Jasarat News:
2025-12-01@23:41:17 GMT

آئینی ترامیم، اصل فائدہ کس کا؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251202-03-5
دنیا بھر میں ریاستوں اور ممالک کا نظم و نسق چلانے کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ان کو پورے ملک کے خاص وعام پر یکساں نافذ کرکے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان بھی اس دنیا ہی کا ایک ملک ہے لیکن اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ اس ملک میں قوانین، آئین، دستور سب کچھ ہے لیکن ان سب چیزوں کا استعمال ملک کا نظم ونسق چلانے کے بجائے اس نام پر چند لوگوں اور مخصوص طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے، پاکستان کے آئینی سفر میں جو بھیانک اندھے موڑ آئے ہیں اور محض ایک شخص یا چند افراد کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں وہ شاید دنیا میں کہیں پیش نہیں آئے۔ امریکا جیسا ملک بھی اپنی دوسو سالہ تاریخ میں اب تک 27 ترامیم کرسکا ہے لیکن پاکستان صرف 78 برس میں امریکا کے برابر آگیا ہے۔ اور 27 ترامیم کے ذریعہ 350 سے زیادہ شقیں تبدیل کردی گئی ہیں۔ اگر پاکستانی آئین کا تیاپانچا کرنے کا تجزیہ کیا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن موٹا موٹا تجزیہ کریں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ پاکستان کا آئین جس کو کہا اور مانا جاتا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ 1947 سے چھبیس برس تک کیا پاکستان سرزمین بے آئین رہا۔ کوئی 1956 اور 62 کے دساتیر کا بھی ذکر کرسکتا ہے لیکن صحیح معنوں میں جس کو دستور کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973 ہی کا دستور ہے۔

1973 کے متفقہ منظور کردہ آئین پاکستان میں اب تک 27 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے دور میں ہوئیں یعنی 73 سے 77 کے دوران سات ترامیم عمل میں آئیں۔ تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ آٹھ ترامیم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہوئیں اور اگر مسلم لیگ کو سامنے رکھیں تو اس کا ریکارڈ سب سے زیادہ نکلے گا۔ بہر حال ترتیب یوں ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزیر اعظم عمران خان کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جبکہ ظفراللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی، حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم سے پہلے تک آئین پاکستان کی تین ترامیم، آٹھویں، سترہویں اور اٹھارہویں سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہیں، پہلی دو ترامیم کا تعلق تو غیر جمہوری صدور کے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا، آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جبکہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا، آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کے لیے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کے لیے باعث تقویت کہا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اختلافات شدید ہیں اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے بعض اختیارات ہی کو ملکی نظام میں عدم توازن کی بنیاد قرار دیا جارہا ہے، خصوصاً سندھ میں تعلیم، صحت اور بلدیات سے متعلق قوانین کے غلط استعمال نے نزاع پیدا کیا ہے۔ البتہ اٹھارہویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی بھی تصورکیا جاتا ہے۔ آئین میں ترامیم کب کب اور کیوں کی گئیں یہاں ان کا مختصر جائزہ لیا جارہا ہے۔ 1973 کے دستور کی منظوری کے بعد ایک سال سے کم مدت میں اس میں۔ پہلی ترمیم: 4 مئی 1974ء کو کی گئی آئین پاکستان میں اس پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974ء کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974ء کو نافذ ہوئی، اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔ دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974ء کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ترمیم ہے جس نے پاکستان سے برطانیہ اور امریکا تک ہیجان برپا کردیا، اور آج تک اس ترمیم کو چھیڑنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہیں، لیکن مذہبی مسلکوں، لسانی اور علاقائی گروہوں اور سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کے باوجود قوم ختم نبوت کے مسئلے پر متفق ہوجاتی ہے اور ایسی کوشش کو ناکام بنادیتی ہے۔ اس لیے اس ترمیم کے تحفظ کے لیے کوئی ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں نہ اٹھے تو بھی قوم اس کا تحفظ کرتی ہے۔

