Express News:
2025-07-07@11:23:02 GMT

سوال کیسے پوچھیں؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

کہا جاتا ہے کہ ’’جو سوال کرنا نہیں جانتا، وہ سیکھنا بھی نہیں جانتا۔‘‘ لیکن سوال محض زبان سے نکلا ایک جملہ نہیں، یہ درحقیقت اک سوچ، اک تجسس اور اک حُسنِ طرزِ بیاں ہے۔ سوال وہی کامیاب ہوتا ہے جو موقع، سیاق، لہجے اور مقصد کے ساتھ پوچھا جائے۔

تعلیم و تربیت میں ’سوال پوچھنے‘ کو اکثر صرف طالبِ علم کی فطری جستجو سمجھا جاتا ہے، لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ ایک ایسی مہارت ہے جسے سیکھا، سکھایا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔


سوال صرف پوچھا نہیں جاتا، تراشا جاتا ہے

دنیا کے عظیم سائنس دان، مفکر اور مصلحین سب سے پہلے سوال کرنا جانتے تھے۔ نیوٹن نے سیب کو گرتے دیکھ کر خود سے سوال کیا  کہ ’’یہ نیچے ہی کیوں گرتا ہے؟‘‘

مارٹن لوتھر کنگ نے پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز، معاشرتی عدم مساوات اور شہری حقوق کی پامالی دیکھ کر سوال کیا : ’’ہم کب تک برابر نہیں سمجھے جائیں گے؟‘‘

یعنی سوال محض جواب تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ کسی گتھی کو سلجھانے کا آغاز ہوتا ہے۔

سوال کیسے پوچھا جائے؟ کیا ہر سوال مؤثر ہوتا ہے؟ کیا ہر وقت سوال کرنا مناسب ہے؟ کیا سوال کا انداز اثر ڈالتا ہے؟ آئیے! اس فن کی تہہ میں اترتے ہیں۔


واضح مقصد کے ساتھ سوال کیجیے

سوال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی مقصد کے تحت پوچھا جائے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹیچنگ اور لرننگ لیبارٹری کی تحقیق (Brookfield, 2012) کے مطابق جو سوال مقصد کے بغیر ہوتا ہے وہ اکثر کلاس میں الجھن یا مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سوال کرنے سے پہلے خود سے یہ ضرور پوچھیے:

·       کیا میں معلومات لینا چاہتا ہوں؟

·       کیا مجھے کسی وضاحت کی تلاش ہے؟

·       کیا میں دوسروں کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتا ہوں؟

·       کیا میں محض  کسی کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں؟

یہ سب مقاصد سوال کے اسلوب، وقت اور زبان پر اثر ڈالتے ہیں۔

 

سوال کا وقت اور موقع پہچانیے

کب سوال کیا جائے؟ یہ سوال کا سب سے نازک پہلو ہے۔

اگر استاد کسی اہم بات کی وضاحت کر رہے ہوں یا کسی پیچیدہ نکتہ پر گفتگو کر رہے ہوں یا کسی طالب علم کی جذباتی کیفیت غیر متوازن ہو تو اس دوران سوال کرنا نہ صرف خلل ڈال سکتا ہے بلکہ دیگر طلبا کےلیے بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پورا دھیان دیا ہو، سوال سوچ کر تیار کیا ہو اور موزوں وقت کا انتظار کیا ہو تو یہی سوال پوری کلاس کےلیے فائدہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی مناسب وقفہ آئے، فوراً سوال کرکے فائدہ اٹھائیے۔


سوال میں احترام، تجسس اور عاجزی ہو

سوال کا لہجہ بہت کچھ طے کرتا ہے۔

(1) آپ کو پتا بھی ہے؟

(2) کیا آپ وضاحت فرما سکتے ہیں؟

ان دونوں سوالوں کا مفہوم شاید قریب قریب ایک ہی ہو، لیکن اثر زمین و آسمان کے فرق سا ہے۔

Deborah Tannen کہتی ہیں:

"Language isn't neutral; it's relational.

A question can open a door—or slam it shut."
(Tannen, 2001)

یعنی: زبان غیرجانب دار نہیں ہوتی بلکہ تعلقات پر اثر ڈالتی ہے۔ ایک سوال کسی کے لیے دروازہ کھول بھی سکتا ہے اور بند بھی کر سکتا ہے۔

سوال اگر تکبر، چیلنج یا بدگمانی سے کیا جائے تو علم کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہی سوال ادب اور عاجزی سے ہو تو نہ صرف جواب ملتا ہے بلکہ دل بھی جیتا جاتا ہے۔

 

کھلا سوال (Open-ended) زیادہ سیکھنے کا موقع دیتا ہے

سوال دو قسم کے ہوتے ہیں:

بند سوال (Closed-ended): جن کا جواب ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ہوتا ہے۔

کیا نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی؟
کھلے سوال (Open-ended): جن کا جواب تفصیل طلب ہوتا ہے۔

نیوٹن نے کشش ثقل کے نظریے تک کیسے رسائی حاصل کی؟

Chin (2006) کے مطابق، کھلے سوالات (جیسے ’کیوں؟‘ اور ’کیسے؟‘) طلبا کی تنقیدی اور تجزیاتی سوچ میں اضافہ کرتے ہیں۔

 

سوال کے بعد سننے کا حوصلہ رکھنا

سوال پوچھنے کے بعد اکثر طلبا یا لوگ ’اپنی پسند کا جواب‘ سننا چاہتے ہیں نہ کہ ’درست جواب‘۔ اصل ہنر یہ ہے کہ سوال پوچھ کر خاموشی سے سننے کی برداشت رکھی جائے اور اگر جواب الجھا ہوا ہو تو اسے مزید سوال کے ذریعے واضح کیا جائے۔

سوال پوچھنا اک طرز ہے، لیکن جواب سننا اور سمجھنا ایک الگ رویہ اور مہارت ہے۔ بعض اوقات ہم صرف اپنی بات ثابت کرنے کے لیے سوال کرتے ہیں اور جب جواب آتا ہے تو سننا گوارا نہیں کرتے۔ ایک اچھا طالبِ علم کھلے ذہن کے ساتھ جواب کو قبول کرتا ہے چاہے وہ اس کی سوچ سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔


سوال پوچھنے کا فائدہ صرف جواب نہیں، رشتہ بھی ہوتا ہے

جب ایک طالبِ علم سوال کرتا ہے تو وہ استاد سے نہ صرف علم مانگتا ہے بلکہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُس سے رشتہ بھی استوار کرتا ہے۔ یہ عمل کمرۂ جماعت میں احترام، شراکت اور مکالمے کو فروغ دیتا ہے اور تدریس محض یک طرفہ عمل نہیں رہتی۔

اب سوال یہ ہے کہ ’اگر سوال پوچھنا واقعی ایک فن ہے تو کیا ہم اسے سیکھ سکتے ہیں؟‘
جواب ہے: ’جی ہاں! ضرور!‘

نیچے دیے گئے نکات نہ صرف تحقیق پر مبنی ہیں بلکہ عملی زندگی سے آزمودہ بھی ہیں۔ یہ نکات خاص طور پر طلبا اور اساتذہ کےلیے سودمند ہیں جو سیکھنے، سکھانے اور سوچنے کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

 

مطالعہ کی عادت اپنائیے

سوال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ معلومات پہلے سے ذہن میں ہو اور کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جاننے کا احساس ہو۔ روزانہ مطالعہ آپ کے ذہن میں نئے خیالات، تضادات اور خلا پیدا کرتا ہے اور انھی خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے سوالات جنم لیتے ہیں۔

مثال: اگر آپ نے قائداعظم کی تقریروں کا مطالعہ کیا ہے، تو آپ یہ سوال کر سکتے ہیں:

قائداعظم کا تصورِ پاکستان مذہبی بنیاد پر تھا یا سیاسی؟ یہ سوال صرف مطالعے کے بعد ہی ذہن میں آئے گا۔

