Jasarat News:
2025-12-01@17:01:50 GMT

سندھ ہائی کورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, December 2025 GMT

سندھ ہائی کورٹ کا 27 ویں ترمیم کے حوالے سے اہم فیصلہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے 27 ویں ترمیم اور آئینی عدالتوں کے ججز کی تقرری اور وفاقی آئینی ججز کو فریق بنانے کے نکتے پر دائر درخواست کے خلاف تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں ججز کو فریق بنانے کی استدعا مسترد کردی اور ججز سے متعلق ریمارکس بھی حذف کرنے کا حکم دیا۔تحریری حکم نامے میں لکھا گیا کہ درخواست گزار ججز کے نام نکال کر دس یوم میں ترمیمی درخواست جمع کروا سکتے ہیں، اگر مقررہ وقت میں ترمیمی درخواست جمع نہ ہوئی تو درخواست عدم پیروی پر طے کرنے کے لئے مقرر جائے گی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار نے 27 ویں ترمیم کے ساتھ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری کو چیلنج کیا ہے،اگر جج کی تقرری کے خلاف درخواست قابلیت کی بنیاد پر ہو تو آئین کا آرٹیکل199(5) رکاوٹ نہیں ہے، درخواست میں ججز کی تقرری سے متعلق انکوائری کی استدعا نہیں کی ہے۔

حکم نامے میں لکھا گیا کہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ججز کی تقرری 27 ویں ترمیم کی بنیاد پر ہوئی،ججز کی تقرری پر اعتراض قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ 27 ویں ترمیم پر ہے،جب تک ترمیم موجود ہے ججز کی تقرری پر اعتراض نہیں بنتا۔عدالت نے لکھا کہ اِس پلیٹ فارم کو وفاقی آئینی عدالت کے ججز کے خلاف بیانات کے لئے استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے، درخواست قانونی نکات تک محدود ہونی چاہیے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ججز کی تقرری ویں ترمیم

پڑھیں:

زیر حراست ملزمان پر پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل پر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

اسلام آباد:

زیر حراست ملزمان پر پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل پر سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ  جاری کردیا۔

عدالت عظمیٰ نے پولیس کی زیر حراست ملزمان پر تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بڑا فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ تشدد، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک، جن میں ذاتی وقار کی پامالی شامل ہو، کسی بھی صورتِ حال میں جائز نہیں۔

7 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا۔ عدالت نے کہا کہ بعض اوقات پولیس کی جانب سے تشدد ماورائے عدالت قتل کا باعث بنتا ہے کیونکہ وہ عملی طور پر استثنا کے مفروضے کے تحت مبینہ مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس عمل کو روکنے کے لیے پولیس فورس پر مؤثر، خصوصی اور بیرونی نگرانی ناگزیر ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ زندگی کے حق کو سب سے اعلیٰ انسانی حق قرار دیا گیا ہے اور آئین ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ہر شہری کے حقِ زندگی کا تحفظ کرے اور حراستی تشدد اور قتل کو روکے۔ غیر قانونی حراست، گرفتاری، بربریت، تشدد اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف یہ آئینی ضمانتیں بنیادی اور قانونی اصولوں کی اساس ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ غیر قانونی حراست اور تشدد کسی بھی صورت میں نہ تو پسندیدہ ہیں اور نہ ہی قابلِ جواز۔ عدالت نے کہا کہ بنیادی حقوق کا اصول ایک محفوظ اور منصفانہ معاشرے کو یقینی بنانا ہے۔ پولیس فورس قانون کی محافظ ہے جو آئین میں درج بنیادی حقوق کے فریم ورک کو برقرار رکھنے کی پابند ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پولیس ہر شخص کی جان، آزادی اور وقار کے تحفظ کی ذمہ دار ہے اور جب کوئی سرکاری اہلکار قانون پر عمل کیے بغیر کسی شخص کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس سے نہ صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ شفاف ٹرائل کے حق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ پولیس کو قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو گرفتار کرنے کا حق حاصل ہے لیکن گرفتاری آئین و قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ آئینی و قانونی تقاضوں کے برخلاف گرفتاری، غیر انسانی رویہ اپنانا، ظلم یا تشدد کرنا نہ صرف مجرمانہ فعل ہے بلکہ مس کنڈکٹ میں بھی شمار ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق درخواست گزاران پنجاب پولیس کے ایک منظم ادارے کے اہلکار تھے جن کی ملازمت کی شرائط متعلقہ پولیس قوانین اور 1975 کے قواعد کے تحت ہیں۔ موجودہ کیس میں زریاب خان کی غیر قانونی حراست، بدسلوکی اور تشدد کے الزامات درخواست گزاران کے خلاف بطور پولیس اہلکار لگائے گئے تھے۔

عدالت نے کہا کہ زریاب خان کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے ذریعے درخواست گزاران نے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی اور ان کا یہ عمل اختیارات کے غلط استعمال کے مترادف ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکالنے کی محکمانہ کارروائیاں قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے اور ریاستی اداروں پر عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں، لہٰذا عدالت نے سزائیں برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کر دیں۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 10 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آرٹیکل کسی شخص کی گرفتاری اور حراست کے حوالے سے حفاظتی ضمانتیں فراہم کرتا ہے اور کوئی بھی گرفتار شخص اس وقت تک حراست میں نہیں رکھا جا سکتا جب تک کہ اسے اس کی گرفتاری کی وجوہات سے آگاہ نہ کر دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ گرفتار شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 14 کا بھی حوالہ دیا، جس کے مطابق انسان کی عزتِ نفس اور قانون کے تابع گھر کی پرائیویسی کی پامالی نہیں ہوسکتی۔

عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے 3 پولیس کانسٹیبلوں کی اپیلوں پر جاری کیا، جن پر زریاب خان نامی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھنے اور اسے قتل کرنے کا الزام تھا۔ نوکری سے برخاست کیے جانے کے فیصلے کیخلاف درخواست گزاروں نے پنجاب سروس ٹربیونل سے رجوع کیا، جہاں ان کی برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھا گیا۔  اس فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی۔

اس اہم کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: درختوں کی کٹائی سے متعلق درخواست پر پی ایچ اے کو نوٹس جاری
  • 27ویں آئینیترمیم  پرا قوام  متحدہ  کو تشویش  بے جا‘ ہائی  کمشنر  کا بناں  زمینی  حقائق  کا عکاس  نہیں  : پاکستان  
  • 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کیساتھ کھیلنے والے آگ سے کھیل رہے ہیں‘ بلاول
  • بلوچستان کی قومی شاہراﺅں پر پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر
  • آئینی ترمیم مسترد کرنا کسی عدالت کے اختیار میں نہیں، چیئرمین پیپلزپارٹی
  • یو این ہائی کمشنر کا 27ویں آئینی ترمیم پر بیان، پاکستان کا سخت موقف سامنے آگیا
  • پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل ہرگز جائز نہیں، سپریم کورٹ
  • زیر حراست ملزمان پر پولیس تشدد اور ماورائے عدالت قتل پر سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • سندھ ہائی کورٹ :ای چالان کیخلاف درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری