8 سالہ سدرہ  البوردینی، جو ایک سال قبل غزہ میں اسرائیلی حملے میں اپنا بازو کھو بیٹھی تھی، اردن کے پناہ گزین کیمپ میں مصنوعی بازو ملنے کے بعد دوبارہ سائیکل چلانے کے قابل ہو گئی، یہ بازو پاکستانی کمپنی بائیونکس نے کراچی میں تیار کیا، جو تصاویر سے 3ڈی ماڈل بنا کر کم لاگت میں مصنوعی اعضا بناتی ہے۔

سدرہ  اور 3 سالہ حبیبت اللہ نے، جس نے غزہ میں ایک حملے میں دونوں بازو اور ایک ٹانگ کھو دی تھی، کئی دن تک آن لائن مشورے اور ویڈیو فٹنگز کے ذریعے بازو حاصل کیا۔ بعد ازاں انس نیاز خود کراچی سے اردن کے دارالحکومت عمان پہنچے تاکہ ان دونوں بچیوں کو بازو فراہم کیے جاسکیں۔

They didn’t ask for much.

Just a chance to move again. To feel like kids again.
This is not just about prosthetics, it’s about restoring what should’ve never been taken.#Bioniks #Gaza #Sidra #Bionic #GazaSurvivor #Accessibility #Inclusivity #HealGaza pic.twitter.com/fX5U4OYyXe

— Bioniks.org (@Bioniksorg) July 4, 2025

سدرہ  کا بازو عمان میں واقع مفاز کلینک نے اسپانسر کیا، جبکہ حبیبت اللہ کے بازو اور ٹانگ کے اخراجات پاکستانی عطیات سے پورے کیے گئے، مفاز کلینک کی سی ای او انتسار اساکر کے مطابق، اُنہوں نے بائیونکس کو اس کے کم اخراجات اور آن لائن سہولیات کی وجہ سے منتخب کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ریلیف ایجنسی کو فلسطینیوں کی مدد سے روکنے پر اقوام متحدہ اسرائیل پر برہم

کمپنی کے مطابق ان کا ہر بازو تقریباً 2 ہزار 5 سو ڈالرز کی لاگت سے تیار ہوتا ہے، جبکہ مغربی ممالک میں اس کی قیمت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، بائیونکس کارٹون کرداروں جیسے آئرن مین یا ایلسا کو بچوں کے بازوؤں میں شامل کر کے ان کی قبولیت آسان بناتی ہے۔

یواین او سی ایچ اے یعنی اقوامِ متحدہ کا ادارہ برائے ہم آہنگی انسانی امداد کے مطابق، غزہ میں اب تک تقریباً 4,500 افراد حالیہ جنگی صورتحال میں معذور ہو چکے ہیں، جبکہ پہلے سے موجود معذور افراد کی تعداد 2,000  تھی، ان میں سے بڑی تعداد بچوں کی ہے، جو حالیہ تاریخ کے بدترین معذوری کے بحرانوں میں سے ایک ہے۔

سدرہ  اس وقت زخمی ہوئی تھی جب وہ نصیرات اسکول میں پناہ لیے ہوئے تھی، جو اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے عارضی پناہ گاہ میں تبدیل کیا گیا تھا، سدرہ کی والدہ صبریں البوردینی نے بتایا کہ غزہ کے تباہ حال صحت کے نظام اور وہاں سے نہ نکل سکنے کی مجبوری کے باعث سدرہ  کا بازو بچایا نہیں جا سکا۔

مزید پڑھیں:غزہ: لاپتا بیٹے کی تلاش میں سرگرداں باپ کی کہانی

صبریں نے فون پر بتایا کہ سدرہ اب باہر کھیل رہی ہے اور اس کے تمام دوست اور بہن بھائی اُس کے نئے بازو کو دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ ’میں خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتی، یہ دن میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔‘

یہ بازو پاکستان کے شہر کراچی میں بننے والی کمپنی بائیونکس نے تیار کیا، جو اسمارٹ فون ایپ کے ذریعے مختلف زاویوں سے تصاویر لے کر 3ڈی  ماڈل بناتی ہے تاکہ ہر مریض کے لیے انفرادی طور پر بازو تیار کیا جا سکے۔

بائیونکس کے سی ای او انس نیاز کے مطابق اُن کی کمپنی نے 2021 سے اب تک پاکستان میں 1,000 سے زائد افراد کو ایسے بازو فراہم کیے ہیں، تاہم یہ پہلا موقع تھا جب اُنہوں نے کسی جنگ زدہ علاقے کے متاثرین کے لیے مصنوعی اعضا فراہم کیے۔

