دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات کا تازہ دور کسی پیش رفت کے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی عہدیدار نے تصدیق کی کہ مذاکرات لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے جاری رہے اور یہ دو الگ الگ عمارتوں میں منعقد ہوئے۔

بی بی سی کے مطابق قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے دونوں فریقین نے پیغامات اور وضاحتیں ایک دوسرے تک پہنچائیں، تاہم کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی، عہدیدار نے مزید بتایا کہ مذاکرات کا اگلا دور پیر کو متوقع ہے، جس میں ثالثین ہر فریق سے علیحدہ ملاقاتیں کریں گے تاکہ اختلافات کم کیے جا سکیں۔

برطانوی خبر رساں اداے رائٹرز کے مطابق، 2 فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وفد کو معاہدہ کرنے کے لیے درکار اختیارات حاصل نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکا کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں، جہاں وہ پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ وہ قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے لیے پیش رفت کی امید رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے مذاکرات کاروں کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ اسرائیل کی تسلیم شدہ شرائط پر جنگ بندی کا معاہدہ کریں۔

ادھر حماس کا کہنا ہے کہ اس نے جنگ بندی کی تازہ تجویز پر ’مثبت انداز‘ میں جواب دیا ہے، تاہم واضح ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ابھی بھی واضح اختلافات موجود ہیں، حماس بدستور ان شرائط پر قائم ہے جن میں مکمل جنگ بندی اور اسرائیلی فوج کے انخلا کی ضمانت شامل ہے، جنہیں اسرائیلی حکومت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔

مزید پڑھیں:

نیتن یاہو کی حکومت کی پالیسی میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی، امریکا روانگی سے قبل انہوں نے کہا کہ ان کے 3 اہداف بدستور وہی ہیں: تمام مغویوں کی بازیابی، حماس کی عسکری صلاحیتوں کا خاتمہ، اور غزہ کو دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ بننے سے روکنا۔

دوحہ میں جاری ان مذاکرات میں مصری اور قطری ثالثوں کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ مارچ میں ختم ہونے والی پچھلی جنگ بندی کے بعد کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تب سے اسرائیل نے نہ صرف غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کی ہیں بلکہ گیارہ ہفتے طویل امدادی پابندیاں بھی عائد کیں، جنہیں چند ہفتے قبل جزوی طور پر ختم کیا گیا۔

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات حماس کو کمزور کرنے اور مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں، اسرائیلی فوج کے مطابق، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 130 حماس اہداف پر حملے کیے گئے اور متعدد جنگجو مارے گئے۔ تاہم غزہ میں شہری ہلاکتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اسپتال حکام کے مطابق، اتوار کو 30 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا قطر میں جاری بات چیت دونوں فریقین کو قابل قبول سمجھوتے تک لا سکے گی، اور کیا امریکا میں نیتن یاہو کو یہ قائل کیا جا سکے گا کہ جنگ کا خاتمہ ضروری ہے، اسرائیل میں بڑی تعداد میں لوگ اب سمجھتے ہیں کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو بچانے کے لیے جنگ کا اختتام ضروری ہے۔ اسی جذبے کے تحت لوگ ہفتے کی شب دوبارہ سڑکوں پر نکلے اور نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ کسی معاہدے پر پہنچ کر مغویوں کو رہا کروائیں۔

تاہم نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود سخت گیر وزرا، جیسے نیشنل سیکیورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ، حماس کے مکمل خاتمہ تک غزہ میں جنگ کے خاتمے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔

یوں بظاہر ایک بار پھر جنگ بندی کی امید نظر آ رہی ہے، مگر خدشات برقرار ہیں کہ کہیں یہ امید بھی باقی کوششوں کی طرح ایک اور ’جھوٹی صبح‘ ثابت نہ ہو۔

 

واضح رہے کہ اسرائیلی فوج نے یہ جنگ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے بعد شروع کی تھی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تب سے اب تک غزہ میں شہدا کی تعداد 57,338 سے تجاوز کر چکی ہے، جس کا دعویٰ غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیلی وزیر اعظم امریکا بی بی سی ثالثی جنگ بندی حماس رائٹرز صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ قطر مذاکرات مصر نیتن یاہو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر اعظم امریکا ثالثی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مذاکرات نیتن یاہو نیتن یاہو کے مطابق حماس کے پیش رفت کا کہنا کے لیے

پڑھیں:

اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ / یروشلم(مانیٹرنگ ڈیسک/آن لائن) فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اسرائیلی فوج نے جمعے کو مسلسل چوتھے روز غزہ کی پٹی پر حملے کیے، جس میں 3 افراد شہید ہوگئے یہ واقعہ جنگ بندی معاہدے کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیل نے شمالی غزہ کے علاقوں میں گولہ باری اور فائرنگ کی، جبکہ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والی جنگ بندی پر قائم ہے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق ایک اور فلسطینی شہری گزشتہ روز ہونے والے حملوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ حماس کی جانب سے اسرائیل کے 2 یرغمالیوں کی لاشیں حکام کے حوالے کرنے کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں تلاش کرنے اور انہیں ملبے سے نکالنے میں وقت لگے گا، جبکہ اسرائیل نے الزام عاید کیا ہے کہ حماس تاخیر کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔اسرائیلی فوج کی ایک اعلیٰ ترین قانونی افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق تومر یروشلمی اسرائیلی فوج میں ملٹری ایڈووکیٹ جنرل کے طور پر تعینات تھیں اور ان کے خلاف قیدیوں پر فوجی اہلکاروں کے تشدد کی وڈیو لیک ہونے کے معاملے پر تحقیقات جاری تھیں۔ میجر جنرل یفات تومر یروشلمی انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ میں تسلیم کرتی ہوں کہ میں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لیے یہ مواد میڈیا کو جاری کرنے کی اجازت دی۔ میں اس فیصلے کی مکمل ذمہ داری لیتی ہوں۔ انہوں نے اپنے استعفے میں اعتراف کیا کہ انہوں نے خود ایک ایسی وڈیو میڈیا کو لیک کرنے کی منظوری دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستانی وزارت اطلاعات نے ایک بھارتی نیوز چینل کے ان غیر تصدیق شدہ یا سیاسی مقاصد پر مبنی دعووں کی تردید کی ہے کہ پاکستان غزہ میں 20 ہزار فوجی بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے اور یہ کہ پاکستان نے اپنے پاسپورٹ سے یہ شق ہٹا دی ہے کہ یہ ’اسرائیل کے لیے کارآمد نہیں‘۔ بھارتی نیوز آؤٹ لَیٹ ’ری پبلک ٹی وی‘ نے یہ الزامات لگائے تھے، جس میں فوجیوں کی تعداد کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ پاکستان اپنی افواج مغربی ممالک اور اسرائیل کی نگرانی میں غزہ بھیجنے کا ارادہ کر رہا ہے۔ لبنانی صدر جوزف عون نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ ملک کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی کسی بھی مزید دراندازی کا سختی سے مقابلہ کرے۔ گزشتہ کئی روز سے اسرائیلی افواج لبنانی سرزمین پر حملے کر رہی ہیں اور گزشتہ سال نومبر میں نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی روزانہ خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے اپنے2 یرغمالیوں امی رام کوپر اور سحر بروخ کی باقیات کی شناخت کر لی ہے، جن کی لاشیں حماس کی جانب سے واپس کی گئیں۔ وزیرِاعظم نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں افراد کے اہلِ خانہ کو اس وقت آگاہ کیا گیا جب قومی ادارہ برائے فرانزک میڈیسن نے شناختی عمل مکمل کرلیا۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل کی جانب سے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ انتظامیہ کے حوالے
  • غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں