یمن سے جدید ترین میزائلوں سے حملے قابو سے باہر ہیں، صیہونی اخبار
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
یمن کے مسلسل اور گہرائی میں نشانے پر لگنے والے میزائل حملوں کے متعلق صیہونی ذمہ داروں کی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار کا کہنا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ان حملوں کو روکنے میں ناکامی کو شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف یمن کے حملوں کے متعلق صیہونی اخبار ہارتز لکھا ہے کہ جدید ترین میزائلوں کے حملے اسرائیلی افواج روکنے سے قاصر ہیں۔ یمن کے مسلسل اور گہرائی میں نشانے پر لگنے والے میزائل حملوں کے متعلق صیہونی ذمہ داروں کی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار کا کہنا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ان حملوں کو روکنے میں ناکامی کو شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صیہونی انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ حملے روکنا اسرائیل کے لئے ممکن نہیں۔ اسی طرح مغربی کنارے، غزہ اور مسجد الاقصیٰ میں ہونیوالے واقعات کیوجہ سے یمنی حملون میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، حوثی مجاہدین ایسے دشمن میں تبدیل ہو چکے ہیں جس کا مقابلہ اسرائیل کے لئے مشکل ہے۔ صیہونی اخبار کے مطابق یمنی ہر حملے کے بعد اچھی طرح جائزہ لیتے ہیں اور حملے میں حاصل ہونیوالی کامیابی کی روشنی اگلا حملہ کرتے ہیں، جو پہلے سے زیادہ کارگر اور مہلک ہوتا ہے۔ صیہونی محفلوں میں یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی وجہ دراصل یمنی میزائل حملے ہیں، جن کی وجہ سے اسرائیل کو مجبور ہو کر جنگ روکنا پڑے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جا رہا ہے
پڑھیں:
اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) آج جمعرات کو دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نو ستمبر کو دوحہ پر بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے اسرائیل نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو قطر کی فضائی حدود میں بھی داخل نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی وہ تیل سے مالا مال اس عرب ریاست کے فضائی دفاعی نظام کو چکمہ بھی دے سکیں۔
ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کی قیادت کو ہدف بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر کے پانیوں کے اوپر فضا سے فائر کیے تھے۔
ہلاک شدگان کی تعداد اور اسرائیلی حملے کے اثراتدوحہ میں ان میزائل حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے پانچ کا تعلق حماس سے تھا اور چھٹا ایک قطری سکیورٹی اہلکار تھا۔
(جاری ہے)
ہلاک ہونے والے حماس کے پانچوں ارکان اس فلسطینی تنظیم کے درمیانے درجے کے رہنما یا ارکان تھے، جن میں سے ایک خلیل الحیہ کا ایک بیٹا تھا۔تاہم ان حملوں میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ سمیت اس فلسطینی تنظیم کی وہ اعلیٰ قیادت محفوظ رہی تھی، جسے اسرائیل ہدف بنا کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
قطر میں اسرائیل کے ان میزائل حملوں کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ سے جاری ان ثالثی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، جو قطر کی طرف سے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور حماس کو کسی فائر بندی معاہدے تک لانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہلاک کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سےغزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ ایک تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھی۔
حملہ کیسے کیا گیا؟امریکہ کے جس دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہرنہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو اس اسرائیلی حملے کی تفصیلات بتائیں، اسے اس بات کا براہ راست علم تھا کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ کیسے اور کہاں سے کیا۔
اس اہلکار کے مطابق اسے حساس انٹیلیجنس معلومات افشا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ایک دوسرے امریکی دفاعی اہلکار نے بھی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ اسرائیل نے دوحہ میں یہ حملہ ''افقی پوزیشن‘‘ سے کیا اور اس وقت اسرائیلی جنگی طیارے ''قطر کی فضائی حدود سے باہر‘‘ تھے۔
امریکی فوج میں عام طور پر ''افقی پوزیشن‘‘ سے کی جانے والی کارروائی کی اصطلاح ان فضائی حملوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بہت دور سے کیے گئے ہوں۔
اسرائیلی جنگی طیارے کتنے تھے؟خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل نے ان فضائی حملوں کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو نہ صرف قطر بلکہ خطے کی دیگر عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کی فضائی حدود سے بھی باہر ہی رکھا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس ایئر مشن میں تقریباﹰ 10 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اس دوران تقریباﹰ 10 میزائل فائر کیے گئے۔
اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس نے دوحہ میں اس بہت نپے تلے فضائی حملے میں کس طرح کے ہتھیار کہاں سے فائر کیے۔
ان حملوں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے نیوز ایجنسی اے پی نے اسرائیلی فوج، قطری حکومت اور امریکہ میں پینٹاگون سے تبصرے کی جو درخواستیں کیں، ان کا تینوں میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔
’ساری بات صرف چند منٹ کی تھی‘برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو اور میزائلوں سے متعلقہ امور کے ماہر سدھارتھ کوشال نے بتایا، ''یہ میزائل فائر کیے جانے اور ان کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے درمیانی وقفے کی بات کی جائے، تو یہ ساری بات صرف چند منٹ کی ہی تھی۔
یہ کوئی بہت طویل وقت نہیں تھا۔‘‘انہوں نے کہا، ''اگر قطری فضائی دفاعی نظام کو اس حملے کا علم ہو بھی گیا تھا، یا ہو بھی جاتا، تو بھی پیٹریاٹ میزائلوں کے لیے ان اسرائیلی بیلسٹک میزائلوں کو انٹرسیپٹ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔‘‘
اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملوں کے لیے کس طرح کے ذرائع کیسے استعمال کیے، اس بارے میں اولین تفصیلات امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کیں۔
ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