آگے چل کر اقتدار کو مضبوط کرنے اور عوام کے حقوق غصب کرنے والی ترامیم آنا شروع ہوگئیں ان میں آئین کی تیسری ترمیم بھی ہے جو 18 فروری 1975ء کو منظور ہوئی، اس ترمیم میں احتیاطی حراست کی مدت کو بڑھایا گیا۔ ’’preventive detention‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو نامعلوم مقام پر رکھنا جو ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہو۔ یعنی حکومت ہی فیصلہ کرے گی کہ کون ریاست کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث یے۔ جو حکومت مخالف ہے وہ لاپتا کیا جاسکتا ہے۔ چوتھی ترمیم: 21 نومبر 1975 کو کی گئی جس کی رو سے پارلیمان میں اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں کا از سر نو جائزہ لیا گیا اور انہیں پارلیمنٹ میں اضافی سیٹیں دی گئیں۔ پانچویں ترمیم: 5 ستمبر 1976 کو ہوئی اس کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالتوں کا اختیارِ سماعت وسیع کیا گیا۔ چھٹی ترمیم 22 دسمبر 1976 ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی مدت بالترتیب 62 اور 65 سال کی گئی۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کی کوشش میں ساتویں ترمیم: 16 مئی 1977ء کو منظور کی گئی، اس کے ذریعہ وزیر اعظم کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی وقت پاکستان کے عوام سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتا ہے۔ شاید یہ خوف کی نفسیات کی پہلی ترمیم تھی۔

ان سات ترامیم کے بعد 5 جولائی 1977 کو مضبوط کرسی، اور زیادہ اختیارات رکھنے والے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا اور گیارہ سالہ مارشل لا نے جگہ لے لی، لیکن بین الاقوامی برادری میں منہ دکھانے کے لیے نام نہاد جمہوریت تو لانا ہی تھی، چنانچہ غیر جماعتی انتخابات کروا کے اسمبلی بنائی گئی۔ اور اس اسمبلی سے آٹھویں ترمیم 11 نومبر 1985ء کو منظور کروائی گئی، اس موقع پر پاکستانی حکومت کا نظام پارلیمانی سے نیم صدارتی نظام میں تبدیل کیا گیا، جس کے تحت صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ ایک بار پھر نویں ترمیم کی ضرورت پڑی ملک بھر میں جنرل ضیا کو ان کا نظام مصطفی کا وعدہ یاد دلایا جارہا تھا تو 1985 ہی میں شریعہ لا کو ملک کے اعلیٰ قانون کا درجہ دیا گیا۔ یہ بات آج تک درجہ دینے سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ دسویں ترمیم 29 مارچ 1987 کو منظور کی گئی جس کے تحت پارلیمنٹ کے اجلاس کا دورانیہ مقرر کیا گیا کہ دو اجلاسوں کا درمیانی وقفہ 130 دن سے زیادہ نہیں ہو گا۔

اس کے بعد کی ترامیم مسلم لیگی اور بے نظیر ادوار میں کی گئیں۔ گیارہویں ترمیم: 1989ء کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کی گئیں۔ اس کے بعد مخالفین کے خلاف استعمال کے لیے بارہویں ترمیم: 1991 میں منظور ہوئی جس کے تحت سنگین جرائم کے تیز ٹرائل کے لیے خصوصی عدالتیں تین سال کے لیے قائم کی گئیں۔ اور یہ خصوصی عدالتیں ان ترامیم کو منظور کرنے والوں سمیت سب کے لیے آج بھی مشکل بنی ہوئی ہیں۔

ایک بار پھر سیاسی نظام مقتدر قوتوں کے مطلوبہ نتائج دینے سے قاصر ہوگیا تو تیرہویں ترمیم 1997 میں لائی گئی جس کے تحت صدر کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے اور وزیر اعظم کو ہٹانے کا اختیار ختم کیا گیا۔ پھر 3 جولائی1997 کو ارکان پارلیمنٹ میں کوئی نقص پائے جانے کی صورت میں ان کو عہدوں سے ہٹانے کا قانون بنایا گیا۔ اور چودھویں ترمیم منظور کی گئی۔ قیام پاکستان کے اصل مقصد نفاذ اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے پندرہویں ترمیم 1998 کے ذریعہ شریعہ لا کو نافذ کرنے کے بل کو پاس نہیں کیا گیا۔ سولہویں ترمیم 1999ء کے ذریعہ کوٹا سسٹم کی مدت 20 سے بڑھا کر 40 سال کی گئی۔ اس کام میں بھی عوام کی نمائندگی کے دعویدار اور کوٹا سسٹم کی مخالفت کی دعویدار ایم کیو ایم بھی شامل رہی۔

