افغانستان پر حملے کی تیاری مکمل؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251202-03-3
24 نومبر 2025ء کو پشاور میں فرنٹیئر کانسٹیبلری (FC) کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ ہوا۔ کم از کم تین اہلکار شہید، پانچ زخمی۔ ذمے داری قبول کرنے والا گروپ جماعت الاحرار تھا، جسے فوراً تحریک طالبان پاکستان سے ’’منسلک‘‘ قرار دے دیا گیا۔ یہ وہی پرانا نسخہ ٔ کیمیا ہے جو کاونٹر ٹیررزم کے نام سے مشہور ہے: جس تنظیم کے خلاف کارروائی کرنی ہو، اسی طرز کا ایک نیا گروپ ایجنسیاں کھڑا کرتی ہیں، اس کے ہاتھوں دہشت گردی کروائی جاتی ہے، عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ اصل تنظیم کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو جائے۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کو کچلنے کے لیے بھی یہی حربہ آزمایا جا چکا ہے۔ جماعت الاحرار حقیقی گروہ ہے یا ایجنسیوں کی تخلیق؟ اس کی آزادانہ تحقیق ہونی چاہیے، مگر پاکستان میں تفتیشی صحافت دفن ہو چکی ہے۔
ہم یہی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ جب بھی ’’خودکش حملہ‘‘ کا لفظ سنائی دے تو سمجھ لیں یہ ایجنسیوں کا کھیل ہے۔ آپ نے کبھی کسی خودکش حملہ آور کی واضح تصویر نہیں دیکھی، نہ کبھی دکھائی جاتی ہے۔ خودکشی اسلام میں سخت حرام ہے۔ فلسطین جیسے انتہائی مخصوص حالات میں فدائی حملوں کے لیے علما نے اجتہاد کیا، مگر وہ جواز ہر جگہ فٹ نہیں ہوتا۔ حنفی مسلک، جو طالبان کا بھی اور پاکستان کی اکثریت کا بھی ہے، خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ طالبان لڑتے ہیں، شہید ہوتے ہیں، خودکش دھماکے نہیں کرتے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دھماکوں کے ساتھ وہ لوگ جن کی تصویر چھاپی جاتی ہے وہ کون ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں لاپتا افراد میں سے کسی کو اس بم کے ساتھ جھونک دیا جاتا ہو۔
پشاور حملے کے صرف دو دن بعد، 26 نومبر کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس سے دو بلاک کے فاصلے پر نیشنل گارڈ کے دو اہلکاروں پر ’’ٹارگٹڈ ایمبش‘‘ ہوا۔ بتایا گیا ہے کہ حملہ آور 29 سالہ افغان نژاد رحمان اللہ لکنوال تھا جو 2021 میں آپریشن ایلائز ویلکم کے تحت آیا اور رواں سال ریفیوجی اسٹیٹس ملا۔ رہائش واشنگٹن ریاست میں، یعنی واقعہ سے 4500 کلومیٹر دور۔ قاتل کو دور دراز سے ’’بلایا‘‘ گیا۔ سی آئی اے کا دعویٰ ہے کہ لکنوال افغانستان میں ان کے لیے کام کر چکا تھا۔ پاکستانی دفتر ِ خارجہ نے فوراً بیان دے دیا کہ امریکا میں فائرنگ اور تاجکستان میں ڈرون حملے کی ذمے داری افغان حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اسی دن ایک افغان ایکس اکاؤنٹ @TimesAFg1 نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قتل کر دیا گیا اور لاش باہر منتقل کر دی گئی۔ تقریباً ایک ماہ سے عمران خان سے کسی کو ملاقات نہیں کرائی جا رہی۔
یہ تینوں واقعات آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے ’’ہرگز نہیں‘‘ (Absolutely Not) کہہ کر افغانستان پر دوبارہ حملے اور شمالی پٹھانوں (جنہیں ٹی ٹی پی کا لیبل لگا دیا گیا) کے قتل ِ عام کے منصوبے میں شمولیت سے صاف انکار کیا تھا۔ یہی واحد بڑی وجہ تھی کہ انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا۔ جیل سے بھی ان کا پیغام وہی ہے: تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان دونوں سے مذاکرات کیے جائیں۔ مگر موجودہ مقتدرہ شروع دن سے لڑائی کے موڈ میں ہے۔ واشنگٹن کا حملہ افغان نژاد شخص کے ہاتھوں، حملہ آور کا سی آئی اے سے مبینہ تعلق، یہ ایک ممکنہ ’’مِنی 9/11‘‘ بن سکتا ہے جو افغانستان پر نئے امریکی حملے کا جواز فراہم کر دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی بگرام ائر بیس واپس لینے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ پیچھے پیچھے تیاریاں مکمل ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان نیا فوجی معاہدہ، سعودی ولی عہد کا F-35 اسکواڈرن خریدنے کا سودا (کیا یہ لڑاکا جہاز پاکستان افغانستان کے خلاف استعمال کرے گا؟)، تاجکستان میں تین چینیوں کی ہلاکت کا الزام بھی افغانستان پر لگا دیا گیا۔
مئی میں بھارت کے ساتھ جھڑپ کروا کر پاکستان کا پروفائل بلند کیا گیا، جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس لنچ پر بلایا گیا، ٹرمپ سے ملاقات کروائی گئی۔ یہ سب اتفاقیہ نہیں ہے۔ رواں سال (2025ء) پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے پابندیاں (UNSC Sanctions Committee) کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ اسی سلامتی کونسل کی بدمعاشی کی بدولت آج بھی افغان طالبان پر سخت پابندیاں عائد ہیں جن میں مالیاتی پابندیاں، سفری پابندیاں اور اسلحے کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی شامل ہے۔ پاکستان کے پاس بطور چیئرمین یہ مکمل اختیار موجود تھا کہ وہ اپنے برادر اسلامی پڑوسی ملک افغانستان کے حق میں کھڑا ہوتا، طالبان رہنماؤں سے یہ ظالمانہ پابندیاں ہٹواتا اور انہیں بین الاقوامی سطح پر قانونی تسلیم دلانے کی راہ ہموار کرتا؛ مگر افسوس کہ پاکستان نے ایسا کرنا گوارا نہ کیا۔ بلکہ الٹا اس چیئرمین شپ کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت اور انہیں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ پاکستان نے براہِ راست افغانستان پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ دوسری طرف 2025-2026 کے لیے پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے علاقائی انسدادِ دہشت گردی ادارے (Regional Anti-Terrorist Structure-RATS) کی بھی چیئرمین شپ سونپ دی گئی ہے، جس کا بنیادی مقصد علاقائی سطح پر شدت پسندی، دہشت گردی اور علٰیحدگی پسندی کے خلاف تعاون کو ترجیح دینا ہے۔ یہ دونوں عہدے پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع تھے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ حقیقی بھائی چارے کا ثبوت دیتا، مگر بدقسمتی سے ان مواقع کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکا اور پاکستان کا رشتہ کبھی دوستی کا نہیں رہا؛ یہ آقا اور غلام کا رشتہ ہے۔ 2001 سے لے کر اب تک پاکستانی فوج امریکا کی افغان جنگ لڑ رہی ہے۔ 2021 میں امریکی شکست کے بعد، اب وہی ہاری ہوئی جنگ وہ دوبارہ پاکستان کے کندھوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے نزدیک اسلام کی کوئی بھی سیاسی یا فوجی طاقت ’’دہشت گردی‘‘ ہے اور اس دہشت گردی کے خاتمے کا ٹھیکہ پاکستان کے پاس ہے۔ چوبیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے اور اربوں ڈالر انفرادی جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ جنگ ہمارے کالموں، نصیحتوں اور اداریوں سے ختم ہونے والی نہیں۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اب کسی کے ہاتھ سے بھی اٹھ سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افغانستان پر کہ پاکستان پاکستان کے دیا گیا کے خلاف کے ساتھ کے لیے حملہ ا
پڑھیں:
افغان طالبان ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں: ڈی جی آئی ایس پی آر
ویب ڈیسک: 25 نومبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی سینئر صحافیوں سے ملکی سلامتی کے امور پر تفصیلاً گفتگو، کہا 4 نومبر 2025 سے اب تک دہشتگردی کے خلاف 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے۔ ْان آپریشنز کے دوران 206 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، رواں سال ملک بھر میں 67023 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے،رواں سال صوبہ خیبرپختونخوا میں 12857 اور صوبہ بلوچستان میں 53309 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے۔
طیاروں کے سافٹ ویئر میں سنگین خرابی، عالمی پروازیں معطل
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے، خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں، پاک افعان بارڈ پر پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے، بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو، اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہونگے۔
اقرار الحسن وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں؟ شاید میں سیکنڈ لیڈی بن جاؤں: فراح اقرار
پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں، ایسی صورت حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے، دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں، اسکے برعکس ،افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کیلئے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں، اگر افغان بارڈر سے متصل علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں آپکو بمشکل مؤثر انتظامی ڈھانچہ دیکھنے کو ملتاہےجو گورننس کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔
اب ہر شہری کا موبائل فون کیمرہ سیف سٹی کا کیمرہ بن سکے گا
ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے جسکی سہولت کاری فتنہ آل خوارج کرتے ہیں، اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں آرہی ہیں یا غیر قانونی اسمگلنگ اور تجارت ہو رہی ہےتو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہےتو انہیں کس نے روکنا ہے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں، افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے، پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کریں، افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز اور القاعدہ ، داعش اور دہشتگرد تنظیموں کی قیادت موجود ہے۔
ریمبو سے شادی نہ کروانے پر صاحبہ نے خودکشی کی دھمکی دی تھی، نشو بیگم
وہاں سے انہیں اسلحہ اور فنڈنگ بھی ملتی ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے، ہم نے انکے سامنے تمام ثبوت رکھے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کر سکتے، پاکستان کا افغان طالبان رجیم سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں، اگر قابلِ تصدیق میکنزم تھرڈ پارٹی نے رکھنا ہے توپاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا، پاکستان کے اس موقف کی مکمل آگاہی ثالث ممالک کو بھی ہے۔