تجویز: روزانہ کم از کم 10–15 منٹ غیر نصابی، معلوماتی یا تجزیاتی مطالعہ ضرور کیجیے۔

 

سوالات کےلیے نوٹ بک رکھیے

ایک چھوٹی کاپی یا ڈیجیٹل آلہ رکھیے جس میں روزانہ کے مشاہدات، کلاس کے مواد یا کسی گفتگو سے جنم لینے والے سوالات لکھیے، چاہے وہ کتاب سے ہوں، زندگی یا خبروں سے۔ وقت کے ساتھ آپ کو سوال تراشنا آ جائے گا۔

مثال: خبروں میں اگر آپ نے پڑھا کہ مصنوعی ذہانت تعلیمی میدان میں انقلاب لا رہی ہے، تو سوال نوٹ کیجیے:

’مصنوعی ذہانت سے استاد کا کردار کیسے بدلے گا؟‘

عادت بنائیے: روز کا کم از کم ایک سوال ، خواہ کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو، ضرور لکھیے۔ یہ ایک ذہنی ورزش ہے۔

 

TED Talks یا مکالماتی پروگرام سنیے

جب آپ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مکالمات، مباحثوں یا سوال و جواب کے پروگرام سنیں گے تو سوال کرنے کا انداز، ترتیب اور وقار سمجھنے میں مدد ملے گی ۔

مثال:
TED Talk: "Do Schools Kill Creativity?" by Sir Ken Robinson

یہ لیکچر نہ صرف سوال کی اہمیت اجاگر کرتا ہے بلکہ اس میں کیے گئے سوالات خود ایک مثال ہیں کہ اچھے سوال کیسے سننے والے کو چونکا دیتے ہیں۔

عملی مشورہ: ہر ہفتے ایک ویڈیو دیکھ کر اس سے دو سوالات نوٹ کیجیے۔

 

استاد سے فیڈبیک (تأثرات) لیجیے

آپ جو سوال پوچھتے ہیں، اس پر استاد یا کسی فکری دوست سے رائے اور تبصرہ طلب کیجیے: ’سر! کیا یہ سوال موضوع سے متعلق اور مناسب تھا؟‘

’ کیا اسے بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا تھا؟‘

یہ عمل نہ صرف آپ کو نکھارے گا بلکہ استاد کے ساتھ ایک علمی تعلق بھی پیدا کرے گا۔

سیکھنے کا زاویہ: اچھا سوال صرف زبان سے نہیں، دل سے سیکھا جاتا ہے اور اس میں رہنمائی بہت اہم ہوتی ہے۔

 

سہ جہتی سوالیہ مشق کیجیے (کیا؟ کیوں؟ کیسے؟)

یہ ایک آسان لیکن گہری مشق ہے۔ ہر نئے موضوع سے متعلق یا کسی بھی نکتے، مسئلے یا خیال پر تین سوال خود سے کیجیے۔ یہ مشق ذہنی تجزیے کی بہترین تربیت ہے۔

یہ کیا ہے؟

یہ کیوں ہوتا ہے؟

یہ کیسے کام کرتا ہے؟

ایسے سوالات آپ کی تنقیدی (critical) اور تجزیاتی (analytical) سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔

 

سوال لکھ کر تیار کیجیے

بعض اوقات سوال ذہن میں ہوتا ہے، لیکن کہتے یا پوچھتے ہوئے ذہن الجھ جاتا ہے اور یوں بغیر تیاری کے سوال اکثر مبہم یا بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سوال کو پہلےاچھی طرح سوچ اور ناپ تول کر کاغذ پر لکھ لیں تو وہ واضح، مربوط اور بااثر ہوگا ۔

مثال: بجائے اس کے کہ آپ کہیں: ’سر! وہ جو۔۔۔ مطلب۔۔۔ وہ DNA والا سوال۔۔۔‘

لکھ کر پوچھیے: ’سر! کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ DNA replication کے دوران polymerase enzyme کا کیا کردار ہوتا ہے؟‘