مزید پڑھیں:غزہ میں لاپتا، گرفتار اور مار ے گئے بچوں کی تعداد 21 ہزار سے متجاوز

سدرہ  اب بھی اپنے نئے بازو کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر رہی ہے، وہ اب اس پر ایک خوبصورت کنگن پہنتی ہے، پچھلے سال، جب وہ دونوں ہاتھوں سے بننے والا آسان سا دل کا نشان بنانا چاہتی تھی تو اسے کسی دوسرے سے مدد لینا پڑتی تھی، لیکن اس بار اُس نے خود دل بنایا اور اس کی تصویر بھی لی۔

سدرہ  نے مصنوعی بازو ملنے کے بعد خود دل کا نشان بنا کر کھینچی گئی تصویر اپنے والد کو بھیجی، جو اب بھی غزہ میں محصور ہیں، سدرہ کا کہنا ہے کہ وہ سب سے زیادہ اپنے والد کو گلے لگانے کے لمحے کی منتظر ہے۔

فلسطینی ادارہ شماریات کے اپریل 2024 کے مطالعے کے مطابق، اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد اب تک 7,000 سے زائد بچے زخمی ہو چکے ہیں، مقامی صحت حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں 50,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً ایک تہائی بچے شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:اسرائیل غزہ جنگ وسیع تر خطے میں پھیل سکتی ہے، اقوام متحدہ

بائیونکس کے سربراہ انس نیاز کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین جیسے دیگر جنگ زدہ علاقوں کے لیے بھی اعضا فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ عالمی سطح پر خدمات فراہم کرنے والی کمپنی بن سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

3 ڈی اردن اسرائیل انس نیاز بائیونکس سدرہ عمان غزہ فلسطینی کراچی مصنوعی بازو

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 3 ڈی اسرائیل انس نیاز بائیونکس فلسطینی کراچی انس نیاز کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

‘بوچا ویچس’، روس سے لڑنے والا یوکرینی خواتین کا یہ گروپ کون ہے اور کیسے وجود میں آیا؟

KYIV:

روس اور یوکرین کی جنگ کو تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس جنگ میں اب تک لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اس دوران یوکرین سے لاکھوں افراد دوسرے ممالک منتقل ہوگئے ہیں یا اپنے ہی دیس میں بے گھر ہوچکے ہیں لیکن جنگ تاحال جاری ہے۔

روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران کئی شہریوں کی جانب سے اپنے دفاع کی کئی مثالیں بھی سامنے آچکی ہیں اور حال ہی میں غیرملکی میڈیا نے یوکرین میں خواتین کے گروپ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے، جس کو ‘بوچا ویچس’ کا نام دیا گیا ہے جو رضاکارانہ طور پر روس کے خلاف یوکرین کی فوج کی مدد کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بوچا ویچس یوکرین کی خواتین کا پہلا ایئرڈیفنس یونٹ ہے، جس کو روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، اس گروپ کی اکثر خواتین وہ ہیں جن کا روس اور یوکرین کی جنگ میں ناقابل تلافی ذاتی نقصان ہوا ہے۔

بوچا ویچس کی رضاکار خواتین کا تعلق یوکرین کے دارالحکومت کیف کے مضافات بوچا سے ہے، جو جنگ کے شروع میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ تھا جہاں رپورٹس کے مطابق روسی فوج نے مبینہ طور پر 450 سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا، جن میں مرد، خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل تھے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ روسی فوج نے بوچا میں 33 روز تک قبضہ برقرار رکھا اور اس دوران ہزاروں افراد پر تشدد کیا، اس کے علاوہ ریپ اور لوٹ مار کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

بوچا میں ان واقعات کے بعد وہاں کی خواتین کے ایک بڑے گروپ نے روس کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے ‘ویچس آف بوچا’ کے نام سے گروپ تشکیل دیا اور یہ گروپ یوکرین کی ویمن ایئرڈیفنس یونٹ بن گیا اور انہوں نے اعلان کیا اب وہ روس کی جارحیت کے خلاف اپنے گھروں اور لوگوں کی حفاظت کریں گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوچا ویچس میں ہر عمر کی خواتین شامل ہیں، جن میں 19 سال سے لے کر 60 سال کی خواتین بھی ہیں اور انہیں روسی ڈرونز گرانے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور خاص طور پر ایرانی ساختہ اور روسی گیران ڈرونز گرانے کا کام سونپ دیا گیا ہے۔

مذکورہ گروپ میں شامل خواتین میں سے کوئی پروفیشنل فوجی نہیں ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی اکثریت نے یوکرینی فون کی سروس میں شمولیت کے لیے تحریری طور پر لکھ کر دیا ہے۔

الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں 51 سالہ خاتون ویلنٹینا کا حوالہ دیا گیا ہے، جو بوچا ویچس کی سرگرم رکن ہیں، انہوں نے کہا کہ میری والدہ میرے اس کام سے بہت خوش ہیں اور یہاں پر موجود تمام ہمارے دوست، ساتھی، بھائی اور بہنیں ایک ہیں اور ہمارا ایک مقصد ہے کہ ہم فتح کی رفتار میں اضافہ کریں اور جس طرح حاصل ہو فتح حاصل کی جائے۔

ویلنٹینا کے تین بچے ہیں اور تقریباً خواتین پر مشتمل مذکورہ یونٹ کا فعال رکن ہیں اور وہ ماسکو کے خطرناک ڈرونز کا مقابلہ کرتی ہیں۔

یوکرینی خواتین کے اس یونٹ کی تربیت کہاں ہوئی، اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کسی بھی خاتون نے کبھی فوجی تربیت حاصل نہیں کی، اسی لیے انہیں گوریلا تربیت کے لیے مورڈور بھیجا جا رہا ہے اور ان خواتین کو سابق فوجی تربیت دے رہے ہیں اور انہیں جسمانی اور نفسیاتی حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔

بوچا ویچس کو فوجی تربیت دینے والے ایک انسٹرکٹر کرنل اینڈری ویرلیٹی نے تربیتی گروپ کو تاکید کی کہ جب آپ وردی پہنتے ہیں تو آپ مرد یا خاتون نہیں ہوتے بلکہ آپ ایک دفاع کرنے والے جنگجو کہلاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق خواتین رضاکاروں کو تربیت کے دوران 20 ویں صدی کی میکسم ایم 1910 مشین گن کا استعمال سکھایا گیا اور اب 150 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے اڑنے والے ڈرونز نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، جو عام طور پر 50 کلوگرام تک دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ ڈرونز جب بڑی تعداد میں اڑ رہے ہوں تو نشانہ بنانا مشکل ہوجاتا ہے۔

خاتون رضاکار ویلنٹینا نے اس حوالے سے کہا کہ ڈرون خوف ناک بلکہ بہت خوف ناک ہوتے ہیں۔

بوچا ویچس کی تشکیل کے مقاصد کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ روس سے جنگ کے دوران یوکرینی فوج میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تقریباً 65 ہزار خواتین فوج کا حصہ ہے اور 4 ہزار خواتین لڑاکا یونٹ میں شامل ہیں۔

یوکرینی فوج میں شامل خواتین میں بوچا ویچس بھی شامل ہیں، جن میں اکثر وہ خواتین ہیں جو گھریلو، پروفیشنلز اور جنگ سے متاثرہ ہیں اور وہ روس کی فوج کے خلاف اپنے گھروں کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔

کیف میں آرٹ گیلری کی مالک خواتین کیٹریانہ نے تسلیم کیا کہ وہ پریشان تھیں اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی بندوق کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا لیکن انہوں نے دیگر کئی خواتین کی طرح اس نئی حقیقت کو تسلیم کیا اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے میدان میں آگئی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نتالیا بھی ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے بوچا سے اپنے بچوں کے ساتھ نقل مکانی کرکے جان بچائی لیکن بعد میں بدلہ لینے کے لیے واپس گئیں اور ان کا کہنا تھا کہ باہر سے دیکھنے کے بجائے جنگ میں حصہ لینا بہتر ہے۔

ایک اور خاتون اولینا نے بتایا کہ میرا مقصد لوگوں کو محفوظ رکھنا اور انہیں پرامن طریقے سے زندگی گزارنے کا موقع دینا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اے سی میں ڈرائی موڈ کیا کام کرتا ہے اور یہ کیسے بجلی کا بِل کم کرسکتا ہے؟
  • سوال کیسے پوچھیں؟
  • امارات میں غیرملکی طلبا گولڈن اقامہ کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟
  • ٹیکنالوجی کے اُجالے میں تنہائی کا اندھیرا؟
  • ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے، ساقی!
  • لیاری، ملبے تلے دبے افراد کی نشاندہی کیلیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
  • ‘بوچا ویچس’، روس سے لڑنے والا یوکرینی خواتین کا یہ گروپ کون ہے اور کیسے وجود میں آیا؟
  • ملبے کے نیچے پھنسے انسان کی حرکت کا پتا لگانے والی نئی ٹیکنالوجی تیار
  • دیرینہ شراکت داری بہت اہم:وزیراعظم ٹرمپ کو یوم آزادی پر مبارکباد ‘امید ہے  عالمی تنازعات حل ہونگے: وزیر داخلہ