داخل ہوتا ہے اور بلڈ شوگر مستحکم رہتی ہے۔

(4)کھانے کی مقدار کم کریں

کھانے کی مقدار کم کرنا بھی مددگار ہے۔ آپ جو کھانا کھاتے ہیں، اس کا بلڈ شوگر پر بہت اثر پڑتا ہے۔ کھانے کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے سے یہ مقدار کم ہو سکتی ہے۔ باقی ماندہ کھانے کو ایک یا دو گھنٹے بعد بطور اسنیک یا بعد میں کسی کھانے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔اس طرح آپ اپنی مجموعی کیلوریز کنٹرول میں رکھتے ہیں اور بلڈ شوگر کی سطح بھی قابو میں رہتی ہے۔

(5) کھانے کے بعد حرکت کریں

کھانے کے کچھ عرصے بعد کوئی جسمانی سرگرمی انجام دینا کئی طریقوں سے بلڈ شوگر کم کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو، وہ گلوکوز جو خون میں نہیں جا پاتا، جسمانی سرگرمی کے دوران پٹھوں کے استعمال میں آتا ہے۔یہ سرگرمی آنتوں سے خون کی روانی بھی کم کر دیتی ہے جس سے ہاضمہ سست رفتار ہوتا ہے۔ اگر آپ کھانے یا اسنیک کے بعد انسولین لیتے ہیں، تو جسمانی سرگرمی خون کی روانی بڑھاتی ہے۔اس سے انسولین جل جذب ہو کر کام شروع کر دیتی ہے۔

کھانے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح کم کرنے کے لیے زیادہ ورزش کی ضرورت نہیں ۔ ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ کھانے کے بعد صرف 15 منٹ کی سیر نے 24 گھنٹوں کی مدت میں گلیسیمک کنٹرول نمایاں طور پر بہتر بنادیا۔ اس کے علاوہ بلڈ شوگر کے سلسلے میں کھانے کے بعد ایک چھوٹی سیر 45 منٹ کی مسلسل سیر سے کہیں زیادہ مؤثر ہے کیونکہ یہ تین گھنٹے بعد کی بلڈ شوگر کم کرتی ہے۔ کچھ آسان طریقے جن سے آپ کھانے کے بعد حرکت کر سکتے ہیں:

٭… کھانے کے بعد طویل عرصہ بیٹھنے سے گریز کریں۔

٭… مطالعہ کرنے، ٹی وی دیکھنے یا کمپیوٹر پر کام کرنے سے بھی پرہیز کریں۔

٭… چلنے کے لیے باہر جائیں یا پالتو جانورکو سیر کرائیں۔

٭… کچھ گھریلو کام کریں۔

٭… خریداری کے لیے جائیں۔

٭… کھانے کے بعد کام کرتے وقت اسٹینڈنگ ڈیسک استعمال کریں۔

٭… کھانے کے بعد وہ ورزشیں کریں جو بلڈشوگر کم کرتی ہیں۔

(6) لو بلڈ شوگر نہ ہونے دیں

کھانے کے بعد بلڈ شوگر میں اضافہ روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خون میں کم گلوکوز کی حالت (ہائپوگلیسیمیا) نہ پیدا ہونے دیں جو لو بلڈ شوگر کہلاتی ہے۔زیادہ تر لوگوں میں ہائپوگلیسیمیا خون میں گلوکوز کی سطح 70 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر (mg/dL) سے کم ہونے کو کہا جاتا ہے۔اس کے عام اسباب میں زیادہ انسولین لینا، کھانے چھوڑ دینا، مناسب مقدار میں کھانا نہ کھانا یا معمول سے زیادہ ورزش کرنا شامل ہیں۔ہائپوگلیسیمیا کا ایک سائیڈ ایفیکٹ یہ ہے کہ یہ معدے کے خالی ہونے کی رفتار تیز کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب آپ کھانا کھاتے ہیں، تو وہ تیزی سے ہضم ہوتا ہے اور بلڈ شوگر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہائپوگلیسیمیا روکنا بلڈ شوگر میں اضافہ روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔

