آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے تباہی ہوگی، نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطین میں دو ریاستی حل سے انکار کردیا۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کی ملاقات کے دوران صحافیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے دو ریاستی حل سے متعلق سوال کیا تو ٹرمپ نے سوال اسرائیلی وزیراعظم کی جانب موڑ دیا اور کہا کہ دو ریاستی حل کے سوال کا جواب دینے والا سب سے بہتر آدمی میرے سامنے موجود ہے۔
اس موقع پر صحافی کو جواب دیتے ہوئے نیتن یاہو نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل کو تباہ کرنے کا پلیٹ فارم ہوگی۔
اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو خود پر حکومت کرنے کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہئیں لیکن کوئی بھی ایسی طاقت نہ ہو جو ہمارے لیے خطرہ ہو۔
نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اختیارات، جیسے مجموعی سکیورٹی ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں ہی رہیں گے،اب لوگ کہیں گے کہ یہ تو ایک مکمل ریاست نہیں ہے مگر ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم دو ریاستی حل نیتن یاہو
پڑھیں:
آزاد فلسطینی ریاست اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد حل ہے، پوپ لیو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو نے ایک مرتبہ پھر واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اسرائیل فلسطین تنازع کا واحد پائیدار حل ہے۔
ترکیہ سے لبنان جاتے ہوئے طیارے میں سنئیر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پوپ نے یاد دلایا کہ رومن کیتھولک چرچ کی اعلیٰ قیادت کئی برسوں سے دو ریاستی حل کی حمایت کرتی آئی ہے اور یہی مؤقف آج بھی برقرار ہے۔
پوپ لیو کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا کے کئی ممالک دو ریاستی حل کی ضرورت کو تسلیم کر چکے ہیں، لیکن اسرائیل اس حل کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دیتا، جو خطے میں دیرپا امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ تنازع کے خاتمے، عوام کے حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کے لیے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔
پوپ نے مزید کہا کہ ہولی سی — یعنی رومن کیتھولک چرچ کی مرکزی قیادت — نے 2015 میں فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا، اور یہ اقدام اس بات کی علامت ہے کہ چرچ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی مکمل حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری جلد ایک ایسا راستہ نکالے گی جس سے خطے میں امن، استحکام اور انسانی حقوق کی پاسداری ممکن ہو سکے۔