غزہ: قیامِ امن ہنوز تشنہ طلب کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-2
غزہ میں قیامِ امن کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے جانے والے بیس نکاتی امن معاہدے کے تحت ہونے والی جنگ بندی کی باجود اسرائیل جس بڑے پیمانے پر معاہدے کی خلاف وزری کر رہا ہے، اس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی طور اپنے جنگی جنون کو کم کرنے پر آمادہ نہیں، گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی غزہ امن منصوبے کی منظوری دی تھی، جس پر حماس نے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور اسے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، خود ارادیت اور قومی مطالبات کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ حماس کا کہنا تھا کہ قرارداد اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی نوآبادیاتی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، غزہ کو فلسطینی جغرافیہ سے الگ کرکے اس پر غیر ملکی کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کو کسی طور قبول نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی مزاحمت ختم کی جاسکتی ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس دراصل قبضہ برقرار رکھنے والی فورس ہے۔ حماس نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی صورت اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی، انسانی امداد اور تعمیر نو کو سیاسی بلیک میلنگ کا آلہ نہیں بننے دیا جائے گا، اور فلسطینی ریاست کی تشکیل، یروشلم کو دارالحکومت بنانے اور قبضے کے مکمل خاتمے کے بغیر کوئی بھی منصوبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبے کی جو قرار داد منظور کی ہے اسے غزہ میں استحکام، تعمیر نو، اور امن کے لیے سنگ میل قرار دیا جارہا ہے مگر عملاً صورتحال یہ ہے کہ غزہ امن منصوبے کے تحت ہونے والی جنگ بندی معاہدے کے باوجود نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیل بمباری ہنوز جاری ہے، 10 اکتوبر سے لے کر اب تک اسرائیل غزہ پر 490 حملے کرچکا ہے، غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ان حملوں میں سیکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں، جبکہ پندرہ ہزار سے زائد عمارتیں تباہ و برباد کردی گئیں۔ الجزیرہ کے تجزیے کے مطابق پچھلے 52 دنوں میں 41 ایسے حملے ہوئے، جن میں بمباری، گولی باری اور گھروں کی توڑ پھوڑ شامل تھی، علاوہ ازیں غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں بھی مسلسل روکاٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب اسرائیل کے زیر قبضہ علاقے رفح کی سرنگوں میں محصور تقریباً دو سو حماس کے جنگجوئوں کو اسرائیل کسی طور محفوظ راستہ دینے کے لیے تیار نہیں، حالانکہ حماس نے ثالثوں پر بھی زور دیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو خطرے میں ڈالنے والے اس بحران کا حل تلاش کریں جس کے جواب میں مصری سیکورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ محفوظ راستے کے بدلے رفح میں موجود جنگجو اپنے ہتھیار مصر کے حوالے کریں اور وہاں موجود سرنگوں کی تفصیلات فراہم کریں تاکہ انہیں تباہ کیا جا سکے تاہم حماس اور اس کے جنگجو کسی طور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہیں، حماس نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ’’دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہتھیار ڈالنے اور خود کو حوالے کرنے کا تصور القسام بریگیڈز کی لغت میں موجود نہیں‘‘۔ جبکہ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا کہنا ہے کہ 200 جنگجوؤں کے لیے تجویز کردہ معاہدہ غزہ بھر میں حماس کی فورسز کو غیر مسلح کرنے کے وسیع عمل کا ایک امتحان ہو گا۔ غزہ میں اسرائیل کے بہیمانہ حملے اور معصوم فلسطینیوں کو خاک وخون میں نہلانے کے عمل نے پوری دنیا میں اس کے خلاف شدید غم و غصہ اور رد عمل پیدا کیا، پوری دنیا کے امن پسند عوام نے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی بمباری کے خلاف مظاہرے کیے، اس صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے اپنی نیک نامی میں اضافے اور اسرائیل کو سفارتی محاذ پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے جس بیس نکاتی امن منصوبے کا اعلان کیا جس کی توثیق مسلم حکمرانوں اور بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی کردی مگر اس کے باوجود پرنالا آج بھی وہیں گر رہا ہے، امن کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ خود واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کے منصوبے کو عملی نفاذ کے مرحلے میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اہم ممالک سے فوجی شرکت حاصل کرنے میں دشواری اور فلسطینی عوام کے ساتھ ممکنہ جھڑپوں کا خوف اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ اخبار نے امریکی منصوبہ بندی سے واقف ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ یہ فورس تین بریگیڈز پر مشتمل ہو سکتی ہے، یعنی تقریباً 15 ہزار فوجی، جبکہ ایک دوسرے ذریعے نے تعداد 20 ہزار تک بتائی۔ تاہم تعیناتی کے تفصیلات، جنگ بندی کے اصول اور میدان میں ذمے داریاں ابھی تک غیر واضح ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ شریک ممالک کے حتمی فیصلے کے بعد لاجسٹک سپورٹ اور تربیت میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، جبکہ واشنگٹن کی امید ہے کہ 2026 کے آغاز پر تعیناتی شروع ہو جائے گی۔ لیکن ممکنہ ممالک کی فہرست ابھی تک غیر یقینی ہے اور کوئی پختہ وعدہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ 20 ہزار فوجیوں کا ذکر ان کی امن فورسز کی عمومی تیاری کو ظاہر کرتا ہے، یہ غزہ کے لیے کوئی برا وعدہ نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق غزہ پلان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، عالمی سطح پر انتظار اور مطلوبہ جوش و خروش کی کمی ہے، جس سے ٹرمپ انتظامیہ کے مقرر کردہ ٹائم لائن میں اس کے نفاذ کے امکانات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے امریکی صدر نے جو بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیا تھا وہ غزہ میں حقیقتاً امن کے قیام کا منصوبہ نہیں بلکہ وہ اسرائیل کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی، اسرائیل اپنے شہریوں کی عدم بازیابی پر سخت دبائو میں تھا، اور چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح اس کے یرغمالی رہا ہو جائیں، یہ امن کا موثر فریم ورک نہیں اسرائیلی مفادات کا تحفظ اور حماس کو کمزور کرنے کی سازش تھی، جس کی تائید بوجودہ کی گئی تھی، تاہم اس وقت بھی حماس نے ان نکات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا خودبین الاقوامی امور کے ماہرین بھی پہلے ہی خبردار کرچکے تھے کہ مجوزہ بیس نکاتی فامورلہ قیامِ امن کا ضامن نہیں ہوسکتا کیونکہ اس امن معاہدے میں فلسطینیوں کے حق ِ خود ارادیت کا کوئی ذکر نہیں تھا، حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا، امن منصوبے کی ساری شقوں کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو پہنچ رہا تھا۔ کوشش کی گئی کہ کسی طرح نیتن یاہو کی سیاسی اور فوجی ضرورتوں کو پورا کردیا جائے اور اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب بھی رہے، آج اگر غزہ کے عوام مشکلات سے دوچار ہیں تو اس کی بنیادی وجہ امریکا اور ان ثالثی ممالک کی مجرمانہ خاموشی ہے جو سیاسی دبائو اور اسرائیل کی بے جا حمایت کررہے ہیں، اگر امریکی صدر غزہ میں حقیقتاً قیامِ امن کے خواہاں ہیں تو انہیں اسرائیل کی فوجی امداد فوری طور پر بند کرنا چاہیے تاکہ معاہدے کا عملی نفاذ ممکن ہوسکے۔ مسلم حکمرانوں بالخصوص مصر، قطر اور ترکیہ کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے اور اسرائیل پر براہ راست دبائو ڈالنا چاہیے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے تاکہ غزہ کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور تعمیر نو کا آغاز ہوسکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سلامتی کونسل امریکی صدر بیس نکاتی واضح کیا کرنے کی کے لیے امن کے اور اس
پڑھیں:
فوج غزہ بھیجنے کیلئے تیار، حماس کو کمزور کرنے کا حصہ نہیں بنیں گے: اسحاق ڈار
اسلام آباد (نیوزڈیسک) نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان غزہ میں قیامِ امن کے لیے مجوزہ بین الاقوامی فورس میں شرکت کے لیے فوج بھجوانے کے لیے تیار ہے لیکن حماس کو غیر مسلح کرنے یا فلسطینی مزاحمتی ڈھانچے کو کمزور کرنے کا حصہ نہیں بنے گا۔
میڈیا سے گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان واضح کر چکا ہے کہ غزہ میں امن فوج کی تعیناتی کے منصوبے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری حاصل ہونی چاہئے، ملائیشیا کو بھی آئی ایس ایف کے حماس کو غیر مسلح کرنے کے مجوزہ کردار پر اعتراض ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان غزہ امن فورس میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے تاہم اس سے پہلے اس کے ٹی او آرز، مینڈیٹ اور کردار کا واضح طور پر فیصلہ ہونا چاہئے جب تک ان عوامل کے بارے میں طے نہیں کر لیا جاتا تب تک پاکستان کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
واضح رہے کہ امریکہ کی ثالثی سے طے پانے والے غزہ امن معاہدے کا سب سے اہم جزو انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کا قیام ہے، جس میں بنیادی طور پر مسلمان اکثریتی ممالک کی افواج شامل ہوں گی، فورس کا مقصد جنگ بندی کو مستحکم کرنا، انسانی امداد کی مؤثر ترسیل کو یقینی بنانا اور غزہ میں انتظامی ڈھانچے کے فوری استحکام میں مدد فراہم کرنا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کا دفتر خارجہ کہہ چکا ہے کہ پاکستان بھی اس فورس کا حصہ بننے کا جائزہ لے رہا ہے تاہم معاملات ابھی ابتدائی مرحلے پر ہیں اور اس بارے میں ابھی کافی کچھ طے ہونا باقی ہے۔
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نے بتایا کہ انڈونیشیا نے بھی فوج غزہ میں بھیجنے کا عندیہ دیا تھا اور پاکستان نے بھی اپنی رضامندی ظاہر کی تھی، پھر یہ شوشا آیا کہ یہ انرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس حماس کو غیر مسلح کرے گی، ہم اس کے لیے تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا کام امن کا قائم رکھنا ہے، امن نافذ کرنا نہیں ہے، وزیر اعظم نے فیلڈ مارشل سے مشاورت کے بعد اصولی طور پر اعلان کیا ہے کہ ہم فورس دیں گے لیکن جب تک اس کا ٹی او آر اور مینڈیٹ کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا فوج بھیجنے کا فیصلہ بھی نہیں ہو سکتا۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ان کی خام خیالی ہے کہ چیزیں ٹھیک نہیں ہو سکتیں، ہم فوجی ایکشن کر سکتے ہیں، لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کہ بھائی کے گھر جا کر اور اندر جا کر گھس کر ماریں اور ان عناصر کو نکالیں، نکالنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگر ہم انڈیا کو سبق سکھا سکتے ہیں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