جنرل پرویز مشرف کو قوت دینے کے لیے سترہویں ترمیم 2003ء کے ذریعہ صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔ بعد میں نیم جمہوری ڈرامے کے دوران اٹھارہویں ترمیم بھی آگئی 8 اپریل 2010ء کو منظور کردہ اس ترمیم میں NWFP کا نام تبدیل کیا گیا، آرٹیکل 6 متعارف کروایا گیا اور صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ختم کیا گیا۔
(جاری ہے)

مظفر اعجاز سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے اختیارات میں اضافہ ا ئینی ترامیم ہوئیں ا ئین پاکستان پاکستان کی پہلی ترمیم پاکستان کے کے دور میں جس کے تحت سے زیادہ کے ذریعہ ترمیم کی کو منظور دیا گیا کی گئیں ہے لیکن جاتا ہے کیا گیا کے بعد کی گئی کے لیے

پڑھیں:

سندھ ہائیکورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ آ گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251202-1-9
کراچی(نمائندہ جسارت) سندھ ہائی کورٹ نے 27 ویں ترمیم اور آئینی عدالتوں کے ججز کی تقرری اور وفاقی آئینی ججز کو فریق بنانے کے نکتے پر دائر درخواست کے خلاف تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں ججز کو فریق بنانے کی استدعا مسترد کردی اور ججز سے متعلق ریمارکس بھی حذف کرنے کا حکم دیا۔تحریری حکم نامے میں لکھا گیا کہ درخواست گزار ججز کے نام نکال کر دس یوم میں ترمیمی درخواست جمع کروا سکتے ہیں، اگر مقررہ وقت میں ترمیمی درخواست جمع نہ ہوئی تو درخواست عدم پیروی پر طے کرنے کے لیے مقرر جائے گی۔عدالت نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار نے 27 ویں ترمیم کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری کو چیلنج کیا ہے،اگر جج کی تقرری کے خلاف درخواست قابلیت کی بنیاد پر ہو تو آئین کا آرٹیکل199(5) رکاوٹ نہیں ہے، درخواست میں ججز کی تقرری سے متعلق انکوائری کی استدعا نہیں کی ہے۔حکم نامے میں لکھا گیا کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ججز کی تقرری 27 ویں ترمیم کی بنیاد پر ہوئی،ججز کی تقرری پر اعتراض قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ 27 ویں ترمیم پر ہے،جب تک ترمیم موجود ہے ججز کی تقرری پر اعتراض نہیں بنتا۔عدالت نے لکھا کہ اِس پلیٹ فارم کو وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے خلاف بیانات کے لیے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے، درخواست قانونی نکات تک محدود ہونی چاہیے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سندھ ہائیکورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ آ گیا
  • 27ویں آئینیترمیم  پرا قوام  متحدہ  کو تشویش  بے جا‘ ہائی  کمشنر  کا بناں  زمینی  حقائق  کا عکاس  نہیں  : پاکستان  
  • 27 ویں آئینی ترمیم پر انسانی حقوق کمشنر کا بیان زمینی حقائق کا عکاس نہیں‘ دفتر خارجہ
  • آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کے اختیار میں نہیں، چیئرمین پیپلزپارٹی
  • پاکستان میں آئینی ترامیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرتی ہیں: وولکر ترک
  • یو این ہائی کمشنر کا 27ویں آئینی ترمیم پر بیان، پاکستان کا سخت موقف سامنے آگیا
  • ستائیسویں آئینی ترمیم
  • اقوام متحدہ: ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی پاکستان میں آئینی ترامیم پر تنقید
  • 27ویں آئینی ترمیم: قومی اسمبلی اجلاس پر فافن کی رپورٹ