حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر میں جنگ بندی مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مشرقِ وسطیٰ میں جاری شدید کشیدگی کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والی سفارتی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تعطل کا شکار ہو گئیں۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی سے متعلق ہونے والے مذاکرات کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہونے والے اس سفارتی عمل کو امن کی جانب ایک پیش رفت سمجھا جا رہا تھا، لیکن ابتدائی دور کی ناکامی نے امریکا کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
فلسطینی سفارتی ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس مطابق اسرائیلی وفد اگرچہ بات چیت میں شریک ہوا، تاہم اس وفد کو کسی بھی قسم کے معاہدے پر دستخط یا فیصلہ کرنے کے اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اس بات نے فلسطینی فریقین اور ثالث ممالک میں مایوسی کو جنم دیا۔ اسرائیلی وفد کی محدود حیثیت نے مذاکرات کو رسمی سطح سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔
یہ صورت حال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کچھ ہی دن قبل حماس نے قطر اور امریکا کی طرف سے پیش کیے گئے ایک نئے مجوزہ جنگ بندی منصوبے پر مثبت ردعمل دیا تھا۔ اس ردعمل کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ دونوں فریق کسی ممکنہ معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی طرف سے جاری بیانات نے بھی فضا کو کشیدہ رکھا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حماس کے حالیہ مطالبات اسرائیل کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں، تاہم اسرائیل نے قطر مذاکرات میں شرکت کے لیے ایک اعلیٰ سطح وفد بھیجا، مگر اسے فیصلہ کن اختیارات نہ دینا اس بات کا عندیہ ہے کہ اسرائیلی حکومت فی الحال کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو اس تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کے لیے تیار ہو چکا ہے اور قیدیوں کی رہائی کے امکانات بھی روشن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ رواں ہفتے کے دوران حماس سے ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
قطر مذاکرات کی ابتدائی ناکامی نے امریکی دعوؤں کو ایک مرتبہ پھر مشکوک بنا دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل سنجیدہ اور مکمل اختیارات کے حامل وفود کے ساتھ مذاکرات میں شریک نہیں ہوتا، تب تک اس عمل سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد ہونا ممکن نہیں۔
دوحہ میں موجود سفارتی ذرائع کے مطابق آئندہ چند روز میں مذاکرات کا دوسرا دور متوقع ہے، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل اپنے موقف میں لچک دکھاتا ہے یا نہیں۔ اگر فریقین اس تعطل کو توڑنے میں ناکام رہے تو خطے میں جاری انسانی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعہ کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جن میں 3 فلسطینی جان کی بازی ہار گئے۔ یہ واقعات امریکی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی غزہ کے علاقوں میں اسرائیل نے گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر قائم ہیں۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخمی ہونے والا ایک اور فلسطینی شہری بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
امریکا کی ثالثی میں طے پانے والی جنگ بندی میں کئی اہم معاملات، جیسے حماس کا غیر مسلح ہونا اور اسرائیلی افواج کے انخلا کا شیڈول، ابھی تک حل طلب ہیں۔ یہ معاہدہ تین ہفتے قبل نافذ ہوا تھا، تاہم وقفے وقفے سے ہونے والے تشدد کے واقعات نے اسے بار بار پرکھا ہے۔
28 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی فورسز نے اپنے ایک فوجی کی ہلاکت کے جواب میں غزہ کے مختلف علاقوں میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق 104 افراد شہید ہو گئے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
جنگ بندی کے تحت، حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا، بدلے میں تقریباً 2 ہزار فلسطینی قیدیوں اور نظر بند شہریوں کو رہا کیا گیا۔ اسرائیل نے بھی اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے، حملے روکنے اور امدادی سرگرمیوں میں اضافہ کرنے پر اتفاق کیا۔
حماس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ تمام 28 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرے گی، جبکہ اسرائیل 360 فلسطینی جانبازوں کی لاشیں واپس کرے گا۔ اب تک حماس نے مجموعی طور پر 17 اسرائیلی لاشیں واپس کی ہیں، جبکہ 225 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ منتقل کی گئی ہیں۔ حماس کے مطابق باقی اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس تاخیر کر کے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ جنگ میں اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اور پورا علاقہ شدید تباہی کا شکار ہے۔