کہا جاتا ہے کہ ’’جو سوال کرنا نہیں جانتا، وہ سیکھنا بھی نہیں جانتا۔‘‘ لیکن سوال محض زبان سے نکلا ایک جملہ نہیں، یہ درحقیقت اک سوچ، اک تجسس اور اک حُسنِ طرزِ بیاں ہے۔ سوال وہی کامیاب ہوتا ہے جو موقع، سیاق، لہجے اور مقصد کے ساتھ پوچھا جائے۔
تعلیم و تربیت میں ’سوال پوچھنے‘ کو اکثر صرف طالبِ علم کی فطری جستجو سمجھا جاتا ہے، لیکن جدید تحقیق کے مطابق یہ ایک ایسی مہارت ہے جسے سیکھا، سکھایا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
سوال صرف پوچھا نہیں جاتا، تراشا جاتا ہے
دنیا کے عظیم سائنس دان، مفکر اور مصلحین سب سے پہلے سوال کرنا جانتے تھے۔ نیوٹن نے سیب کو گرتے دیکھ کر خود سے سوال کیا کہ ’’یہ نیچے ہی کیوں گرتا ہے؟‘‘
مارٹن لوتھر کنگ نے پچھلی صدی کی چھٹی دہائی میں امریکی معاشرے میں نسلی امتیاز، معاشرتی عدم مساوات اور شہری حقوق کی پامالی دیکھ کر سوال کیا : ’’ہم کب تک برابر نہیں سمجھے جائیں گے؟‘‘
یعنی سوال محض جواب تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ کسی گتھی کو سلجھانے کا آغاز ہوتا ہے۔
سوال کیسے پوچھا جائے؟ کیا ہر سوال مؤثر ہوتا ہے؟ کیا ہر وقت سوال کرنا مناسب ہے؟ کیا سوال کا انداز اثر ڈالتا ہے؟ آئیے! اس فن کی تہہ میں اترتے ہیں۔
واضح مقصد کے ساتھ سوال کیجیے
سوال کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے کسی مقصد کے تحت پوچھا جائے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹیچنگ اور لرننگ لیبارٹری کی تحقیق (Brookfield, 2012) کے مطابق جو سوال مقصد کے بغیر ہوتا ہے وہ اکثر کلاس میں الجھن یا مزاحمت پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سوال کرنے سے پہلے خود سے یہ ضرور پوچھیے:
· کیا میں معلومات لینا چاہتا ہوں؟
· کیا مجھے کسی وضاحت کی تلاش ہے؟
· کیا میں دوسروں کو سوچنے پر مجبور کرنا چاہتا ہوں؟
· کیا میں محض کسی کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں؟
یہ سب مقاصد سوال کے اسلوب، وقت اور زبان پر اثر ڈالتے ہیں۔
سوال کا وقت اور موقع پہچانیے
کب سوال کیا جائے؟ یہ سوال کا سب سے نازک پہلو ہے۔
اگر استاد کسی اہم بات کی وضاحت کر رہے ہوں یا کسی پیچیدہ نکتہ پر گفتگو کر رہے ہوں یا کسی طالب علم کی جذباتی کیفیت غیر متوازن ہو تو اس دوران سوال کرنا نہ صرف خلل ڈال سکتا ہے بلکہ دیگر طلبا کےلیے بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پورا دھیان دیا ہو، سوال سوچ کر تیار کیا ہو اور موزوں وقت کا انتظار کیا ہو تو یہی سوال پوری کلاس کےلیے فائدہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی مناسب وقفہ آئے، فوراً سوال کرکے فائدہ اٹھائیے۔
سوال میں احترام، تجسس اور عاجزی ہو
سوال کا لہجہ بہت کچھ طے کرتا ہے۔
(1) آپ کو پتا بھی ہے؟
(2) کیا آپ وضاحت فرما سکتے ہیں؟
ان دونوں سوالوں کا مفہوم شاید قریب قریب ایک ہی ہو، لیکن اثر زمین و آسمان کے فرق سا ہے۔
Deborah Tannen کہتی ہیں:
"Language isn't neutral; it's relational.
(Tannen, 2001)
یعنی: زبان غیرجانب دار نہیں ہوتی بلکہ تعلقات پر اثر ڈالتی ہے۔ ایک سوال کسی کے لیے دروازہ کھول بھی سکتا ہے اور بند بھی کر سکتا ہے۔
سوال اگر تکبر، چیلنج یا بدگمانی سے کیا جائے تو علم کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وہی سوال ادب اور عاجزی سے ہو تو نہ صرف جواب ملتا ہے بلکہ دل بھی جیتا جاتا ہے۔
کھلا سوال (Open-ended) زیادہ سیکھنے کا موقع دیتا ہے
سوال دو قسم کے ہوتے ہیں:
بند سوال (Closed-ended): جن کا جواب ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ہوتا ہے۔
کیا نیوٹن نے کشش ثقل دریافت کی؟
کھلے سوال (Open-ended): جن کا جواب تفصیل طلب ہوتا ہے۔
نیوٹن نے کشش ثقل کے نظریے تک کیسے رسائی حاصل کی؟
Chin (2006) کے مطابق، کھلے سوالات (جیسے ’کیوں؟‘ اور ’کیسے؟‘) طلبا کی تنقیدی اور تجزیاتی سوچ میں اضافہ کرتے ہیں۔
سوال کے بعد سننے کا حوصلہ رکھنا
سوال پوچھنے کے بعد اکثر طلبا یا لوگ ’اپنی پسند کا جواب‘ سننا چاہتے ہیں نہ کہ ’درست جواب‘۔ اصل ہنر یہ ہے کہ سوال پوچھ کر خاموشی سے سننے کی برداشت رکھی جائے اور اگر جواب الجھا ہوا ہو تو اسے مزید سوال کے ذریعے واضح کیا جائے۔
سوال پوچھنا اک طرز ہے، لیکن جواب سننا اور سمجھنا ایک الگ رویہ اور مہارت ہے۔ بعض اوقات ہم صرف اپنی بات ثابت کرنے کے لیے سوال کرتے ہیں اور جب جواب آتا ہے تو سننا گوارا نہیں کرتے۔ ایک اچھا طالبِ علم کھلے ذہن کے ساتھ جواب کو قبول کرتا ہے چاہے وہ اس کی سوچ سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
سوال پوچھنے کا فائدہ صرف جواب نہیں، رشتہ بھی ہوتا ہے
جب ایک طالبِ علم سوال کرتا ہے تو وہ استاد سے نہ صرف علم مانگتا ہے بلکہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُس سے رشتہ بھی استوار کرتا ہے۔ یہ عمل کمرۂ جماعت میں احترام، شراکت اور مکالمے کو فروغ دیتا ہے اور تدریس محض یک طرفہ عمل نہیں رہتی۔
اب سوال یہ ہے کہ ’اگر سوال پوچھنا واقعی ایک فن ہے تو کیا ہم اسے سیکھ سکتے ہیں؟‘
جواب ہے: ’جی ہاں! ضرور!‘
نیچے دیے گئے نکات نہ صرف تحقیق پر مبنی ہیں بلکہ عملی زندگی سے آزمودہ بھی ہیں۔ یہ نکات خاص طور پر طلبا اور اساتذہ کےلیے سودمند ہیں جو سیکھنے، سکھانے اور سوچنے کے ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
مطالعہ کی عادت اپنائیے
سوال اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کچھ معلومات پہلے سے ذہن میں ہو اور کچھ جاننے کے بعد کچھ نہ جاننے کا احساس ہو۔ روزانہ مطالعہ آپ کے ذہن میں نئے خیالات، تضادات اور خلا پیدا کرتا ہے اور انھی خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے سوالات جنم لیتے ہیں۔
مثال: اگر آپ نے قائداعظم کی تقریروں کا مطالعہ کیا ہے، تو آپ یہ سوال کر سکتے ہیں:
قائداعظم کا تصورِ پاکستان مذہبی بنیاد پر تھا یا سیاسی؟ یہ سوال صرف مطالعے کے بعد ہی ذہن میں آئے گا۔
تجویز: روزانہ کم از کم 10–15 منٹ غیر نصابی، معلوماتی یا تجزیاتی مطالعہ ضرور کیجیے۔
سوالات کےلیے نوٹ بک رکھیے
ایک چھوٹی کاپی یا ڈیجیٹل آلہ رکھیے جس میں روزانہ کے مشاہدات، کلاس کے مواد یا کسی گفتگو سے جنم لینے والے سوالات لکھیے، چاہے وہ کتاب سے ہوں، زندگی یا خبروں سے۔ وقت کے ساتھ آپ کو سوال تراشنا آ جائے گا۔
مثال: خبروں میں اگر آپ نے پڑھا کہ مصنوعی ذہانت تعلیمی میدان میں انقلاب لا رہی ہے، تو سوال نوٹ کیجیے:
’مصنوعی ذہانت سے استاد کا کردار کیسے بدلے گا؟‘
عادت بنائیے: روز کا کم از کم ایک سوال ، خواہ کتنا ہی سادہ کیوں نہ ہو، ضرور لکھیے۔ یہ ایک ذہنی ورزش ہے۔
TED Talks یا مکالماتی پروگرام سنیے
جب آپ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مکالمات، مباحثوں یا سوال و جواب کے پروگرام سنیں گے تو سوال کرنے کا انداز، ترتیب اور وقار سمجھنے میں مدد ملے گی ۔
مثال:
TED Talk: "Do Schools Kill Creativity?" by Sir Ken Robinson
یہ لیکچر نہ صرف سوال کی اہمیت اجاگر کرتا ہے بلکہ اس میں کیے گئے سوالات خود ایک مثال ہیں کہ اچھے سوال کیسے سننے والے کو چونکا دیتے ہیں۔
عملی مشورہ: ہر ہفتے ایک ویڈیو دیکھ کر اس سے دو سوالات نوٹ کیجیے۔
استاد سے فیڈبیک (تأثرات) لیجیے
آپ جو سوال پوچھتے ہیں، اس پر استاد یا کسی فکری دوست سے رائے اور تبصرہ طلب کیجیے: ’سر! کیا یہ سوال موضوع سے متعلق اور مناسب تھا؟‘
’ کیا اسے بہتر انداز میں پوچھا جا سکتا تھا؟‘
یہ عمل نہ صرف آپ کو نکھارے گا بلکہ استاد کے ساتھ ایک علمی تعلق بھی پیدا کرے گا۔
سیکھنے کا زاویہ: اچھا سوال صرف زبان سے نہیں، دل سے سیکھا جاتا ہے اور اس میں رہنمائی بہت اہم ہوتی ہے۔
سہ جہتی سوالیہ مشق کیجیے (کیا؟ کیوں؟ کیسے؟)
یہ ایک آسان لیکن گہری مشق ہے۔ ہر نئے موضوع سے متعلق یا کسی بھی نکتے، مسئلے یا خیال پر تین سوال خود سے کیجیے۔ یہ مشق ذہنی تجزیے کی بہترین تربیت ہے۔
یہ کیا ہے؟
یہ کیوں ہوتا ہے؟
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ایسے سوالات آپ کی تنقیدی (critical) اور تجزیاتی (analytical) سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں۔
سوال لکھ کر تیار کیجیے
بعض اوقات سوال ذہن میں ہوتا ہے، لیکن کہتے یا پوچھتے ہوئے ذہن الجھ جاتا ہے اور یوں بغیر تیاری کے سوال اکثر مبہم یا بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ سوال کو پہلےاچھی طرح سوچ اور ناپ تول کر کاغذ پر لکھ لیں تو وہ واضح، مربوط اور بااثر ہوگا ۔
مثال: بجائے اس کے کہ آپ کہیں: ’سر! وہ جو۔۔۔ مطلب۔۔۔ وہ DNA والا سوال۔۔۔‘
لکھ کر پوچھیے: ’سر! کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ DNA replication کے دوران polymerase enzyme کا کیا کردار ہوتا ہے؟‘
نتیجہ: استاد بھی متأثر ہوں گے اور آپ کی بات بھی مؤثر ہوگی۔
ادب، ضبط اور لہجے پر کام کیجیے
یاد رکھیے: ایک ہی بات اگر خوش اسلوبی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے کھلتے ہیں اور اس کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اگر بدسلیقی سے کہی جائے تو سیکھنے کے دریچے بند ہوتے ہیں۔
مثال: ’آپ کو پتا ہے ناں کہ یہ غلط ہے‘! کے بجائے کہیے: ’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اس نکتے کو کسی اور زاویے سے بھی دیکھ سکیں؟‘
مشورہ: آئینے کے سامنے سوال کی مشق کیجیے آواز اور تأثرات پر نظر رکھیے۔
سوال صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، شخصیت کی تعمیر کا بھی ذریعہ ہے۔ اس لیے اسے بے دلی، جلد بازی یا تکبر سے نہ برتیے بلکہ سوچ سمجھ کر، سلیقے سے اور مقصد کے ساتھ استعمال کیجیے۔
سوال پوچھنا ایک مشق، ایک عمل اور سلیقے سے بھرپُور فن ہے۔ اسے سیکھنے کی ضرورت ہے، اپنانے کی ہمت چاہیے اور نکھارنے کا عزم۔ اگر ہم اپنے طلبہ کو سوال کرنے کا سلیقہ سکھا دیں تو یقین جانیے وہ نہ صرف بہتر طالب علم بنیں گے بلکہ آنے والے کل کے قائد، دانش ور اور سائنس دان بھی بنیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سوال کرنا سوال صرف سکتے ہیں سوال کر سوال کی سوال کا یہ سوال کے ساتھ ہے بلکہ مقصد کے سکتا ہے ہوتا ہے کرتا ہے جاتا ہے اگر آپ ہے اور کے بعد اور اس
پڑھیں:
مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-8
شاہنواز فاروقی
انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کر سکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تا کہ خوش ہو سکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تا کہ انبساط محسوس کر سکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تا کہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہو جائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ’’کمیونز‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ’’مسرت‘‘ حاصل ہو سکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئے، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہو سکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن بہر حال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصویر انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔
انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکار حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادّی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مازی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔
چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادّی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اول و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلا شبہ انسان ایک جسم بھی ہے، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اْٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنا دیتا ہے، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح نفس اور جسم پر محیط ہے۔
رسول اکرمؐ کے عہد میں اگر چہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں، ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنے، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرمؐ کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہو گئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھے، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارالسلام سے فرار ہو گئے، یا پھر معاشرے میں نا قابل اثر بن کر رہ گئے۔
انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ’’مدلل‘‘ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں بھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہا کہ انسان ایک مادی حقیقت ہے، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی شے ہے، طبیعیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی چیز ہے… غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہو گیا۔ انسانوں نے کہا کہ اصل چیز سرمایہ ہے، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہے، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہے، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہے، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سر چشمہ بن گئی۔
لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟
اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں لیکن مادّی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نظام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو در پیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہے، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشتر کہ منڈی کا تصور ہے، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشتر کہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نے… مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ جو بھی سماجی بہبود، کم اوقات کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی ہے۔
مادّی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ء میں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ’’پیمانۂ مسرت‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روز گار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ تائیوان نے ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی نماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادّی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور نا کافی بھی۔
اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کر کے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔
ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہو جائے، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔
اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہے؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کر سکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔
اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کسی حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہے، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔
اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیے، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔
یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے نا آشنا ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