data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جرمنی کے شہر میں موسیقی کے دلدادہ افراد نے ایک نیا عالمی ریکارڈ بناتے ہوئے تاریخ کے اوراق میں اپنا نام درج کرایا ہے۔ ملک بھر سے تعلق رکھنے والے 1,353 وائلن نوازوں نے ایک ساتھ ساز بجا کر نہ صرف ایک منفرد کارنامہ انجام دیا، بلکہ ثقافتی ہم آہنگی کا بھی شاندار مظاہرہ کیا۔

اس تقریب میں ہر عمر کے موسیقاروں نے شرکت کی، جن میں ننھے بچوں سے لے کر بزرگ فنکاروں تک سب شامل تھے۔ انہوں نے اجتماعی طور پر وائلن بجاتے ہوئے ایک ایسا جادو جگایا کہ حاضرین بھی موسیقی کے سحر میں کھو گئے۔

یہ منظر نہ صرف دیدنی تھا، بلکہ اس نے ثابت کیا کہ موسیقی کی طاقت لوگوں کو ایک دھن پر متحد کر سکتی ہے۔ یہ اجتماع صرف ایک ریکارڈ تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس نے ثقافتی رواداری اور باہمی محبت کا بھی پیغام دیا۔ مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والے موسیقاروں نے ایک ہی دھن پر اپنے ساز چھیڑ کر یہ ثابت کیا کہ فن کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق اس سے قبل ایسا کوئی واقعہ ریکارڈ نہیں کیا گیا تھا جہاں اتنے زیادہ وائلن نوازوں نے ایک ساتھ ساز بجایا ہو۔ تقریب کے منتظمین نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درخواست جمع کرا دی ہے، جس کی تصدیق کا انتظار ہے۔ اگر یہ ریکارڈ منظور ہو جاتا ہے، تو یہ جرمنی کے لیے ایک اور اعزاز ہوگا۔

اس طرح کے واقعات نہ صرف موسیقی کے شوقین افراد کے لیے متاثر کن ہوتے ہیں، بلکہ یہ ثقافتی تہذیبوں کو آپس میں جوڑنے کا بھی ایک ذریعہ ہیں۔ جرمنی میں ہونے والا یہ اجتماع ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ موسیقی کسی بھی معاشرے میں امن اور خوشی پھیلانے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے ایک

پڑھیں:

حق کی تلوار اور ظلم کا تخت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے نام بھی ہیں جنہوں نے اپنے کردار، قربانی، فضیلت اور غیر متزلزل اصولوں کی بدولت ایسا ابدی مقام حاصل کیا ہے کہ ان کی بازگشت صرف وقت کے گزرنے سے نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر میں گہرائی تک سنائی دیتی ہے۔ ان نادر اور عظیم ہستیوں میں سیدنا امام حسینؓ کا نام نمایاں ہے، جو نبی کریمؐ کے پیارے نواسے ہیں۔ ان کا نام نہ صرف تاریخ ِ اسلام کے اوراق پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے بلکہ انسانیت کے ضمیر پر سچائی، مزاحمت اور اخلاقی جرأت کی علامت کے طور پر نقش ہو چکا ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کی قربانی کربلا کا واقعہ صرف تاریخ کا ایک باب نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی ایک لازوال گواہی ہے، جو زندگی کی قربانی دے کر بھی سچائی پر قائم رہنے کا درس دیتی ہے۔ آپ نے یزید کی ظالمانہ حکومت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا، نہ ہی وقتی مصلحتوں کو اپنے اخلاقی نظریے پر حاوی ہونے دیا۔ آپ کا موقف کسی اقتدار یا دنیاوی خواہش کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مقدس امانت کا تقاضا تھا۔ حق کا علم بلند رکھنا، اپنے نانا سیدنا محمدؐ کی میراث کا تحفظ کرنا اور اسلام کو ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں مسخ ہونے سے بچانا۔ جب ہر طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور تمام وسائل ختم ہو گئے، تب بھی سیدنا امام حسینؓ نے خوف کے آگے جھکنے کے بجائے سر بلند کیا۔ اسی استقامت کے صلے میں آپؓ کو شہادت کا عظیم رتبہ اور دائمی عزت نصیب ہوئی۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں، ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں، رزق دیے جا رہے ہیں‘‘۔ (سورہ آلِ عمران، 169)

یہ آیت سیدنا امام حسینؓ اور اْن کے ساتھیوں کی شہادت کو موت نہیں بلکہ ایک مقدس بلندی، ایک روحانی عروج قرار دیتی ہے۔ یہ شہادت ایک افسوسناک انجام نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں جاں نثاری کا ابدی اعزاز ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ ہرگز رائیگاں نہیں گیا۔ یہ لہو ضمیر کی فتح، عزت کی سر بلندی اور ظلم کے مقابل ڈٹ جانے کی عظیم علامت بن گیا۔ اگرچہ اْس المناک دن کو صدیاں بیت چکی ہیں، مگر کربلا آج بھی زندہ ہے۔ مایوسی کی داستان کے طور پر نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف جرأت کی ایک بلند نشان کے طور پر۔

نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’سب سے بہترین جہاد وہ ہے جو ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہی جائے‘‘۔ اور اس قولِ مبارک کی سب سے روشن مثال کوئی ہے تو وہ سیدنا امام حسینؓ ہی ہیں۔ آپؓ کے پیارے نواسے، جنہوں نے سچائی کو جان سے عزیز رکھا۔ ظلم و جبر کے طریقے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، مگر ان کا اصل چہرہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ حالیہ دور میں، غزہ میں معصوم بچوں کا قتل ِ عام، کشمیر میں جاری بے رحمانہ ظلم، افغانستان اور شام میں عزتِ انسانی کا انکار اور روہنگیا مسلمانوں کا نسل کشی سے بچ کر دربدر ہونا، یہ سب کربلا کی روح کی بازگشت ہیں۔ تاریخ آج بھی یزیدیت کے نئے چہروں کی گواہی دیتی ہے۔ تاہم، سیدنا حسینؓ کا پیغام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔

ہر سال جب محرم کا مقدس مہینہ لوٹتا ہے، تو دنیا بھر کے مسلمان یومِ عاشورہ کو مایوسی یا بے بسی کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک نئے عزم اور تجدید ِ وفا کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ یہ آنسو صرف غم نہیں ہوتے، یہ وفاداری کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسینؓ آج بھی زندہ ہیں۔ ہر اْس دل میں جو ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے، ہر اْس روح میں جو اصول کو غلامی پر ترجیح دیتی ہے۔ حسینیت کی یہ روح نہ سرحدوں کی محتاج ہے، نہ مسلک کی، نہ زبان کی۔ یہ صرف شیعہ یا سنی، عرب یا عجم تک محدود نہیں۔ یہ ہر اْس جگہ زندہ ہے جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے۔ چاہے وہ فلسطینی بچے کی جرأت ہو، کشمیری ماں کی دعا ہو، یا کسی بھی مظلوم کی وہ پکار جو اقتدار کے ایوانوں کے سامنے حق کی بات کہنے کی جرأت رکھتی ہے۔ سیدنا امام حسینؓ کا پیغام اْن سب کے اندر سانس لیتا ہے۔ وہ ماضی کی کوئی داستان نہیں، بلکہ ہر عدل و انصاف کی جدوجہد میں ایک زندہ و متحرک قوت ہیں۔ اور ایسے مواقع پر جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے، مظلوموں کی حمایت نہیں کرتے، اور خاموش رہتے ہیں، وہ درحقیقت یزیدیت کے حامی شمار ہوتے ہیں۔ ظلم کے مقابلے میں غیر جانب داری، معصومیت نہیں بلکہ شراکتِ جرم ہے۔ جو حسینؓ کے ساتھ کھڑا ہونے سے انکار کرتا ہے، وہ یزید کے پہلو میں کھڑا ہوتا ہے۔ ظلم پر خاموشی خود ایک قسم کی غداری ہے۔ ہر اْس یزید کے مقابلے میں، جو خوف کے ذریعے سچ کو دبانا چاہتا ہے، وہاں ایک حسینؓ ضرور اْٹھے گا جو ایمان سے جواب دے گا۔ ہر اْس نظام کے مقابلے میں جو جھوٹ اور جبر پر قائم ہو، ایک ایسی آواز ضرور بلند ہوگی جو سمجھوتے کی خاموشی کے بجائے قربانی کی تلوار کو چن لے گی۔

حسینیت اور یزیدیت کی جاری اس جنگ میں غیر جانب داری دراصل شریک ِ جرم ہونا ہے۔ ہر انسان کو فیصلہ کرنا ہے۔ ایک باعزت زندگی کا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں ختم ہو جائے، یا ایک آرام دہ زندگی کا جو ظلم کے قدموں میں زنجیروں سے بندھی ہو۔ سیدنا امام حسینؓ نے عزت کا راستہ چْنا، اور اس انتخاب کے ذریعے اْنہوں نے ہر اس شخص کے لیے راستہ روشن کر دیا جو وقار اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ روحِ کربلا ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک شخص کا انکار بھی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے۔ یہ کہ سچ جب جرأت سے جْڑ جائے تو تمام ظالموں سے زیادہ دیرپا ثابت ہوتا ہے۔ یہ جنگ کربلا میں ختم نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہر اْس سرزمین میں جاری ہے جہاں ظلم پنپ رہا ہو۔ لیکن جب تک دل سچائی کے لیے دھڑکتے رہیں گے، جب تک مظلوم سر اْٹھاتے رہیں گے، اور جب تک انسانیت بزدلی کے بجائے اخلاقی بصیرت کو چنے گی۔ سیدنا امام حسینؓ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ غم کا نام نہیں بلکہ مزاحمت کا عَلَم بن کر۔ دکھ کی یاد نہیں بلکہ انصاف کا وعدہ بن کر۔ اور ایک شہید کے طور پر نہیں جو گر گیا ہو، بلکہ ایک ایسی روح کے طور پر جو ہمیشہ کے لیے بلند ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ویان ملڈر نے ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخ رقم کردی، حنیف محمد کا 66 سالہ ریکارڈ توڑ دیا
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی: انڈیکس نے نئی تاریخ رقم کردی
  • پاکستان سٹاک مارکیٹ میں نیا ریکارڈ، انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو گیا
  • جرمنی، سائیکلنگ چیمپئن شپ میں سائیکلسٹ تماشائیوں میں جا گھسے، 9 افراد زخمی
  • حق کی تلوار اور ظلم کا تخت
  • نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں(آخری حصہ)
  • جرمنی چین تعلقات کی ترقی کی رفتار بہتر ہے، جرمن چانسلر
  • ویمن ایشیا کپ کوالیفائر: پاکستان نے مسلسل دوسرا میچ جیت کر تاریخ رقم کردی
  • مقبوضہ کشمیر میں شراب کی دکانوں کا قیام علاقے کی مذہبی، ثقافتی شناخت پر براہ راست حملہ