فتنہ الخوارج کے بارے میں طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ وہ پاکستانی ہیں، ہجرت کر کے آئے ہیں اور ہمارے مہمان ہیں غیر منطقی ہے، اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو ہمارے حوالے کریں، ہم انکو اپنے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے، یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں؟
یوم یکجہتی فلسطین: صدر مملکت اور وزیراعظم نے فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھنےکا عزم دہرادیا
SIGAR کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالرز کا امریکی فوجی ساز و سامان افغانستان چھوڑ گئی ہیں، افغان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے، افغانستان میں 2021 کے بعد ریاست اورحکومت کا قیام ہونا تھا جو ممکن نہ ہوسکا، طالبان رجیم نے اس وقت Non State Actor پالے ہوئے ہیں جو خطے کےمختلف ممالک کیلئے خطرہ ہیں۔
پاکستان کا مطالبہ واضح ہے کہ افغان طالبان کا طرز عمل ایک ریاست کی طرح ہونا چاہئے، دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری سے اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے کا وعدہ کیا مگر اس پراب تک عمل نہیں ہوا، افغان طالبان رجیم افغانیوں کا نمائندہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا، افغانستان کی 50 فیصد خواتین کی نمائندگی کا اس رجیم میں کوئی وجود نہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارا افغانیوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ ہے، پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے، خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے، ہمارے لئے اچھے یا برے دہشتگرد میں کوئی تفریق نہیں، ہمارے لئے اچھا دہشتگرد وہی ہے جو جہنم واصل ہو چکا، ہمیشہ حق باطل پے غالب آتا ہے، ہم حق پر ہیں اور حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے عمل کے تحت 2024 میں 366,704 جبکہ 2025 میں 971,604 افراد کو واپس بھیجا جاچکا ہے،صرف رواں ماہ یعنی نومبر کے دوران 239,574 افراد کو واپس بھیجا گیا، ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنےوالی قیادت کی اجارہ داری ہے، انڈین آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے آپریشن سندور کے دوران ایک ٹریلر دکھایا خود فریبی کی حامل سوچ کا عکاس ہے، جس ٹریلر میں سات جہاز گر جائیں, 26 مقامات پر حملہ ہو جائے اور ایس-400کی بیٹریاں تباہ ہو جائیں تو ایسے ٹریلر پر مبنی فلم ان کیلئے horror فلم بن جائے گی۔
سندور میں ہوئی شکست پر بار بار کے جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غم و غصے کو تحلیل کرنے کیلئے ہیں،کوئی بھی ملک اگرافغان طالبان رجیم کو فوجی سازو سامان مہیا کرتا ہے تو یہ دہشتگردوں کے ہاتھ ہی لگے گا، ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانےوالے X اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلتے ہیں، پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست اور دیگر معاملات میں زہر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا کے یہ اکاؤنٹس لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، یہ بات واضح ہے کہ جو سوشل میڈیا پاکستان میں چل رہا ہے درحقیقت اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، دہشتگردی پر تمام حکومتوں اورسیاسی پارٹیوں کا اتفاق ہےکہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے، اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلوچستان میں ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے- جبکہ خیبر پختونخوا میں اسکی کمی نظر آتی ہے۔
اس نظام کے تحت ضلعی ، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر سٹیرنگ، مانیٹرنگ اور implementation کمیٹیاں بنائی گئی ہیں،ایرانی ڈیزل کی سمگلنگ غیر قانونی سپیکٹرم کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے، اس مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشتگردی کے فروغ کیلئے استعمال کی جاتی ہے، ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ پر آرمی اور ایف سی اور صوبائی حکومت کے کریک ڈاؤن سے پہلے 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی یومیہ اسمگلنگ ہوتی تھی۔، یہ مقدار کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ پر آ چکی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ایران سے سمگل ہونے والے ڈیزل کی مد میں حاصل ہونے والی رقم بی ایل اے اور BYC کو جاتی ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث بلوچستان کے 27 ضلعوں کو پولیس کے دائرہ اختیار میں لایا جا چکا ہے جو کہ بلوچستان کا 86فیصد حصہ ہے، بلوچستان میں صوبائی حکومت اور سیکورٹی فورسز مقامی لوگوں سے مسلسل انگیجمنٹ کر رہے ہیں،اس طرح کی 140 یومیہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹ ہو رہی ہیں جسکے بہت دورس نتائج ہیں، ان حکومتی اقدامات کے بغیر دہشت گردی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