نتیجہ: استاد بھی متأثر ہوں گے اور آپ کی بات بھی مؤثر ہوگی۔

 

ادب، ضبط اور لہجے پر کام کیجیے

یاد رکھیے: ایک ہی بات اگر خوش اسلوبی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے کھلتے ہیں اور اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے  اور اگر بدسلیقی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے بند ہوتے ہیں۔

مثال: ’آپ کو پتا ہے ناں کہ یہ غلط ہے‘! کے بجائے کہیے: ’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس نکتے کو کسی اور زاویے سے بھی دیکھ سکیں؟‘

مشورہ: آئینے کے سامنے سوال کی مشق کیجیے آواز اور تأثرات پر نظر رکھیے۔

سوال صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، شخصیت کی تعمیر کا بھی ذریعہ ہے۔ اس لیے اسے بے دلی، جلد بازی یا تکبر سے نہ برتیے بلکہ سوچ سمجھ کر، سلیقے سے اور مقصد کے ساتھ استعمال کیجیے۔

سوال پوچھنا ایک مشق، ایک عمل اور سلیقے سے بھرپُور فن ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے، اپنانے کی ہمت چاہیے اور نکھارنے کا عزم۔ اگر ہم اپنے طلبہ کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھا دیں تو یقین جانیے وہ نہ صرف بہتر طالب علم بنیں گے بلکہ آنے والے کل کے قائد، دانش ور اور سائنس دان بھی بنیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سوال کرنا سوال صرف سکتے ہیں سوال کر سوال کی سوال کا یہ سوال کے ساتھ ہے بلکہ مقصد کے سکتا ہے ہوتا ہے کرتا ہے جاتا ہے اگر آپ ہے اور کے بعد اور اس

پڑھیں:

گنڈاپور کیخلاف کوئی سازش نہیں ہورہی: رانا ثنا 

اسلام آباد(آئی این پی )وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ  نے کہ پی  ٹی آئی اسوقت تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ، علی امین گنڈا پور کے خلاف کوئی سازش نہیں ہورہی، انہیں ڈر اپنی ہی جماعت سے ہے۔ علی امین گنڈا پور کو ڈر ہے کہ ان کی اپنی جماعت انہیں ہٹا نہ دے، سیاست میں سارا گیم نمبر گیم کا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں جس کی اکثریت ہوتی ہے وہی حکومت بناتی ہے، اپوزیشن کے پاس آج نمبر بڑھ جائیں تو وہ تحریک عدم اعتماد لاسکتی ہے۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستیں اپوزیشن کو ملنے کے بعد بھی نمبرز کم ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کا  شہباز شریف سے پرانا تعلق ہے، ملاقات کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔تحریک کے سوال پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی اسوقت تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، تحریک چلائیں گے تو ورکرز کے لے مقدمات کو بوجھ پیدا کریں گے، ورکرز اس وقت کسی تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اے سی میں ڈرائی موڈ کیا کام کرتا ہے اور یہ کیسے بجلی کا بِل کم کرسکتا ہے؟
  • یوٹیوبر فلک جاوید کا ’گروک‘ سے شہبازشریف کی شادیوں پر سوال، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا جواب سوشل میڈیا پر وائرل
  • ’گروک پاکستانیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے، اب اللہ ہی بچائے‘
  • سبیر بھاٹیہ کے چُبھتے سوال
  • پہلی بار حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اکھٹی ہے تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہے،وزیر داخلہ کا صدر کو ہٹانے سے متعلق سوال کا جواب
  • گنڈاپور کیخلاف کوئی سازش نہیں ہورہی: رانا ثنا 
  • صدر زرداری کو عہدے سے ہٹایا جارہا ہے؟ محسن نقوی سے صحافی کا سوال
  • صدر مملکت آصف علی زرداری کو ہٹانے سے متعلق سوال پر وزیر داخلہ محسن نقوی کا جواب
  • ''ہماری ترجیح غزہ میں جنگ بندی ہے،، اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے سوال پر  سعودی وزیر خارجہ کا جواب