ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی ثالث جنگ بندی کے معاہدے کو مکمل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، ہسپتال کے حکام نے  بتایا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 40 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے  کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ یہ ان کی دو دنوں میں دوسری ملاقات ہے۔
ٹرمپ جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جس سے غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اور حماس امریکی جنگ بندی کی ایک نئی تجویز پر غور کر رہے ہیں جس سے جنگ کو رکے گی، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی ملے گی اور غزہ میں انتہائی ضروری امداد بھیجی جائے گی۔
دوسری جانب خان یونس کے ناصر ہسپتال نے بتایا کہ مرنے والوں میں 17 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔ اور ایک حملے میں ایک ہی خاندان کے 10 افرادشہید ہوئے، جن میں تین بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیلی فوج نے ان حملوں کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن یہ کہا ہے کہ اس نے گذشتہ روز غزہ میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔
وسیع و عریض ساحلی علاقے المواصی میں، جہاں بہت سے لوگ بے گھر ہونے کے بعد عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، عبیر النجار نے کہا کہ انہیں مسلسل بمباری کے دوران اپنے خاندان کے لیے خوراک اور پانی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔
’میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ (جنگ میں) ایک وقفہ آ جائے، اور یہ ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے ایک یا دو مہینے جھوٹ بولیں، پھر وہی کرنا شروع کریں جو وہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہم مکمل جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘
امانی ابو عمر کا کہنا تھا کہ پانی کا ٹرک ہر چار دن بعد آتا ہے، جو ان کے پانی کی کمی سے دوچار بچوں کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہیں گرمی کی شدت سے جلد پر خارش کی شکایت تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے بے چین ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انہیں دوبارہ مایوس کیا جائے گا۔
’ہم نے کئی مواقع پر جنگ بندی کی توقع کی تھی، لیکن سب لاحاصل رہا۔‘
غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا۔ اس حملے میں 12 سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کے جوابی حملے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
امریکی صدر سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے منگل کو کیپیٹل میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کا اور ٹرمپ کا حماس کو تباہ کرنے کی ضرورت پر ’اتفاق‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی اس وقت اسرائیل کی 77 سالہ تاریخ میں سب سے بہتر ہے۔
دوسری ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اور ٹرمپ نے دو ہفتے قبل ختم ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی اور امریکی حملوں سے ایران پر ’عظیم فتح‘ پر بھی بات کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں امن کے دائرے کو بڑھانے اور ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کے مواقع موجود ہیں۔

Post Views: 7.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: رہے ہیں کے بعد کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ میں صیہونی فوج کے حملے، مزید 5 فلسطینی شہید
  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • اسرائیلی حملے، 24 گھنٹے میں مزید 5 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • غزہ میں اسرائیلی جنگی طیاروں، ٹینکوں کی دوبارہ بمباری