اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی خاطر مذاکرات بغیر کسی پیش رفت ختم
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات کا تازہ دور کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی عہدیدار نے تصدیق کی کہ مذاکرات لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہے اور یہ دو الگ الگ عمارتوں میں منعقد ہوئے۔
بی بی سی کے مطابق قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے دونوں فریقین نے پیغامات اور وضاحتیں ایک دوسرے تک پہنچائیں، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی، عہدیدار نے مزید بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور پیر کو متوقع ہے، جس میں ثالثین ہر فریق سے علیحدہ ملاقاتیں کریں گے تاکہ اختلافات کم کیے جا سکیں۔
برطانوی خبر رساں اداے رائٹرز کے مطابق، 2 فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وفد کو معاہدہ کرنے کے لیے درکار اختیارات حاصل نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکا کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں، جہاں وہ پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ وہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے پیش رفت کی امید رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے مذاکرات کاروں کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ اسرائیل کی تسلیم شدہ شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔
ادھر حماس کا کہنا ہے کہ اس نے جنگ بندی کی تازہ تجویز پر ’مثبت انداز‘ میں جواب دیا ہے، تاہم واضح ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ابھی بھی واضح اختلافات موجود ہیں، حماس بدستور ان شرائط پر قائم ہے جن میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے انخلا کی ضمانت شامل ہے، جنہیں اسرائیلی حکومت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔
مزید پڑھیں:
نیتن یاہو کی حکومت کی پالیسی میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی، امریکا روانگی سے قبل انہوں نے کہا کہ ان کے 3 اہداف بدستور وہی ہیں: تمام مغویوں کی بازیابی، حماس کی عسکری صلاحیتوں کا خاتمہ، اور غزہ کو دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ بننے سے روکنا۔
دوحہ میں جاری ان مذاکرات میں مصری اور قطری ثالثوں کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ مارچ میں ختم ہونے والی پچھلی جنگ بندی کے بعد کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تب سے اسرائیل نے نہ صرف غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کی ہیں بلکہ گیارہ ہفتے طویل امدادی پابندیاں بھی عائد کیں، جنہیں چند ہفتے قبل جزوی طور پر ختم کیا گیا۔
اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات حماس کو کمزور کرنے اور مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، اسرائیلی فوج کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 130 حماس اہداف پر حملے کیے گئے اور متعدد جنگجو مارے گئے۔ تاہم غزہ میں شہری ہلاکتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اسپتال حکام کے مطابق، اتوار کو 30 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا قطر میں جاری بات چیت دونوں فریقین کو قابل قبول سمجھوتے تک لا سکے گی، اور کیا امریکا میں نیتن یاہو کو یہ قائل کیا جا سکے گا کہ جنگ کا خاتمہ ضروری ہے، اسرائیل میں بڑی تعداد میں لوگ اب سمجھتے ہیں کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جنگ کا اختتام ضروری ہے۔ اسی جذبے کے تحت لوگ ہفتے کی شب دوبارہ سڑکوں پر نکلے اور نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ کسی معاہدے پر پہنچ کر مغویوں کو رہا کروائیں۔
تاہم نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود سخت گیر وزرا، جیسے نیشنل سیکیورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ، حماس کے مکمل خاتمہ تک غزہ میں جنگ کے خاتمے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔
یوں بظاہر ایک بار پھر جنگ بندی کی امید نظر آ رہی ہے، مگر خدشات برقرار ہیں کہ کہیں یہ امید بھی باقی کوششوں کی طرح ایک اور ’جھوٹی صبح‘ ثابت نہ ہو۔
واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے یہ جنگ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد شروع کی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تب سے اب تک غزہ میں شہدا کی تعداد 57,338 سے تجاوز کر چکی ہے، جس کا دعویٰ غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کر رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی وزیر اعظم امریکا بی بی سی ثالثی جنگ بندی حماس رائٹرز صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ قطر مذاکرات مصر نیتن یاہو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر اعظم امریکا ثالثی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات نیتن یاہو نیتن یاہو کے مطابق حماس کے پیش رفت کا کہنا کے لیے
پڑھیں:
ہم اپنی خودمختاری کے دفاع کیلئے جوابی اقدام کیلئے پُرعزم ہیں، امیر قطر
عرب و اسلامی ممالک کے ایک ہنگامی سربراہی اجلاس میں شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل، شام کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، لیکن یہ سازشیں ناکام ہوں گی۔ نتین یاہو، عرب دنیا کو اسرائیلی اثر کے تحت لانے کا خواب دیکھ رہا ہے، جو ایک خطرناک وہم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ "دوحہ" میں عرب اور اسلامی ممالک کا ایک ہنگامی سربراہی اجلاس ہوا، جس کا آغاز قطر کے امیر "شیخ تمیم بن حمد آل ثانی" کے خطاب سے ہوا۔ اس موقع پر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ قطر کے دارالحکومت پر ایک بزدلانہ حملہ کیا گیا، جس میں "حماس" رہنماؤں کے خاندانوں اور مذاکراتی وفد کے رہائشی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے شہری، اس حملے سے حیران رہ گئے اور دنیا بھی اس دہشتگردی و جارحیت پر چونک گئی۔ حملے کے وقت حماس کی قیادت قطر اور مصر کی جانب سے دی جانے والی ایک امریکی تجویز پر غور کر رہی تھی۔ اس اجلاس کی جگہ سب کو معلوم تھی۔ امیر قطر نے کہا کہ اسرائیل کی غزہ پر جنگ اب نسل کشی میں بدل چکی ہے۔ دوحہ نے حماس اور اسرائیل کے وفود کی میزبانی کی اور ہماری ثالثی سے کچھ اسرائیلی و فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر اسرائیل، حماس کی سیاسی قیادت کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں کرتا ہے؟۔ اسرائیل کی جارحیت کُھلی بزدلی اور غیر منصفانہ ہے۔
امیر قطر نے کہا کہ مذاکراتی فریق کو مسلسل نشانہ بنانا دراصل مذاکراتی عمل کو ناکام بنانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل، غزہ کو ایسا علاقہ بنانا چاہتا ہے جہاں رہائش ممکن نہ ہو تا کہ وہاں کے لوگوں کو جبراً ہجرت پر مجبور کیا جا سکے۔ اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہر بار عرب دنیا پر نئی حقیقتیں مسلط کر سکتا ہے۔ شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے کہا کہ عرب خطے کو اسرائیل کے اثر و رسوخ میں لانا ایک خطرناک خیال ہے۔ اسرائیل، شام کو تقسیم کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن یہ سازشیں ناکام ہوں گی۔ نتین یاہو، عرب دنیا کو اسرائیلی تسلط کے زیر اثر لانے کا خواب دیکھ رہا ہے، جو ایک خطرناک وہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل نے عرب امن منصوبے کو قبول کر لیا ہوتا تو خطہ بے شمار تباہیوں سے محفوظ رہتا۔ اسرائیل کی انتہاء پسند رژیم، دہشت گردانہ اور نسل پرستانہ پالیسیاں ایک ساتھ اپنا رہی ہے۔ امیر قطر نے واضح کیا کہ ہم اپنی خودمختاری کے تحفظ اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر ضروری قدم اٹھانے کے لئے پُرعزم ہیں۔