شکست خوردہ نیتن یاہو کی ٹرمپ سے ملاقات اور خطے کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشرق وسطیٰ میں بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ کے بارے میں تو ویسے ہی کہا جاتا ہے کہ ایک جھولے کی طرح ہے، جس میں کبھی ایک پلڑا اوپر چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرا پلڑا بلند ہو جاتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ہمیشہ اس وقت جنگ شروع کرتے ہیں، جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا نقصان برائے نام ہوگا اور وہ جنگ جیت جائیں گے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیلی پلاننگ بری طرح ناکام ہوئی اور پورا اسرائیل حملوں کی زد پر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے بار جنگ کی گرمی کو اسرائیلیوں کے گھروں تک پہنچایا۔ اس سے پہلے تو اسرائیلی شہری دوربینیں لے کر غزہ پر ہوتی بمباری کو بلند مقامات سے انجوائے کرتے تھے۔ انہیں معصوموں کی آہ و بکا سے سکون ملتا تھا، یہ لاشوں کو دیکھ کر انجوائے کرتے تھے اور بھوک و قحط مسلط کرکے اسے اپنے دفاع کا نام دیتے تھے۔ سکول، عبادتگاہیں، ہسپتال اور امدادی مراکز پر حملے کیے جاتے تھے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔
امریکی اسلحہ نے عصر حاضر کا سب سے بڑا قتل عام ممکن بنایا۔ جب ایرانی میزائل اسرائیل کی ملٹری عمارات کو نشانہ بنانے لگے تو آہ بکا شروع کر دی کہ سویلین پر حملے ہو رہے ہیں۔ ظلم، دہرا معیار اور مغربی میڈیا کی انسانیت دیشمنی دیکھیے کہ اسرائیل کے فوجی اہداف کے ساتھ موجود کچھ سول عمارتوں کے شیشے ٹوٹ جانے پر واویلا کیا جا رہا ہے، مگر یہی میڈیا ہسپتالوں میں سینکڑوں بچوں کی شہادت پر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ہزار کے قریب ایرانی شہید ہوئے، جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ ان حملوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، مگر اسرائیل کے ان کے بقول تیس چالیس لوگ مرے، ان کو اتنا ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے کہ جیسے بہت بڑا قتل عام ہو۔ یہ دہرا معیار اور یہ منافقت مغرب کے اصل چہرے سے نقاب ہٹا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم تمام تر قتل عام کے باوجود نہ غزہ سے قیدی چھڑا سکا اور نہ ہی مزاحمت کو ختم کرسکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں نے اس کی رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ دونوں محاذوں پر شکست کے بعد اب اسرائیلی وزیراعظم نے ٹرمپ سے کھانے پر اور اس کے بعد بھی ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ماہرین کے مطابق تین بڑے مسئلے زیر غور آئے ہوں گے۔ پہلا، غزہ میں جنگ کا خاتمہ دوسرا، ایران کا معاملہ اور تیسرا، نام نہاد ابراہیم اکارڈ کا مسئلہ۔ اگرچہ یہ تینوں موضوعات الگ الگ ہیں، لیکن آپس میں کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کی اعلانیہ پالیسی ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے اور یہ علاقہ پہلے امریکہ اور پھر بذریعہ امریکہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ غزہ کی مزاحمت نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
دو سال ہونے کو ہیں، مگر یہ اپنے انسانیت دشمن منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی شام میں اسرائیل و امریکہ نواز حکومت کا قیام ہے۔ کل ملا کر انہیں یہی بچا ہے، یہ کب تک ایسا ہی رہتا ہے، یہ وقت بتائے گا۔ ابھی تک جولانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کی توقع سے زیادہ ان کی خدمت گزار واقع ہوئی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے سے ہے، جس کا آغاز کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو بڑے خوشنما نعرے کا لباس پہنایا جائے گا اور اصل مقصد یہ ہوگا کہ کسی نا کسی طرح فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جائے۔ اس کے کچھ خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے تمام فلسطینیوں کو علاقے کے جنوب میں واقع ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔ اس کیمپ سے ان کی مراد رفع کراسنگ کے پاس مصر کی سرحد پر سارے اہل غزہ کو جمع کرنا ہے۔