حرف آخر

غرض کھانے کے بعد بلڈ شوگر میں اضافہ کنٹرول کرنا تھوڑی سی منصوبہ بندی کے ساتھ ممکن ہے! خون میں گلوکوز کی سطح متوازن رکھنا آپ کو دن بھر زیادہ توانائی دیتا اور اس سے وابستہ پیچیدگیوں کے خطرے کم کرتا ہے۔اگر آپ اپنے خون میں HbA1c کی بڑھتی سطح یا بلڈ شوگر کنٹرول کے بارے میں فکر مند ہیں، تو اپنے ڈاکٹر سے تفصیلی بات کیجیے۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح ا ہستہ ا ہستہ والی غذائیں کر سکتے ہیں ہوتی ہیں ہوتا ہے کرنے کے تیزی سے کرتا ہے جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

1971 معرکہ کمال پور؛ لیفٹیننٹ محمد علی نے دشمن کو کیسے پھنسایا؟

سن 1971 میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر محدود وسائل کے باوجود پاکستان آرمی کے جوانوں نے ملک کے دفاع کو مقدم رکھا۔

مشرقی پاکستان کے علاقے کمال پور کی سرحد پر دشمن کی جانب سے وقتاً فوقتاً حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔

دُشمن بھارت نے دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی کی بٹالین سائز فورس کے ذریعے کمال پور میں واقع پاکستان آرمی کی بارڈ پوسٹ پر حملہ کیا۔ کمال پور کے دفاع کی ذمہ داری لیفٹیننٹ محمد علی کی قیادت میں بلوچ رجمنٹ، ویسٹ پاکستان رینجرز اور رضاکاروں کے پاس تھی۔

حملے کے آغاز پر لیفٹیننٹ محمد علی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جوانوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کا حکم دیا۔

لیفٹیننٹ محمد علی نے اپنی بہادری، حوصلے اور دانشمندی سے میدان جنگ میں دشمن کو اپنے کارگر فائری ہتھیاروں کی زد میں آنے تک فائر کو روکے رکھا، جب لیفٹیننٹ محمد علی کو یقین ہوگیا کہ دشمن مکمل طور پر پھنس چکا ہے تو آپ نے تمام موجود ہتھیاروں سے دشمن پر اچانک اور شدید حملہ کیا۔

لیفٹیننٹ محمد علی کی اس پیشہ ورانہ حکمت عملی کے پیش نظر دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان کے ساتھ پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

پاکستان آرمی کے اس بہادرانہ دفاعی حملے اور فائر ڈسپلن کے سبب دُشمن کے 120فوجی جہنم واصل اور متعدد زخمی ہوئے۔ دشمن کی 14مشین گنیں، راکٹ لانچرز، ریڈیو ٹرانسمیشن سیٹس اور 26رائفلوں سمیت کثیر مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی قبضہ میں لے لیا گیا۔

لیفٹیننٹ محمد علی کی داستانِ شجاعت تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جا سکے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بچہ گٹر میں کیسے گرا، مکمل حقائق سامنےآگئے
  • سردیوں میں نزلہ و زکام سے کیسے بچا جائے؟
  • اے آئی ایجنٹس سے کن افراد کی ملازمتوں کو خطرہ نہیں؟ ایمازون ویب سروسز کے سربراہ نے بتا دیا
  • سردی میں کھانسی کیوں ہوتی ہے؟ کیسے بچا جائے؟
  • انسانوں کو ایک ساتھ کھانا کھانے میں کیوں لطف آتا ہے؟
  • سردی میں مونگ پھلی کھانے کے بعد پانی پینے سے کیا ہوتا ہے؟
  • کراچی واقعہ، مین ہول کیسے کھلا؟ میئر کا وارٹر کارپوریشن کو تحقیقات کا حکم
  • کراچی واقعہ: مین ہول کیسے کھلا؟ میئر کا وارٹر کارپوریشن کو تحقیقات کا حکم
  • 1971 معرکہ کمال پور؛ لیفٹیننٹ محمد علی نے دشمن کو کیسے پھنسایا؟