ابھی دنیا کو یہ دکھایا جائے گا کہ ہم پورے علاقے سے دہشتگروں کو ختم کریں گے پھر تعمیر نو کر کے لوگوں کو گھروں میں بسائیں گے۔یہ سب ڈرامہ اور فراڈ ہو گا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ ہے کہ اس نے جب بھی کسی گاوں یا شہر سے فلسطینیوں کو نکالا ہے پھر کبھی ان کی واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ اردن، شام، لبنان اور دنیا بھر میں موجود فلسطینی مہاجرین کو دیکھ لیں۔ آج اسرائیل کسی بھی صورت میں ان کے گھر واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسانی حقوق کے کچھ انسانیت پسند اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مائیکل سفرڈ کے مطابق یہ غزہ کی پٹی کے جنوبی سرے پر آبادی کی منتقلی کے بارے میں ہے، تاکہ پٹی سے باہر جلاوطنی کے لیے حالات سازگار کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس اسرائیلی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف ایک جرم قرار دیا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا تھا کہ مقبوضہ علاقے کی شہری آبادی کی ملک بدری یا جبری منتقلی بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت سختی سے ممنوع ہے اور نسل کُشی کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقاتیں دراصل خطے میں تبدیل ہوتی دفاعی صورتحال میں اسرائیل کے کردار کو بچانا ہے۔ اس کو سمجھنا مشکل نہیں اگر امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ آتا تو اسرائیل کتنے دن سروائیو کرسکتا تھا؟ جس طرح سے اسرائیلی ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ اسرائیل ویسے ہی خالی ہو جانا ہے۔ اسرائیل کو خطے کے ایجنٹ ممالک سے تمام تر مدد کے باوجود اسرائیل کی ساخت برباد ہو گئی ہے۔اب کوئی بڑی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے کے تمام دفاعی نظام تو ناکام ہوچکے ہیں اور اس سے بڑھ کر امریکہ کے پاس بھی کچھ موجود نہیں، جس سے وہ اسرائیل کی مدد کرے۔
ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو کے بارے میں اسرائیل کی کہ اسرائیل اسرائیل کے نہیں ہونا ایران سے ہے کہ وہ جاتا ہے کی بات ہے اور اور اس
پڑھیں:
ٹرمپ اور نیتن یاہو کی غزہ جنگ بندی پر 24 گھنٹوں میں دوسری خفیہ ملاقات
ٹرمپ اور نیتن یاہو کی غزہ جنگ بندی پر 24 گھنٹوں میں دوسری خفیہ ملاقات WhatsAppFacebookTwitter 0 9 July, 2025 سب نیوز
واشنگٹن:(آئی پی ایس) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے 24 گھنٹوں کے اندر دوسری مرتبہ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، جس کا مقصد غزہ میں جنگ بندی کے امکانات پر بات چیت کرنا تھا۔
منگل کی شام ہونے والی یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی، لیکن میڈیا کو رسائی نہیں دی گئی اور کوئی باضابطہ بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔
الجزیرہ کے نمائندے مائیک ہنّا کے مطابق واشنگٹن ڈی سی سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس ملاقات کے بارے میں “بہت کم معلومات دستیاب ہیں”، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ شاید کوئی رکاوٹ یا اختلافی نکتہ دونوں رہنماؤں کے درمیان پیش آیا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ پچھلے دن دونوں رہنماؤں نے مثبت بیانات دیے تھے، لیکن اس خفیہ ملاقات کی نوعیت اور تفصیلات کا نہ آنا ظاہر کرتا ہے کہ حالات اتنے سادہ نہیں۔
ادھر غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مزید 95 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جس سے صورتحال مزید نازک ہوتی جا رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرٹرمپ کی پیوٹن پر سخت تنقید، روس پر مزید پابندیوں کا عندیہ دے دیا ٹرمپ کی پیوٹن پر سخت تنقید، روس پر مزید پابندیوں کا عندیہ دے دیا پاک بھارت جنگ بندی میں ٹرمپ کا کردار نہ ہونے کے بھارتی دعوے کو امریکا نے جھوٹا قرار دے دیا پشاور کی عدالت کا پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی کو اسفند یار ولی کو 10لاکھ ہرجانہ دینے کا حکم قومی ایئر لائن کی نجکاری کیلئے 4 سرمایہ کار کمپنیاں اہل قرار افغان طالبان نے عالمی فوجداری عدالت کے سپریم لیڈر کی گرفتاری وارنٹ کو مسترد کر دیا حج 2026: عازمین کی لازمی رجسٹریشن کا کل آخری روزCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم